پروازِ بیبال

یہ تحریر 587 مرتبہ دیکھی گئی

وہ اگر پرندوں کی دنیا میں ہوتا تو شاید اس کا نام ’’ بالڈ ایگل ‘‘ رکھاجاتا ۔ جیسے یونانی عقاب کچھوؤں کا شکار کرتے وقت ان کے خول توڑ کر بلند چٹانوں سے نیچے پھینکتے ہیں ۔ ویسے ہی وہ ان تمام مردوں اور عورتوں کو آسمان کی وسعتیں چھوتے ہی نیچے پھینک دیتا تھا جو اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ ذاتی زندگی میں وہ ایک مضبوط جسم اور کمزور دل کا آدمی واقع ہوا تھا شاید اسی لیے وہ ہر دکھی بات پر رو پڑتا تھا ۔ وہ اپنے باپ کی موت پر توعورتوں کی طرح کہنی سے منہ چھپائے کتنے ہی دن روتا رہا ۔ ویسے نصیر کی زندگی بڑی متوازن تھی ، فیکٹری کی نوکری ، ایک بیوی اور تین بچے اس کی کل کائنات تھے ۔ وہ روزانہ اپنے ویسپا کی سیٹ کو زور زور سے ہاتھ مارتے ہوئے صاف کرتا جیسے کتنی ہی میل اس نائیلون میں پھنسی ہوئی تھی۔ نصیر سکوٹر کو بھی بھرپور ککس لگانے کے بعد اپنی ٹانگوں کو کمپاس کی طرح کھولے سر کو دائرے میں گھمانے لگتا تھا۔ اس کے لیے سکوٹر چلانا زندگی کی گاڑی چلانے سے مشابہہ تھا ۔ ایسے میں اس کی نظریںا پنے اردگرد دوڑنے لگتیں۔ اس کے جسم پر آنکھیں کھمبیوں کی طرح اگ جاتی تھیں ۔ سڑک پار کرتی عورتیں ، ٹھیلے لگانے والے مرد اور بہت سے راہ گیر اس کی توجہ کا مرکز بنتے تھے ۔ فیکٹری میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گپیں لگاتے ہی وہ ان کی نظروں کا تعاقب کرنے لگتا ۔ ’’ خدا کی قسم یہ مس نیلو تو کسی دن جان ہی لے لیں گی ۔ ‘‘ حامد اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر اشارہ کرتا تو اس کی آنکھیں شکار کے جسم میں گڑ جاتیں ۔ ’’ بس کر دو یار ، کسی عورت کو تو چھوڑ دیا کرو ۔ ‘‘ پھر وہ سارے راستے خود مس نیلو کے بارے سوچتا ہوا گھر پہنچتا تھا جس کی قمیض کے گول کھلے گلے میں فیکٹری کا ہر ورکر اپنی نظروں کا کوڑا اچھال دیتا تھا ۔ یہ کوڑا بال کی طرح رنگ میں گرتا تو مس نیلو بھی تماشائیوں کی سیٹیوں پر ہونٹوں پہ مسکراہٹ کی لکیر سجا لیتی ۔ وہ چھوٹی سے قیامت تھی جو بس مخصوص وقت کے لیے سامنے آتی اور سب کچھ ہلا جلا کر نکل جاتی ۔ گھر واپسی پر گلی پار کرتے ہی صبا کا سلام لینا اس کی جان لے لیتا تھا ۔ ’’ بھائی ! تسی اپنے چاچا جی نوں کہہ دیو کہ میں دو مہینے دا کرایہ اکٹھا دینا اے ۔ ‘‘

’’ جی ضرور ، جی ، میں کہہ دینوا گا ۔ بے فکر ہو جاؤ۔ ‘‘ وہ ویسپا روک کر بائیں ٹانگ نیچے اور دائیں بازو کو سینے پر سکوڑے سر جھکا دیتا ۔

 ’’ بھائی ! بس پورے محلے وچوں تسی شریف بندے او، ورنہ تے ساریاں کھچاں بھریاں ہوئیاں نے ۔ ‘‘

