زبانِ غیر سے شرحِ آرزو

یہ تحریر 592 مرتبہ دیکھی گئی

بادی النظر میں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی میں اردو ادب پر اتنی تنقید کہاں موجود ہوگی کہ اس پر کوئی ضخیم مقالہ قلم بند کیا جا سکے۔ عارفہ شہزاد نے جب نکتہ چینوں یا شک کا اظہار کرنے والوں کو بتایا کہ انگریزی میں اردو ادب پر تنقیدی نقطہء نظر سے بہت کچھ لکھا گیا ہے تو اُن کی بات کو حیرانی سے سنا گیا۔ حقیقت میں انگریزی میں اردو ادب پر خاصی کتابیں اور مقالے دستیاب ہیں اور گو عارفہ شہزاد نے ان میں سے بیشتر کتابیں حاصل کر لیں لیکن کوشش کے باوجود بعض تصنیفات تک اُن کی رسائی نہ ہو سکی۔
یہ امر کہ اردو ادب پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے انگریزی میں اتنا کچھ موجود ہے باعثِ تعجب نہیں۔ انگریزوں نے برصغیر کے بعض حصوں پر دو سو سال، بعض پر ڈیڑھ سو سال، بعض پر سو سال حکومت کی۔ چناں چہ انگریزی ہی وہ یورپی یا مغربی زبان تھی جس سے ہم بڑے پیمانے پر استفادہ کر سکتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انگلستان کی پہلی سی حیثیت نہ رہی اور دو ملک، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سوویت روس، سپر طاقتیں بن کر سامنے آئے۔ ستم یہ ہوا کہ امریکہ کی زبان بھی انگریزی تھی۔ لہٰذا برصغیر کے معاشرے پر، خواہ اس سے پاکستان مراد ہو یا بھارت، انگریزی کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔
عارفہ شہزاد کا جائزہ خاصا مفصل ہے۔ اس کا دورانیہ بھی بڑا ہے کیوں کہ انگریزی میں اردو ادب پر تنقیدی ارشادات پر مشتمل پہلی کتاب تقریباً سوا سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔ شیخ عبدالقادر کی انگریزی کتاب “اردو ادب کا نیا دبستان” 1898ء میں شائع ہوئی تھی۔ شیخ صاحب کے بقول، انگریزی میں لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک ایسی نسل وجود میں آ چکی تھی جو انگریزی تہذیب اور ادب سے تو آشنا تھی مگر اپنی ادبی روایت سے بے خبر تھی۔ گویا جس صورتِ حال کے ہم آج شاکی ہیں وہ ذرا بھی نئی نہیں۔ جس طرح کا نظامِ تعلیم ہم نے اپنا رکھا ہے اس کے پیشِ نظر مقامی ادب سے بے اعتنائی کی یہ روش بڑھتی ہی جائے گی۔
مصنفہ نے سیکڑوں کتابوں کو جانچا پرکھا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کو بالاستیعاب پڑھا ہے یا جستہ جستہ دیکھا ہے۔ جو بھی سہی، یہ بڑا محنت طلب کام تھا اور قدرے بے مزہ بھی۔ خیال یہی ہے کہ اکثر کتابوں کے مندرجات یوں ہی سے ہوں گے۔ تاہم دیانت داری کا تقاضا تھا کہ اس بہت پھیلے ہوئے لوازمے کو توجہ سے دیکھا جائے۔ افسوس کہ جن تصانیف کا یہاں ذکر ہے ان میں سے شاید ایک دو ہی میری نظر سے گزری ہوں۔ اس لیے یہ کہنے سے قاصر ہوں کہ مصنفہ نے جو آرا ظاہر کی ہیں ان سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
شیخ عبدالقادر ادب میں افادیت پسندی کے قائل تھے۔ جب انھوں نے انگریزی میں چند تعارفی مضامین قلم بند کرکے کتابی صورت میں چھپوائے تو اس وقت عام خیال یہ تھا کہ ادب سے قوم کو، جو اپنی زوال پذیری سے ناخوش اور مشوش تھی، سجھایا جائے کہ تعمیری نقطہء نظر اختیار کرنے ہی میں اس کی نجات ہے۔ اگر اس روش پر عمل کیا جائےتو اردو کی بعض اصنافِ ادب بالکل غیر ضروری قرار پائیں گی۔ ادب کی افادیت کی سطح اور ہے مگر انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے پہلے پچیس تیس برسوں میں اردو ادب کے بہی خواہ انہی غلط خطوط پر سوچتے رہے۔
