قسطوں میں بٹی محبتیں، نفرتیں

یہ تحریر 1352 مرتبہ دیکھی گئی

دادا ابا، ابا سے کہتے۔ دیکھو اسے پڑھوانا مت۔ مجھے اس لڑکی کی حرکتوں سے خوف آتا ہے۔

“کچھ اپنے بارے میں”

شاید دادا چہرہ شناس تھے۔ بھانپ لیتے تھے کہ یہ نہنگ لاڈلی ہُشت ہُدو کرتی پھرتی ہے۔ وہ عذرا عباس کو چھڑی سے پیٹا کرتے۔ عذرا عباس بھی دادا کو تنگ کرنے اور جلانے سے باز نہ آتی۔ عداوت بھی ایک طرح کا رشتہ ہے۔ ٹوٹ جائے تو پھر نہیں جڑتا۔ اس نے جب دادا کے مرنے کی خبر سنی تو سب سے زیادہ روئی۔

عذرا عباس کی پہلی نظم “نیند کی مسافتیں”، جو تین کانٹوز پر مشتمل تھی، 1981ء میں شائع ہوئی تھی۔ گویا انھیں نظمیں لکھتے چالیس برس سے زیادہ ہو گئے۔ انھوں نے نثری نظم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ “اداسی کے گھاؤ” کے عنوان سے شائع ہونے والی کلیات 719 صفحات پر مشتمل ہے۔ نثر میں فکشن بھی لکھا یا فکشن نما آپ بیتی۔ نثر لکھنے کا سلیقہ ہے اور بعض دفعہ افسوس ہوتا ہے کہ فکشن سے اتنا کم اعتنا کیا۔

“نیند کی مسافتیں” میں ایک اندرونی ربط ہے جو پوری طرح عیاں تو نہیں ہوتا ہے لیکن ان دریاؤں سے مشابہ ہے جو صحراؤں میں گم ہو جاتے ہیں اور سمندر تک نہیں پہنچتے۔ غالباً نظم کے یہ الفاظ “جیسے کسی بہت اجنبی خواہش کے درمیان بہت اجنبی دکھ کا سامنا ہو جائے” نہ صرف اس واحد طویل نظم بلکہ باقی نظموں کے مزاج کی ترجمانی کرنا معلوم ہوتا ہے۔ نثری نظموں کے سات سو صفحے پڑھنا آسان نہیں، خاص طور پر جب وہ ایک ہی شاعر نے لکھی ہوں اور جس کی توجہ مظروف پر زیادہ ہو اور لفظیات پر کم۔ لیکن کہیں کہیں، اگرچہ بہت کم، آہنگ بھی بدل جاتا ہے اور لفظیات بھی، جیسے “ہجر کی چاشنی کیا خوب ہے۔” ایسے اچنبھے کلیات میں کم ہیں۔

دیواروں کی طرح کھڑی ان نظموں میں دروازے اور دریچے بھی ہیں جن میں سے ہوا اور روشنی اور آوازیں اندر پہنچ سکتی ہیں اور پتا چلتا ہے کہ باہر کبھی حبس اور اندھیرا بھی ہوتا ہے اور خاموشی بھی۔ عذرا عباس کی نظموں میں بغاوت اور نافرمانی کی ایک لہر ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ ان ناانصافیوں کے خلاف، جو دنیا میں قائم و دائم ہیں، آواز بلند ہوتی ہے لیکن لہجے میں متانت ہے جیسے یہ پتا ہو کہ چیخنے چلانے کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ چیخ پکار ان ستم گروں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ کام یاب ہیں اور ظلم رسیدہ خلقِ خدا بے بس اور نہتی۔

جن نظموں کا خاص طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے ان میں “ہنس کر ٹال دو” “ایک زندگی اور مل جائے” “بلاناغہ” “ایک خط خالی گھرمیں پڑا ہے” (کسی کسائی نظم جو کسی الم ناک افسانے سے مشابہ ہے) “خواب اور زندگی” “چوہے کو کیسے مارا گیا” (کٹیلے طنز سے بھرپور) “یہ سال گزر گیا” “جب کچھ پیسے میرے پاس بچتے ہیں” (بے بسی کی ایک اور کہانی) “قسط” “کیا وہ ملا؟” (گم شدگان کے بارے میں) اور “صبح کے چار بجے جاگتے جگتے”۔

محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے خود کو دنیا کے سامنے، کچھ چھپائے بغیر، لا کھڑا کیا ہے تاکہ زندگی کی تمام قوتوں اور حرارتوں سے نبرد آزما ہوا جائے۔ سرگوشی سے ملتے جلتے لمحے میں اپنے تجربوں اور دکھوں کو ادا کر دیا ہے لیکن کسی قدر عجلت سے، گویا جھٹ پٹ کسی آ بھٹکے خیال کو مناسب لفظوں کا جامہ پہنانا مقصود ہو، جیسے ماضی میں، جس پر رنج و الم نے پردہ ڈالا ہوا ہے، چند نتھرے ستھرے لمحوں کی تلاش۔ ذات کی علیحدگی کا جواز تلاش کیے بغیر اس افتاد کی نشان دہی جو دوسروں کے ہونے یا نہ ہونے سے وجود میں آئے۔ اس مضمون کو “میری کرسی خالی” میں خوبی سے بیان کیا گیا ہے، “اب / وقت نے ہارے درمیان/فاصلے کی لکیر کھینچ دی ہے/ آج جس کرسی پر/ تم بیٹھے تھے / اس پر میں بیٹھی ہوں / میری کرسی خالی ہے۔” دوسری کرسی تو، اس تسلی کے باوجود، خالی ہی رہے گی۔ خود فریبی سے خلا پُر نہیں ہوتے۔ نظموں میں جو حزن رچا ہوا ہے اس پر خستہ حالی کا گمان ہوتا ہے۔ اسے domesticated misery کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انگریزی کے ان دو لفظوں کا اردو کے دو لفظوں میں ترجمہ کرنا میرے بس میں نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے: گھر میں پلنے پر راضی نہوست۔

معلوم نہیں کلیات کو کس نے مرتب کیا ہے۔ مجھے تین نظمیں ایسی نظر آئیں جو دو دو بار چھپی ہوئی ہیں۔ شاید اور بھی ہوں۔ “محبت مجھے اکثر نظر آتی ہے” پہلے ص 513 پر اور پھر ص 717 پر درج ہے۔ اسی طرح “تمھیں آزادی چاہیے” ص 486 اور پھر ص 689 پر موجود ہے۔ تیسری نظم “کل کیا ہونے والا ہے” ص 416 اور ص 625 پر موجود ہے۔ اس لاپروائی کی ذمے داری کسی کو تو قبول کرنی چاہیے۔

اداسی کے گھاؤ از عذرا عباس

ناشر: سٹی پریس بک شاپ، کراچی

صفحات: 719 ؛ نو سو روپیے