صبا اس جیسے نجانے کتنے ہی بابرکت جملے نصیر کے کانوں میں انڈیل کر نکل جاتی اور اس کی نظریں دور تک اس کی ہلتی ہوئی پشت پر ٹھہری رہتی تھیں ۔ جب پچھلے مہینے اس کا ہمسایہ یاسین بھاری پشت والی صبا کی سہیلی کے ساتھ کمرے میں پکڑا گیا تو نصیر کو اس مدعے کا جج بنایا گیا ۔ ہاتھ جوڑے گھگھیاتا ہوا یاسین اب نصیر کے سامنے ننگا بچا کھڑا تھا ۔ صبا نے اسے پلنگ کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا تو اس چھینا جھپٹی میں اس کی قمیض کا گریبان پھٹ گیا۔ ’’ یار ! اپنی عمر ویکھ تے کم ویکھ ۔ ‘‘ نصیر نے سانس کھینچتے ہوئے اپنی ناک چوڑی کی ۔ وہ یاسین کی قسمت پر رشک کر رہا تھا جس کی کمزور چھاتی محلے داروں کے سامنے لرز رہی تھی ۔ اس کی نظر میں یاسین کی حیثیت آم کے پیڑ پر بیٹھنے والی مکھی سے زیادہ نہیں تھی ۔ محلے والے نصیر کی شرافت کے گن گا رہے تھے اور کریم پارک کی سب سے بڑی گشتی اس کی بیوی کی قسمت پر رشک کر رہی تھی ۔

نصیر کی زندگی میں کچھ نیا نہیں تھا ماسوائے فیکٹری میں سپروائزر کی معمولی نوکری ، ایک ویسپا اور گھر میں سدھارن بیوی کے ۔وہ جب اچھے موڈ میں ہوتا تو مذاق کرتے ہوئے اس کے ہاتھ خواہ مخواہ بیوی کے جسم سے ٹکرانے لگتے ۔ چشم زدن میں کبھی صبا اور کبھی مس نیلو کے ہیولے اسے ہیلو بولتے ہوئے گزر جاتے تو وہ ڈر کے مارے ہاتھ پیچھے کر لیتا ۔ ’’ سنو ! یہ سبزی لینے کے لیے دروازہ کھولنے کی کیا تک ہے ۔ ‘‘

’’ باہر نکلو تو خوب کس کر چادر لپیٹا کرو ۔ تمہیں ان مردوں کی نظروں کا نہیں پتہ ۔ ‘‘

’’ یہ تم نے طوائفوں کی طرح کالا چشمہ کیوں لگا لیا ۔ ‘‘

ایسے بہت سے اعتراضات کرتے ہوئے اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ۔ وہ یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی کو کوئی بھوکی نظروں سے دیکھے سو وہ اس پر پہرے بٹھائے رکھتا تھا ۔کبھی کبھار تو اسے اپنی بیوی پر بھی شک گزرنے لگتا جیسے اس کی غیر موجودگی میں وہ بھی صبا بن جاتی ہو ۔ اس دن وہ ایسی ہی سوچوں پر سر جھٹک کر فائلیں دیکھ رہا تھا کہ حامد نے چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے فریاد کی : ’’ نصیر صاحب ! میں تو کہتا ہوں کسی دن فوڈ سٹریٹ کی زیارت ہی کروا دیں ۔ ‘‘

’’ اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے بھلا ۔۔ جب مرضی پروگرام بنا لو ۔ ‘‘

’’ سنا ہے وہاں کہیں قریب ہی اک خاص بازار بھی ہے ، پھر کیا خیال ہے ۔ ‘‘

’’ سالے بڑے حرامی ہو ، ہیں ، یعنی کہ جانا کہیں ہے اور بات کہیں کی ۔ ‘‘

پھر وہ دوستوں کے ساتھ وہاں جانے کے لیے کافی پرجوش تھا ۔ اس دن واپسی پر نصیر کی چونچالی کافی بڑھتی جا رہی تھی ۔ فوڈ سٹریٹ میں کھانا کھا کر سب دوست چہل قدمی کے بہانے بغلی گلیوں میں غائب ہو گئے ۔ نصیر اپنے کسے ہوئے پیٹ کو پینٹ میں پھنسائے ادھر ادھر دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا ۔

