موراں

یہ تحریر 903 مرتبہ دیکھی گئی

حافظ صابر جب بھی آئینے میں خود کو نظر بھر کر دیکھتا تو لڑکیوں کی طرح شرما جاتا۔ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں سرمے کی سلائیاں پھیرتے ہوئے اس کا منہ کھل جاتاتھا۔ عقب میں کھڑی موراں اس سے لپٹتی تو اس کے جسم میں چار سو چالیس واٹ کا کرنٹ دوڑنے لگتا۔ ”میری موراں! میری مِٹھی۔“ ناٹے سے قد کا مالک صابر خود کو پنجابی فلم کا ہیرو سمجھتے ہوئے جھومنے لگتا۔ لڑکپن میں ہونے والی یہ شادی وقت کے ساتھ ساتھ گاڑھے ہوتے دودھ کی طرح تھی، میٹھی اور ذائقے دار بالائیوں سے بھری ہوئی۔ گڈو اس محبت کے رس کی نشانی تھا۔ صابر جب بھی اسے کندھوں پر اٹھائے باہر نکلتا تو دیکھنے والے سمجھتے حافظ کے اوپر ایک اور ناٹے قد کا حافظ بیٹھا ہے۔ مسجد کا مولوی بننے کے بعد اس کے پاس کاشتکاری کے لیے وقت نہیں تھا اس لیے وہ پانچ سال اسی مزدوری پر اکتفا کرتا رہا پھر اسے پیسہ کمانے کی لگن لگ گئی۔ اسے موراں کو سجے سنورے دیکھنے کی عادت تھی وہ ہر مہینے قریبی قصبے کے بازار سے اس کے لیے ایک جوڑا خریدتا۔ میچنگ چوڑیاں، رنگلی کون مہندی، سرخی اور نقلی ہار کانٹے بھی اس سوانگ کا حصہ ہوتے۔ اس نے موراں کے لیے بے شمار پازیبیں لے رکھی تھیں، چاندی اور سونے کی بھی بنوا کر دی تھیں۔ چھن چھن کا شور مچاتی لچھیاں اس کی کمزوری تھیں۔موراں مصنوعی غصے سے اسے اس فضول خرچی پر ٹوکتی لیکن وہ  ”میری موراں، میری مِٹھی“ کہہ کر ٹال دیتا۔ بچوں کو ناظرہ، سپارہ پڑھانے اور مسجد کی ڈیوٹی سے اسے ان خرچوں کے لیے مشکل پیش آنے لگی تھی۔ اس کے علاوہ اسے بس کھیتی باڑی کا ہی فن آتا تھا سو اس نے شہر جانے کا سوچا اور سامان باندھ لیا۔ موراں کی اداس آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اس نے منہ موڑا: ”صابر دے صبر دا امتحان نہ لے۔“

چھالاڑ والا کی بس اسے کوٹ ادو سے لاد کر شہر لے گئی تھی۔ کھلی شلوار اور چھوٹی قمیض میں اپنے کسرتی وجود کو سنبھالتے ہوئے اس نے پہلی بار شہرکی پررونق سڑکوں کو بڑے اشتیاق سے دیکھا۔ وہ بار بار اپنی شلوار کو ٹخنوں سے اوپر کرتا اور سر پر عمامہ سیدھا کرتے ہوئے کندھے پر بیگ کو اچھال کر بڑے بڑے قدموں سے چلتا رہا۔ اسے گاؤں کے چاچا کریم بخش کے ہوٹل پر کام مل چکا تھا۔ پہلے تو ایک ماہ اس نے تنور میں روٹیاں لگانا سیکھیں، ساتھ ہی وہ قریب کی گلیوں کے بچوں کو سپارہ بھی پڑھانے لگ گیا۔