شیخ عبدالقادر کو تو پھر بھی اردو سے مخلصانہ لگاؤ تھا۔ ایک اور صاحب، سید عبدالطیف، نے بھی انگریزی میں اردو ادب پر کتاب لکھی تھی۔ یہ صاحب انگریزی حکومت، معاشرت اور ادب سے اس قدر مرعوب تھے کہ انھیں اردو ادب ہیچ نظر آتا تھا۔ ان کے بقول، عربی و فارسی ادب کی روایت سے اکتساب نقالی ہے۔ یہی نقالی اردو ادب کے تصنع اور بے تاثیری کا سبب بنی۔ کہا یہ ہے کہ ہمیں انگریزی زبان و ادب سے فیض اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے اس بارے میں غور نہیں کیا کہ وہ ہمیں، اسی نظریے کے تحت، نئی نقالی کی دعوت دے رہے ہیں۔ جو انگریزی حکومت کو نعمت غیر مترقبہ سمجھتا ہو اس سے اور کیا توقع رکھی جائے۔ انہی حضرت نے انگریزی میں غالب کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے اور اسے مصنوعی اور آورد سے پُر قرار دیا ہے۔ غالب کے بعض اشعار پر فقرے چست کیے ہیں۔ انھیں پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ موصوف کو اردو شاعری، بالخصوص غزل کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ مزید لکھا ہے کہ غالب کے مستند سوانحی حالات کی عدم دستیابی بھی غالب کی درست تنقید کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ گویا کسی شاعر یا ادیب کے سوانحی حالات ٹھیک طرح معلوم نہ ہوں تو اس کی تصانیف پر معقول تنقید نہیں کی جا سکتی۔ انھیں یہ یاد نہیں آیا کہ شیکسپیئر کے حالاتِ زندگی بھی بہت کم معلوم ہیں۔
گوپی چند نارنگ کی ایک کتاب پر پروفیسر جان روسا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “ضروری نہیں ایک زبان کے بولنے والے باہم محبت رکھتے ہوں۔” روسا کے درست خیال کو مصنفہ نے اعتراض برائے اعتراض ٹھیراتے ہوئے کہا ہے کہ “اہل زبان فطری طور باہم موانست رکھتے ہیں۔” وہ 1947ء میں پنجاب کے فسادات ہی کو یاد کر لیتیں۔ اس کے علاوہ امریکہ یا روس یا ہسپانیہ کی خانہ جنگیوں کی طرف نظر ڈالنا کافی ہوتا۔ زبان متحد نہیں کرتی۔ سیاسی یا دینی عقائد متحد کرتے ہیں اور نزاع کا باعث بھی بنتے ہیں۔
جیلانی کامران کی یہ رائے پڑھ کر حیرت ہوئی کہ “روشن مستقبل کے خواب دکھانے والا اور ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے پر اکسانے والا ادب تخلیق کیا جائے۔” اس طرح کے مشورے، جو جعل سازی کے ذیل میں آتے ہیں، آمرانہ یا نظریاتی حکومتیں دیا کرتی ہیں۔
اقبال پر اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی بہت لکھا گیا ہے۔ کسی شاعر یا ادیب کے حق میں اس سے زیادہ نقصان دہ بات کوئی نہیں کہ اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اس کے بارے میں کتابوں اور مقالوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور بیشتر تحریروں کا مقصد حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا یا انعامات کی توقع رکھنا ہوتا ہے۔
کتاب میں جن تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں اس طرح کی اونچ نیچ بہت ہے۔ کام کی باتیں کم ہیں۔ بیشتر خیالات سطحی معلوم ہوتے ہیں۔ اتنا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ عارفہ شہزاد نے دیدہ ریزی سے کام لے کر بہت سا مواد یکجا کر دیا ہے۔ آیندہ جو بھی اس موضوع پر توجہ دے گا اس کتاب کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
شیخ عبدالقادر نے ایک عجیب غلطی کی ہے جس کی توقع ان سے نہیں تھی۔ “دون کیخوتے” کو فرانسیسی ناول بتایا ہے اور کہا ہے کہ “فسانہء آزاد” کے معروف کردار، خوجی، اور دون کیخوتے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ صحیح نہیں۔ مستزاد یہ کہ ص 20 پر خوجی کا نام کھوجی لکھا ہوا ہے۔ یہ مصنفہ کا کمال معلوم ہوتا ہے۔ شاید انھوں نے کبھی “فسانہء آزاد” پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔
انگریزی میں اردو ادب کی تنقید از ڈاکٹر عارفہ شہزاد
ناشر: دستاویز مطبوعات، لاہور
صفحات: 527؛ پندرہ سو روپیے