’’ اے بابو ! کدھر۔۔۔ لڑکی چاہیے کوئی ۔ ‘‘ پکی عمر کی عورت نے اسے عشرت منزل کے سامنے ہی روک لیا ۔

’’ نن ۔۔۔ نہیں ،،، ایسا نہیں ہے ۔ ‘‘

’’ تو یہاں کیا اپنی ماں کا یار ڈھونڈنے آیا تھا ۔ ‘‘ پکی عمر کی عورت کی آنکھیں شرارہ بن گئیں ۔ دوپٹے سے بے نیاز جسم سے چمٹی ہوئی اس کی قمیض پھٹنے کے لیے بے قرار تھی ۔ نصیر اس سے بچتا ہوا اپنے ویسپا تک پہنچا اور دوستوں کو گالیاں دیتا گھر کی طرف مڑ گیا ۔ اس کم ہمتی نے اسے بزدل باز بنا دیا تھا جو بس ایک جگہ کو ہی اپنا مسکن سمجھ کر وہیں بیٹھا رہتا ہے ۔ دوست یار اس کی کم ہمتی کا مذاق اڑاتے تو وہ ماتھے پر آیا ہوا پسینہ صاف کرتے ہوئے ان کے درمیان سے اٹھ کھڑا ہوتا ۔

’’ نصیر صاحب ! آج آپ نا نہیں کریں گے ۔ بس کہہ دیا تو کہہ دیا ۔ ‘‘ حامد نے گاڑی جیسے ہی اجنبی گھر کے سامنے لگائی وہ چونک گیا ۔ ’’ ارے آپ تو ڈر گئے ۔ یہ میرے دوست کا گھر ہے مجھے بس اپنی فائل لینی ہے ۔ چاہے تو آپ ساتھ آ جائیں ورنہ گاڑی میں ہی بیٹھے رہیں ۔ ‘‘ نصیر اس کے اتنے اعتماد پر ساتھ ہو لیا ۔ بیٹھک میں اس کا دوست بیٹھا کش لگا رہا تھا اور ایک ہلکی عمر کی لڑکی صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔ ’’ جاؤ سونیا ، تین چائے بنا لاؤ فٹا فٹ ۔ ‘‘ اجنبی دوست نے منحنی سی لڑکی کو اٹھا دیا ۔ نصیر کو ماحول پر چھائی خاموشی اور دھوئیں کے بادل دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ حامد یہاں کون سی فائل لینے آیا ہے ۔ کم ہمتی کا باز اس کے جسم میں سرایت کر گیا اور اس نے گاڑی کی چابی لے کر اٹھنے میں ہی عافیت جانی ۔

’’ بڑے فضول آدمی ہو ۔ کیا ضرورت تھی یوں اٹھنے کی۔ ‘‘

’’ مجھے ایسی جگہوں پر نہ لایا کرو بس ۔ ‘‘

یہ نہیں تھا کہ نصیر نے کبھی کسی عورت کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا یا وہ عورت کے ذائقے سے نابلد تھا ۔ وہ جانتا تھاکہ باہر کی عورت پیسہ مانگتی ہے اور گھر کی عورت آپ کو مکمل مانگتی ہے ۔ اس کی کم ہمتی بیوی کی بانہوں میں آتے ہی جواب دینے لگتی تھی ۔ کبھی تو لگتا جیسے صبا اس کے ساتھ لیٹی ہے اور کبھی وہ مس نیلو کے دودھیا ہاتھوں کو اپنے سینے پر پھرتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ پھر آفس کے کام سے اسے مری جانا پڑا تو حامد پھر ساتھ تھا ۔ سارا دن آفس کا کام نمٹاتے ہوئے گزر گیا تو رات کو دوستوں کے ہلا گلا کرنے کی نیت نے نصیر کو بہت پریشان کیے رکھا ۔ اس کی حالت اس شرابی جیسی تھی جو مفت پینے کی ہمت نہیں رکھتا اور مول لینے کے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ۔ ایسے شرابی محفل میں دوسروں کو نشہ کرتے دیکھ کر خود پر نشہ طاری کر لیتے ہیں ۔