ملتان شہر کی رونقیں اس کی منتظر تھیں جہاں بسنے والے پردیسی اسی کی طرح گھر والوں کے مستقبل کے معمار تھے۔ اسے جب بھی موراں کو دیکھنے کی تانگ ستاتی تو وہ رات کو تاروں بھرے آسمان تلے لیٹ کر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہتا۔ گڈو سے فون پر باتیں کرتے کرتے موراں کی دبی دبی ہنسی اور ھم م م م اسے للچانے لگتی۔ دونوں گھنٹوں فون پر باتیں کرتے جیسے دو نابالغ راتوں کو چوری چوری ہنستے ہیں۔ موراں رات کے سناٹے میں گنگناتی: ”میں چھم چھم نچاں، میں پہلاں پاواں۔“ صابر کے جسم میں چونٹیاں رینگنے لگتیں اور اس کا خود پر سے اختیار ختم ہو جاتا۔ سناٹا ”میری مِٹھی“ کے دو شبدوں سے گونج اٹھتا۔ صابر کے پاؤں شہر میں جمنے لگے تھے وہ بڑی تن دہی سے روٹیاں لگانے لگا تھا۔ چاچا کریم بخش بھی مطمئن تھا کہ اب اس کے آنے سے وہ خود کبھی بھی گاؤں آ جا سکتا تھا۔ پہلے پہل تو صابر کی طبیعت میں ہچکچاہٹ اور شرم تھی لیکن شہر کی عورتوں نے اس کی جھجھک کو چھلنی میں ڈال کر چھان دیا۔ وہ متمول گھرانوں کے بچوں کو سپارہ پڑھانے جاتا تو اس کی تیاری ہمیشہ کی طرح اعلیٰ ہوتی تھی۔ وہ اکثر بوسکی کا کرتا اور کاٹن کی شلوار پہنتا تھا۔ وہ کاندھے پر سُوتی پرنا اور سر پر سندھی ٹوپی جما کر ٹخنوں سے اوپر شلوار اور براؤن پالش سے چمکتی چپل پہن کر گلیوں میں بھاگتا پھرتا تھا۔ جب وہ روٹیاں لگانے کے لیے تنور پر آتا تو بھی روزانہ اجلی بنیان اور ہلکے نیلے رنگ کی شلوار پہنے رکھتا۔ صابر کن انکھیوں سے آتی جاتی عورتوں کو دیکھتا تو دھم سے موراں اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی۔ وہ جب بھی گاؤں جاتا اس کے دونوں ہاتھ سامان کے تھیلوں سے شل ہوتے تھے۔ موراں کو شہری عورتوں جیسا لباس پسند نہیں تھا لیکن صابر کی خاطر وہ اکثر رات کی تاریکی میں سکرٹ ٹراؤزر پہن کر سکڑی سمٹی چادر کا کونہ دانتوں میں دبائے اس کے سامنے آ جاتی۔ اس بار وہ اس کے لیے تھوڑی وزنی لچھیاں لے کر گیا تھا، دو مضبوط ہاتھوں نے اس کے نازک سے چھوٹے پیروں کو دبایا تو دو مور جنگل بیلے میں ناچنے لگے۔ موروں کی چھاتیاں پروں کے جال کے درمیان لرز رہی تھیں۔ پھر قدرت نے انھیں اپنی نعمت سے نوازا لیکن بچہ بیس دن بعد ہی مر گیا۔ اُن دنوں صابر کی آنکھوں میں سرمے کے بجائے سرخ ڈورے پھرتے تھے۔ موراں کا سانولا رنگ بھی ماند پڑنے لگا تھا۔ شہر کے دوست یار صابرکے غم کو ہلکا کرنے کے لیے اسے شہر گھمانے لے جاتے۔ سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیاں اور ان میں قہقہے لگاتی عورتیں اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں قید ہو جاتیں۔ وہ جب بھی گاؤں جاتا تو موراں کو ان شہری میموں کے بارے میں بتاتے ہوئے بھی اس کی حیرانی نہیں جاتی تھی۔

