طلسم ہوشربا سے انصاف

یہ تحریر 2136 مرتبہ دیکھی گئی

نولکشور پریس، لکھنؤ، نے داستانِ امیر حمزہ کا جو سلسلہ شائع کیا اور جو سینتالیس یا اڑتالیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اس میں جتنی شہرت اور مقبولیت “طلسم ہوشربا” کے حصے میں آئی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ یوں تو اس سلسلے میں اور بھی طلسم ہیں لیکن ان کا تقابل “طلسم ہوشربا ربا” سے نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے غیرمطبوعہ داستانوں میں کوئی طلسم اس پائے کا ہو لیکن اس خیال کی تصدیق یا تردید میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
“طلسم ہوشربا” کو پہلے کس داستان گو نے بیان کیا، ہمیں معلوم نہیں۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی کے چھٹے دفتر کے آخر میں ہوش ربا کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مثنوی لکھی ہی نہیں۔ عین ممکن ہے وہاں سے اس نام کا چلن ہوا ہو۔ “سمک عیار” نامی ایک خاصی پرانی فارسی داستان میں نے پڑھی ہے۔ اس میں جادو اور طلسم کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ شاید داستان امیز حمزہ اور طلسمات کے قصے مدتوں سنائے جاتے رہے ہوں۔ ان کو قلم بند کرنے کی نوبت بہت بعد میں آئی۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن پر اردو محققین نے کبھی توجہ نہیں دی۔ حد یہ کہ “طلسم ہوشربا” کے دونوں مصنفین، محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر کے بارے میں ہمیں جو معلوم ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
“طلسم ہوشربا” کے متعدد ایڈیشن نولکشور پریس سے چھپے۔ آٹھویں ایڈیشن کی ایک جلد میرے پاس بھی ہے جو 1930ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت تک کتاب کی مانگ تھی۔ بہرحال، یہ کوشش انھوں نے کبھی نہیں کی کہ متن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ چناں چہ قارئین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ پاکستان میں “طلسم ہوشربا” مکمل طور پر دستیاب ہی نہ تھا۔ صرف ایک انتخاب موجود تھا جو محمد حسن عسکری اور عزیز احمد کی کاوش کا نتیجہ تھا۔ اس انتخاب کے ذریعے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ عام تصور کے برعکس، جس میں فرض کر لیا گیا تھا کہ داستانوں کا ہماری زندگیوں سے یونہی سا تعلق تھا، داستان گو کے سامنے نئے فکشن نگاروں کی تحریریں پھیکی معلوم ہوتی ہیں؛ یعنی اگر طلسم کے عجائبات بیان کرنے میں کمال تخیل سے کام لیا گیا تھا تو ارد گرد کی زندگی کے حقائق ہنرمندی سے بیان ہوئے تھے۔
اس اثنا میں انہونی ہوئی۔ سنگِ میل مطبوعات کے بانی، نیاز احمد صاحب، نے “طلسم ہوش ربا” کے آٹھوں حصے شائع کر دیے۔ یہ بڑی جرات کا کام تھا۔ اسی وقت یا کچھ دیر بعد خدا بخش لائبریری، پٹنہ، نے بھی “طلسم ہوش ربا” کو چھاپ دیا۔ غضب یہ کیا کہ اس کا سائز چھوٹا کر دیا۔ متن کو پڑھنا اور بھی دشوار ہو گیا۔ نیاز احمد صاحب نے یہ حماقت نہیں کی تھی۔