’’ دوستوں کو مزے مبارک ۔ میں تو ڈایوو سے ہی چلا جاؤں گا گھر ۔ تم سویرے ہی آنا ۔ ‘‘ وہ سارے راستے حامدکو رنگ رلیاں مناتے سوچ کر بیزار ہوتا رہا ۔ گھرمیں منتظر بیوی کو سامنے دیکھ کر اس کا دل مزید خراب ہونے لگا ۔ سفر کی تکان اور ناآسودگی نے اس کے بستر پر کانٹے بچھا دیے تھے ۔ عجیب سی تلخی اس کے رگ و پے میں شامل ہو رہی تھی ۔ ہاتھوں کا اکڑاؤ بڑھنے لگا تو اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اس کا سینہ کھینچ کر اکٹھا کر رہا ہو ۔ اس نے گھبرا کر کھیس دور پھینکا اور دبے قدموں چھت پر چلا گیا ۔ آدھی رات کے اس پہر چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی اس نے چھت کا چکر لگایا اور بغلی طرف کھڑا ہو کر سامنے تکنے لگا۔ سینے کا دباؤ اور کھچاؤ بڑھتا جا رہا تھا اس کے بازو بھی درد کے مارے شل ہونے لگے تھے ۔ اسے اپنا چہرہ پگھلتا ہوا محسوس ہوا جیسے اس کے ہونٹ اور گال غائب ہو گئے ہوں ۔ اچانک کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی اور اس کے عقب سے دو پر نمودار ہو گئے ۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جو بازوؤں سمیت غائب تھے ۔ اس کا چوڑا منہ چونچ میں تبدیل ہو گیا تھا اور پاؤں کے بجائے دو تیز پنجے اس کا وزن اٹھائے ہوئے تھے ۔ اس کے پر پھڑپھڑائے اور وہ چھلانگ لگا کر ریلنگ پر بیٹھ گیا ۔ اسے حیرت کے اس پار جانا تھا سو اس نے فضا میں اپنے پروں کو بلند کیا اور چیاؤں کی آواز نکالتے ہی نیچے سے پرواز شروع کی ۔ وہ آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھنے لگا ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے پروں کو چھو رہے تھے وہ آنکھیں کھولے اپنے چاروں طرف آسمان کو ہی محسوس کر رہا تھا ۔ مردوں کی دنیا کے بالڈ ایگل کی یہ پہلی پرواز تھی ۔