صابر کی قمیض کی جیب میں سے جھانکتے ہرے اور خاکی نوٹ اس کی مالی خوشحالی کا پتہ دینے لگے تھے۔ وہ اکثر اپنے شاگردوں کی ماؤں کے سامنے پیسوں کا رعب جھاڑتا تھا۔ ایسے ہی ایک شاگرد کی ماں نے اسے اپنا روم کولر خریدنے کو کہا تو ا س کے اندر کا چھوٹا سا زمیندار جاگ گیا۔ اس نے بیٹھے بیٹھے پانچ پانچ ہزار کے چار نوٹ نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھما کر کولر خرید لیا۔ ”باجی! بس اس چیز کے اتنے ہی روپے دوں گا۔ ادھارے پیسے چاہئیں تو لاکھ روپیہ لے لو لیکن اس چیز کے بس اتنے ہی۔“ کولر چارپائی کی پائینتی کی طرف لگا کر وہ فاتحانہ نظروں سے دیکھتا تو موراں اپنے پنکھ کھول دیتی۔

ان دنوں ایک نئے گھر سے سپارہ پڑھانے کا پیغام موصول ہوا تو وہ ٹائلوں سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ سفید چادر میں ملبوس ایک درمیانے قد کی عورت نے اسے سلام کیا اور اپنے پیچھے کھڑی لڑکی کو ہاتھ سے کھینچتے ہوئے صوفے پر بیٹھا دیا۔ اس کے ساتھ دس سال کا ایک بچہ بھی تھا۔ ”مولوی جی! یہ میری کومل ہے اور یہ میرا بیٹا فرقان۔ آپ نے دونوں کو قرآنِ پاک پڑھانا ہے۔ لڑکی تو دھرائی پر لگی ہے اور اس لڑکے کو آپ پہلے سپارے سے شروع کر دیں۔“ صابر کن انکھیوں سے لڑکی کی طرف دیکھتا اور پھر سر جھکا لیتا۔ سولہ سترہ سال کی اس دوشیزہ میں حسن کا میدہ اس قدر زیادہ تھا کہ صابر کو لگا کہیں زیادہ نمک ڈالنے سے پیڑا نہ ٹوٹ جائے۔ اس دن کے بعد نجانے اسے کیا ہو گیا تھا کہ وہ موراں کو شہر لانے کے بارے میں سوچنے لگا۔

سارا دن وہ یہی خواب بنتاکہ اگر موراں شہر آ جائے تو اس کی تنہائی بٹ جائے گی۔ اولاد کی طلب بھی اس کے اندر لاوے کی طرح ابلنے لگی تھی۔ اس نے قریب ہی کرائے کا مکان دیکھنا شروع کر دیا تو چاچا کریم بخش نے اسے ہوٹل کے اوپروالے کمرے میں شفٹ ہونے کا مشورہ دیا۔ صابر خوش تھا کہ ایسے تنور پر کام چلتا رہے گا اور موراں بھی اس کی نظروں کے سامنے رہے گی۔ بس ایک مشکل درپیش تھی اور وہ اس شہر کا ماحول تھا جس نے اسے یہ فیصلہ بدلنے کی ہمت دے دی۔ اس کی موراں کو کوئی اور دیکھے وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ اکثر رات کو سوتے میں وہ اچانک ڈر کر جاگ جاتا جیسے اس کی موراں کو بہت سی آنکھیں دیکھ رہی ہوں۔ ”واہ جی! مولوی جی! بھابھی آ رہی ہے۔ اب تو کبھی تنور گرم ہو گا اور کبھی چھت۔“ دوستوں کے لچر مذاق پر صابر کی کنپٹیاں پھٹنے لگتیں اور وہ تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ جاتا۔ ”مجھے بچہ چاہیے موراں۔ اپنے گڈو جیسا باوا۔“ اسے نیند میں بڑبڑانے کی عادت ہو گئی تھی۔