سنگِ میل اور خدابخش لائبریری نے طلسم کی تدوین پر توجہ نہیں دی۔ اصل کا عکس چھاپ دیا۔ اس طرح کتاب دستیاب تو ہو گئی لیکن پڑھنے والے کم نصیب ہوئے۔ میرے ایک دو دوستوں نے بڑے شوق سے کتاب خریدی مگر ستر اسی صفحے سے زیادہ نہ پڑھ سکے۔ متن کی قدیم وضع نے قرات کو مشکل بنا دیا۔ متن میں نہ پیراگراف تھے نہ اوقاف کا کوئی اہتمام۔ انیسویں صدی کے کاتبوں کی عادت تھی کہ ہر نون میں نقطہ ڈال دیتے تھے۔ ماں ہو یا میاں یا جہاں، کہاں، یہاں، سب میں نقطہ۔جا بجا لفظ ملا کر لکھے ہوئے تھے۔کہیں کہیں املا بھی ایسا جس کا اب رواج نہ رہا تھا۔ کتنے ہی لفظ نامانوس تھے۔ یہ سب معاملات نئے قارئین کے لیے الجھن کا باعث تھے۔
مشرف علی فاروقی نے “طلسم ہوش ربا” کو اس طرح مدون کرکے چھاپا ہے کہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہا۔ اگر ہے تو یہ کہ متن کو نسخ میں کیوں چھاپا ہے۔ برصغیر کے قارئین کو، نہ معلوم کیوں، نسخ سے ہمیشہ کد رہی ہے۔ متن میں پیراگرافوں اور اوقاف کا خیال رکھا گیا ہے ۔لفظوں کو ملا کر نہیں لکھا ۔جدید املا مد نظر رہا ہے ۔فارسی اشعار کا، جن کی تعداد خاصی ہے، اردو ترجمہ موجود ہے اور آخر میں خاصی مفصل فرہنگ شامل ہے۔ غرض کہ کتاب کو جس انداز سے آج کل شائع کیا جانا چاہیے اس کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اس اشاعت کو ایک طرح کا کارنامہ سمجھنا چاہیے۔
مشرف علی فاروقی نے انگریزی میں دو ناول لکھے ہیں۔ ایک ناول کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان کا سب سے وقیع کام “داستان امیر حمزہ” کا انگریزی ترجمہ ہے جس پر باہر کے ملکوں میں خاصی داد مل چکی ہے۔ انھوں نے “طلسم ہوش ربا” کا انگریزی میں ترجمہ بھی شروع کیا تھا، کسی وجہ سے یہ کام پایہء تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
کتاب کی ادبی اہمیت پر مشرف علی فاروقی نے کچھ نہیں لکھا۔ شاید سوچا ہو کہ اتنی مشہور داستان تعارف کی محتاج نہیں۔ البتہ اسامہ صدیق نے دو تین صفحے کتاب کی ادبی اہمیت پر لکھے ہیں۔ انھوں نے صحیح کہا ہے کہ “جو قومیں اپنا ادب بھول جاتی ہیں، دنیا بھی ان کا ادب بھول جاتی ہے بلکہ ان کی اس بے ادبی کی وجہ سے وہ قومیں خود بھی بھلا دی جاتی ہیں۔”
مشرف علی فاروقی نے ہر جلد کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس طرح “طلسم ہوش ربا” مکمل ہو کر چوبیس جلدوں پر مشتمل ہوگی۔ اصولاً تو یہ تقسیم مناسب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر مشرف صاحب نے ہر سال ایک ہی جلد شائع کی تو کتاب 2047ء میں مکمل ہوگی۔ “طلسم ہوش ربا” کو اول تا آخر پڑھنے کے لیے اتنا طویل انتظار ہر کسی کے بس میں کہاں اور بعض قارئین کی عمر بھی شاید وفا نہ کرے۔ کتاب کی قیمت بھی ہوش ربا ہے۔ شاید کبھی اس کا نسبتاً سستا ایڈیشن بھی شائع کیا جائے۔ جو بھی سہی، مشرف علی فاروقی اور ان کے معاونین، عبدالرشید، احمد محفوظ اور رفاقت علی شاہد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ان کا شکریہ بھی واجب ہے جن کی اعانت سے “طلسم ہوش ربا” کی یہ اشاعت ممکن ہوئی۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔
طلسم ہوش ربا، جلد اول (حصہء اول)
مولف: محمد حسین جاہ
مرتب: مشرف علی فاروقی
ناشر: کتاب (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کراچی
صفحات: 521؛ پانچ ہزار روپیے