وہ ساری رات یونہی فضا میں پر پھیلائے اڑتا رہا ۔ کبھی ایک گلی سے دوسری گلی تو کبھی ایک سڑک سے دوسری سڑک ، اس نے کئی موڑ کاٹے ۔ وہ اپنی موٹی اور تیز چونچ میں درختوں کے پتے کھینچ کر توڑتا۔ ایسے میں اسے اپنی طاقت کا صحیح ادراک ہونے لگتا تھا ۔ صبح کی اذان کے بعد اس نے اپنی ہنگامی لینڈنگ کی اور ریلنگ سے نیچے چھت پر کھڑا ہو گیا ۔ وہ اپنی پہلی کامیاب فلائٹ پر حیران اور پرمسرت بھی تھا ۔ بستر پر پڑتے ہی اسے نیند نے آ لیا ۔ صبح دفتر میں بھی اسے غنودگی رہی اور گھر پہنچنے تک اسے ’’ بالڈ ایگل ‘‘ بننا خواب لگ رہا تھا ۔ اگر یہ خواب بھی تھا تو وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا ۔ اسے آسمان پر اڑنا زمین پر چلنے سے کہیں زیادہ بھایا تھا ۔ ایک ہفتہ تو اس کے ذہن میں اپنی فرسٹ فلائٹ ہی گھومتی رہی ۔ وہ روزانہ چھت پر جاتا منڈیر پر چڑھتا لیکن اب اس کی بغلیں سنسان تھیں ۔ کہیں سے کوئی پر برآمد ہی نہیں ہوتے تھے وہ کف افسوس ملتا واپس ہولیتا ۔ پھر ایک رات ان تمام عورتوں کو سوچتے سوچتے جو اس کی زندگی میں سایے کی طرح آئیں اور ہاتھ ہلائے بغیر مڑ گئیں ، اس کے سینہ کانپنے لگا ۔ درد اس کی پسلیوں سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا نکل رہا تھا ، وہ سانس لینے کے بہانے چھت کی طرف دوڑا ۔ آج اس کی وہی حالت تھی جو اس دن ’’ بالڈ ایگل ‘‘ بننے پر ہوئی تھی ۔ منڈیر پہ چڑھتے ہی اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دو بڑے پروں نے اغل بغل سے نکل کر ہوا کو اپنے قابو میں کرتے ہی جست لگائی اور وہ اوپر کی طرف اٹھنے لگا۔ جیسے اس کی بیوی باغ جناح کے جھولے پر بیٹھتے ہی پیچھے کی طرف کھسک کر پورے زورسے پینگ چڑھاتی تھی ۔ ویسے ہی وہ آگے کی طرف جھک کر جست لگا رہا تھا ۔ اب وہ شہر کے بیچوں بیچ اڑنے لگا ، گاڑیوں کے شور نے اسے بہرا کر چھوڑا تھا ۔ وہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یونہی اڑتا رہا ۔ وہ اپنی پرواز میں لوچ پیدا کرنے کے لیے زمین کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے فضا میں وی کا سائن بنا کر اڑتا۔ ایک ہفتے کی رات ، ریڈ لائٹ ایریا کی وہ مضبوط جسم والی عورت اس کے دماغ میں جست لگا کر سما گئی جس کی قمیض اس کے جسم سے بغاوت کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔ وہ کچھ سوچ کر مسکرایا اور شہر کی تنگ گلیوں میں اڑنے لگا ۔ آگے سے تنگ اور پیچھے سے چوڑی ہوتی گلی میں لوگوں کی چہل پہل سے جاری تھی ، مرد اور عورتیں بڑی آزادی کے ساتھ کاروبارِ ہستی نبھانے میں مگن تھے ۔ بالڈ ایگل کی آنکھیں مضبوط جسم کی متلاشی تھیں جو گلی کے پچھواڑے ایک مکان کے دروازے میں تنی کھڑی تھی ۔ مکان کے مرکزی دروازے کی دہلیز کے عین اوپر بنے شیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنے شکار کو دیکھنا شروع کیا ۔ ’’ یہ جس نالی پر تو کھڑا ہے نا ، اسے غور سے دیکھ تیرے جیسوں کی کتنی اولادیں یہاں بہتی ہوئی نظر آئیں گی ۔ ‘‘

’’ واہ میری شمیم آرا، واہ ۔ کیا بات ہے ، ایسے ہی تو میں تیرے پیچھے اپنا لائلپور چھوڑ کر نہیں آیا ۔ ‘‘

’’ چل چل ، ہٹ مر ، کہیں جا کے ۔ پورا خرچہ دے کر جا ، یہ جو اندر تیری حرام کی اولاد سو رہی ہے نہ ۔۔ اگر ایک بار انھیں اٹھا کر کہہ دیا کہ تمہارا باپ آیا ہے تو قسم پیدا کرنے والے کی ، جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی ۔ ۔۔۔ ہاں نئیں تو ۔ ‘‘

’’ ہائے میری بلبل کے نخرے ۔ تیری ادائیں ہیں کہ تیر ۔ ‘‘ شیڈ پر بیٹھے بالڈ ایگل نے ہانک لگائی ۔