شہناز کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے اسے سات ماہ ہوئے تھے۔ کومل کی دھیمی آواز پر وہ اپنے دونوں کانوں اور سر کو جھکائے آگے پیچھے ہلتا رہتا۔ حافظ صابر اب اس گھر کا فرد بن چکا تھا اکثرو بیشتر شہناز اس کے سامنے اپنے دکھڑوں کا ٹوکرا پھینک دیتی۔ جس میں سے وہ باری باری ایک ایک دکھ اٹھاتا اور اپنے کندھوں پر ترتیب سے رکھتا چلا جاتا۔ شہناز کے اس بھیدی کو معلوم ہو گیا تھا کہ پہلے شوہر سے طلاق کے بعد اب وہ ایک مالدار آدمی کی خفیہ بیوی تھی۔ ”مولوی جی! کون کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتا ہے۔ میری کومل کا حسن تو دیکھو، کیا پری چہرہ ہے۔ اس کا باپ مجھے نہ چھوڑتا تو قسم سے ملتان کے جاگیرداروں کے گھر میری بیٹی جاتی۔“ پان کی پیک سے بھرے ہوئے ہونٹ فخر کے مارے تن گئے۔ شہناز کی یہ شیخی صابر کو ذرہ برابر بری نہیں لگتی تھی۔ ”بے شک، بے شک۔ باجی جی، صحیح کہتی ہو آپ۔۔۔ لیکن اب خود بتاؤ کہ آپ ماں بیٹی کے لیے تو وہ بڈھا بھی عذاب سے کم نہیں ہے۔“

”میں جوان لڑکی کو کہاں لے جاؤں۔ کون ہے میرا۔ یہ دس سال کا لڑکا ہے۔ یہ بھی کس کام کا۔ ہمیں کوئی مار جائے، یہ کیا کر لے گا۔“ شہناز کی بلی آنکھوں میں نمی تیر جاتی۔ ”لو! میرے ہوتے ہوئے ایسے ہی تمہیں کوئی مار جائے گا۔“ ناٹے سے قد کا صابر فوراً اپنا چوڑا چکلا سینہ پھلا لیتا۔ ”مولوی جی! وہ دھمکی دیتا ہے کہتا ہے۔۔۔ شہناز، میرے پلنگ پر ایک طرف تو۔۔۔ اور دوسری طرف تیری بیٹی ہو تو خرچہ دوں گا۔“

”استغفراللہ باجی جی! کیسی باتیں کرتی ہو بچوں کے سامنے۔“

کومل بے فکری سے موبائل پر اپنی مخروطی انگلیوں کو تیزی سے پھیرتے ہوئے باہر نکل گئی۔ صابر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ شہناز اور اس کے بچوں کو اس ظالم کی قید سے چھڑائے گا۔ اس نے انھیں علاقے سے تھوڑا دور دوسرا کرائے کا مکان لے دیا جو اس کے نزدیک ایک محفوظ ٹھکانہ تھا۔ شہناز اس کے آنے سے پہلے میٹھا ضرور بناتی تھی اسے معلوم تھا کہ صابر کو کھیر اور حلوہ بہت پسند ہے۔ سامان سے بھرے ہوئے تھیلے اب اس نئے گھر بھی جانے لگے تھے۔ صابر اب کی دفعہ انھیں دو مہینے کا راشن پانی دے کر گاؤں چلا گیا تھا۔ موراں صابر کے سر پر تیل کی مالش کرتے ہوئے چپ تھی۔ ”دیکھ نہ موراں، میری مِٹھی، مجھے کیا چاہیے، بس ایک بچہ اور کچھ بھی نہیں۔ گڈو کا ایک اور بھائی ہو جائے تو کیا ہے۔ وہ تیرے ساتھ یہاں رہ لے گی۔ تیری خدمت کرے گی، ہانڈی روٹی بنائے گی،،، اور میری موراں میری ایسے ہی خدمت کرے گی۔“ صابر نے مالش کرتے ہوئے ہاتھوں کو روکتے ہوئے چوما۔