لائلپور کے اس مسافر مرد کے مکان میں داخل ہوتے ہی وہ وہاں سے اڑ کر تنگ گلیوں میں اڑنے لگا جہاں چہل پہل معمول سے زیادہ تھی ۔ وہ چکلے میں واسکوڈے گاما بن کر اڑ رہا تھا ۔ تسخیر کے اس عمل میں اس نے نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے بے شمار کلابازیاں کھائیں ۔ کبھی تو وہ سست عقاب کی طرح سینہ باہر نکالے ہولے ہولے ہوا کے ساتھ تحلیل ہونے لگتا جیسے اسے کہیں جانے کی جلدی نہ ہو ۔ ایساکرتے ہوئے اسے سوئمنگ پول میں نہاتی ہوئی میمیں یاد آنے لگتی تھیں جن کا جسم روئی کے گالوں کی طرح پانی کی سطح پر تیرتا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن اس نے اپنی پہلی اڑان کے دوران اپنا پہلا شکار بھی حاصل کیا ۔ راوی کے اوپر سے گزرتے ہوئے اسے پتھروں کے بیچ نیولا نظر آیا اس کے کھلتے اور بند ہوتے پنجوں نے اسے بتایا کہ شکار یہیں کہیں ہے ۔ دو فٹ لمبا ایک سانپ نیولے کی آنکھوں سے بچتا ہوا ابھی پتھروں کے سوراخ میں گم ہونے کو ہی تھا کہ بالڈ ایگل نے پر پھڑپھڑائے اور اپنے پنجوں کا پنجرہ کھول کر اس کی گردن دبوچ لی ۔ پنجوں کی مضبوطی نے اس سیاہ مار کی گردن توڑ ڈالی تھی وہ راوی کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا ۔ پنجوں کا پنجرہ کھلتے ہی اس کا شکار بے دم چکا تھا اس کی لمبی چونچ نے پہلی بار خون کا ذائقہ چکھا تھا ۔ عجیب کسیل اس کے حلق میں اتر گئی جسے اس نے گوشت کی بڑی بوٹی کے ذریعے قابو میں کیا ۔ چونچ کے اندر چھوٹی سی سرخ زبان نیولے کے دام سے نکلے ہوئے شکار کے جسم کی حدت کو بھی محسوس کر رہی تھی ۔ اچانک اسے لگاجیسے وہی مضبوط جسم کی کسبی اس کے پنجوں کی قید میں آ کر دم توڑ گئی ہے اور وہ اس دن کی بے عزتی کا بدلہ اس کا خون پی کر لے رہا ہے ۔ مگر اسی لمحے نجانے مس نیلو کیسے اس کے دماغ میں گھس گئی جس کے دودھیا ہاتھ کمپیوٹر پر چلتے تو وہ ان کی ورزش پر قربان ہوا جاتا ۔ ’’ ارے ! کہیں یہ صبا تو نہیں ۔ ‘‘ اس نے کالے سانپ کا منہ اپنی آنکھوں کے آگے کیا ۔ ’’نہیں، صبا تو کوبرا ہے ۔ وہ ڈستی نہیں بلکہ نگل لیتی ہے ۔ کاش اس دن وہ مجھے بھی اپنے دانتوں میں دبا کر حلق سے پیٹ کے اندر لے جاتی ۔ ‘‘ خون کی کسیل اس کی زبان پر پھیلتی جا رہی تھی ۔ ایک رات وہ چڑیا گھر کے باہر پتھر کے مجسم جانوروں کے سروں پر بیٹھ کر اپنی چونچ رگڑنے لگا ۔ اندر گھپ اندھیرا اور خاموشی تھی وہ اڑ کر پنجروں کے گرد گھومنے لگا ۔ پرندوں کے پنجروں میں سے کچھ عجیب و غریب آوازیں نمودار ہوئیں جیسے وہ بالڈ ایگل کو سامنے پا کر احتجاج کرتے ہوں ۔ ’’ کاش میں صبح کے وقت بھی اڑ سکتا تو یقینا فوٹوگرافر مجھے بھی حسیناؤں کے کندھوں یا ہاتھوں پر بٹھانے کے پیسے کھرے کرتا ۔ ‘‘ اس نے چشمِ زدن میں خود کو مس نیلو کے بازو پر کھڑا پایا ۔ اس کے مضبوط پنجے نازک ماس میں دھنسنا چاہتے تھے لیکن وہ کنگ آف عریبیا نہ بن سکا ۔