”پر مولبی جی! آپ کی موراں کا کیا ہو گا۔“ مور پنکھ زمین سے لگ گئے۔

”کیا ہو گا سے کیا مطلب؟ تو ایسے ہی پہلاں پائے گی۔۔۔۔ اچھا دیکھ، تیری بچہ دانی میں دم نئیں اب۔ ڈاکٹرنی کہتی ہے کہ تیری جان کو خطرہ ہے۔ بھلا بتا میں دوسری موراں کہاں سے لاؤں گا۔“ صابر نے چارپائی پر چوکڑی مارتے ہوئے لاڈ کیا۔

”لا تو رہے ہو مولبی جی!۔۔۔۔ دوسری موراں۔“

رات ٹھنڈے توے پر ڈالی گئی روٹی کی طرح لجلجاتی رہی۔ ناٹا صابر صبح کی ٹرین پکڑ کر شہر آ گیا اور سیدھا شہناز کے گھر گیا۔ کومل نے دروازہ کھول کر بیزاری سے اسے دیکھا اور کمرے میں چلی گئی۔ شہناز پان کی پیک تھوکتے ہوئے اسے آ کر ملی۔ صابر چاہنے کے باوجود کھل کر مدعا بیان نہ کر سکا لیکن شہناز کی شاطر آنکھیں سب کچھ بھانپ چکی تھیں۔ مزید دو ہفتے اسی کشمکش میں گزر گئے ایک شام وہ اچانک ان کے دروازے کی گھنٹی بجانے لگا۔ ”شاید کوئی گھر پر ہے ہی نہیں۔“ وہ ابھی اسی سوچ میں تھا کہ شہناز نے دروازہ کھول دیا۔ صابر تپتے ہوئے تنور میں گر چکا تھا کیوں کہ ایک باڈی بلڈر نوجوان تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گلی میں غائب ہو گیا۔ ”یہ کون ہے باجی؟“ تنور سے ہکلانے کی آواز آئی۔

”اوہ! یہ میں تمہیں آج بتانے ہی والی تھی کہ وہ اپنی کومل ہے نا۔ میں نے اس کی بات طے کر دی ہے اس لڑکے سے۔ پیچھے سے میرے گاؤں کا ہے۔ نیک شریف لڑکا، فوجیوں کا ڈریور ہے۔“

”لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں تو کومل کا ہاتھ مانگنے آیا تھا۔ آپ تو جانتی ہو میرے حالات۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ زمین، کھیتی، سب کچھ۔ پھر یہ سب کیسے۔“

دیکھو میاں! میری لڑکی کنواری ہے۔ اب میں دوسری شادی والے کو کیسے دے دوں،،، اور پھر کومل بھی اسے پسند کرتی ہے۔“

جلتے ہوئے تنور میں لکڑیوں کا شور بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ”میں تم لوگوں پر پیسے لٹاتا رہا اور تم ماں بیٹی ول چھل کرتی رہیں۔ میرے سائیاں! میں یہ کیوں بھول گیا کہ میرا سب کچھ میری موراں کا ہے۔“ صابر نے سامان کے تھیلے سینے سے لگاتے ہوئے دہائی دی۔ عید کی چھٹیاں ہو چکی تھیں اس نے بھی پردیسیوں کی طرح سامان باندھا اور گاؤں چلا آیا۔ موراں نے اس کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر تنور کے ٹھنڈے ہونے کا اندازہ لگا لیاتھا۔ ”مولبی جی! میں چھم چھم نچاں، میں پہلاں پاواں۔“ موراں نے ہاتھوں پر لگی مہندی اس کے سامنے کر دی۔ صابر کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اس بار سرمے سے خالی تھیں۔ عید کے تیسرے دن صابر نے کام کا بہانہ بنا کر گاؤں سے نکلنے کی جلدی کی اور جیسے تیسے شہر پہنچ کر شہناز کے دروازے پر دستک دے دی۔ کومل نے دروازہ کھول کر اسے راستہ دیا اور اسی بے زاری کے ساتھ کمرے میں چلی گئی۔ ”شہناز باجی۔۔۔ میں معافی مانگنے آیا تھا کہ اس دن پتہ نہیں میں نے آپ کو کیا کیا کہہ دیا۔ مجھے ایسا کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ آپ بھی مجھے معاف کر دو۔“ شہناز نے پیک نگلتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائی۔

”باجی! ہوٹل تو بند ہے شاید کل کھلے تو میرے رہنے کے لیے جگہ بن سکتی ہے بس آج کی رات۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔“

”گئے تو ایسے تھے جیسے کبھی واپس تھوکو گے بھی نہیں ہم پر۔۔۔کومل رانی، آ دیکھ تو ذرا، گشتیوں کے گھر مولوی جی آئے ہیں۔“

”کیا کرتی ہو باجی جی! اور کتنی جوتیاں مارو گی۔ بندہ بشر ہوں، خطا ہو گئی مجھ سے۔ اب خود کو تو گالیاں نہ دو نا۔“ صابر نے کندھے پر پرنا سیدھا کیا۔

”اچھا اچھا چلو معاف کیا۔ جاؤ منہ ہاتھ دھو لو۔ آج بھی کھیر بنائی ہے۔“ شہناز نے حساب بے باک کرتے ہوئے پان کی پیک پھینکی۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بچے زور زور سے چیخ رہے تھے۔

”الڑ بلڑ باوے دا۔ باوا کنک لیاوے گا، باوی بے کے چھٹے گی۔ سو روپیہ وٹے گی۔اک روپیہ کھوٹا اوہدا لیاندا لوٹا۔۔۔

اک بہن کالی، اوہی کرماں والی۔ اوہدے نکلیاپھوڑا۔ پھوڑے دے وچ خون۔ کر دیو ٹیلی فون۔

صابر کے فون کی گھنٹی بجی۔ ”جی آں۔۔۔ کون بول ریا اے۔“

”مولبی جی! میں چھم چھم نچاں، میں پہلاں پاواں۔۔۔ آپ کی موراں۔“

”ٹیلی فون دی تار ای کوئی نئیں۔ تیرا میرا پیار ای کوئی نئیں۔“

”کسے کتی دے بچے، رنڈی دی اولاداں۔“ صابر نے فون کے مائک پر ہاتھ رکھتے ہوئے گلی میں کھیلتے بچوں کو گالی دی۔ جنگل بن میں موررقص جاری تھا ایسے میں زمین پر گرے مورچھل کو کون اٹھائے۔ تھکاوٹ سے چور صابر کی کمزور پڑتی آواز گونجی: ”میری موراں، میری مِٹھی۔“

 اتنے میں باہر سے کھٹ پٹ کی آوازیں سنائی دیں تو صابر نے فون بند کر کے دروازہ کھول دیا۔ شہناز ہاتھ میں کھیر کی پلیٹ لیے اسی کی طرف آ رہی تھی۔ ”کوئی مہمان آیا ہے کیا؟ بند کمرے سے دبی دبی ہنسی کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔ ”ناں جی! مہمان کیوں۔ وہی فوجی ڈریور (ڈرائیور) ہے، خیر سے اپنے گھر کا جی ہے اب۔“

”تو کیا وہ بھی آج رات یہیں رہے گا؟“ صابر نے شلوار کی آستینیں چڑھائیں۔

”آپ بھی تو خیر سے آج رات یہیں رہیں گے۔ یہ لو کھیر کھاؤ، میٹھا آپ کے مطابق ہی ڈالا ہے۔ آتی ہوں میں تھوڑی دیر تک۔“

دروازہ کھٹاک کی آواز کے ساتھ بند ہو چکا تھا۔ صابر نے اپنا پرنا گردن کے نیچے رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ میدے میں نمک ملا حسن اسے دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا جبکہ پائینتی کے پاس موراں کھڑی اپنی لچھیوں کا شور کا مچاتے ہوئے پوچھ رہی تھی: ”مولبی جی! میں چھم چھم نچاں، میں پہلاں پاواں۔“