ہفتے کی وہ رات بھی بڑی یادگار تھی جب اس نے شہر کے مخصوص علاقے میں گشت کیا اور اپنی زندگی کے پہلے شکار پر تقویت حاصل کی ۔ بالڈ ایگل بنتے ہی اس کے اندر اک عجیب سا بدلاؤ آیا تھا ۔ وہ اب اپنے ساتھ کام کرنے والی عورتوں کو غور سے دیکھنے لگا تھا ۔ ان کی زندگیوں میں گھسنے کا تجسس اس کے اندر خون بن کر دوڑنے لگا تھا ۔ پھر ایک دن اسے اپنی بیوی کی دوست سفینہ یاد آئی تو دل بے قرار ہو کر اسے دیکھنے کا زور لگانے لگا ۔ دو سو میل فی گھنٹہ اڑنے کی طاقت نے اس کے اندر وہ گرمی پیدا نہیں کی تھی لیکن سفینہ کی یاد نے الاؤبن کے جسم خاکستر کر دیا تھا ۔ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوتے ہی اسے لگا کہ سفینہ بھی اڑتے ہوئے اسے لینے پہنچ گئی ہو ۔ اس کے لہجے کی کھنک اور چٹک مٹک نے وہ ملاقات یاد کروا دی جس میں وہ اپنی ناکام شادی کی داستان سناتے ہوئے نصیر کو آگ کا گولہ لگی تھی ۔ جسے منہ میں پٹرول ڈال کر پھونکنے سے شعلہ خوب بھڑکتا ہے ۔ شعبدہ باز آگ کے گولے کی تپش اپنے سینے تک محسوس تو کرتا ہے لیکن خون کی حدت اس کے لبوں کو تسکین پہنچاتی ہے ۔ ’’ نصیر بھائی ! آپ بہت معصوم ہیں ۔ اب ہر مرد آپ کی طرح شریف نہیں ہوتا ۔ ‘‘

آگ کے گولے کی اس تپش نے اسے زمین میں دھنسا دیا تھا وہ اسے جی بھر کے دیکھنا چاہتا تھا لیکن شرافت کی لاج رکھنا اب اس پر مقدم تھا ۔

’’ یہ تو ہاتھ سے بٹے ہوئے دھاگے کی طرح ہے ۔ ‘‘ وہ جی ہی جی میںاندازے لگانے لگا تھا کہ یہ دھاگہ دیپ روشن کرتا ہو گا یا موم بتی ۔ ’’ دونوں کا کام تو جلنا ہی ہے اور اس کا کام جلانا ۔ ‘‘ وہ ہونٹوں پر دائیں ہاتھ کی مکی بنا کر سوچوں میں گم تھا ۔ بحریہ ٹاؤن کی خاموش فضا، ٹھنڈک اور خاموشی نے اس کی آتش کو مزید بھڑکا دیا تھا ۔بی بلاک سے داخل ہوتے ہی اس کی آنکھیں سفینہ کا گھر ڈھونڈنے لگیں ۔ ماحول کی خاموشی اور ٹاؤن کی خوبصورتی نے اس کے اندر ساز بجانے شروع کر دئیے تھے ۔ ایسے میں وہ سفینہ کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ گراؤنڈ میں لگے جھولوں میں سے ایک جھولے پر بیٹھ کر وہ اپنی آواز میں چیاؤں چیاؤں کرنے لگا۔ جیسے اسے پکارتا ہو کہ ایک بار آ کر دیکھو تو سہی کون آیا ہے۔ بیٹھک کی کھڑکی کا پردہ زبان باہر نکالے ایک کنارے سے لگا ہوا تھا ۔ جب وہ نیلے رنگ کی نائیٹی میں ملبوس کمرے سے نکل کر لائونج کے صوفے پر براجمان ہو گئی ۔ بیٹھک کی کھڑکی سے نیچے وہ چونچ سیدھی کیے ٹکر ٹکر ادھر ہی دیکھے جا رہا تھا۔ نیلی نائیٹی صوفے پر بے سدھ پڑی تھی کبھی وہ ماتھے پر ہاتھ ٹکا لیتی تو کبھی لمبے لمبے سانس لینے لگتی ۔ پھر اچانک اس نے فون کان سے ہٹا کر ٹیبل پر پٹخ دیا ۔ بالڈ ایگل اس نیلی نائیٹی کی بے چینی کو دور سے دیکھنے پر ہی اکتفا کر سکتا تھا ۔ ’’ کاش اس کالے سانپ کے بجائے سفینہ جیسی ناگن میرے پنجوں میں ہوتی ۔ ‘‘ سوچوں پر بندباندھتے ہی وہ پر پھیلا کر واپسی کی طرف گامزن تھا ۔

’’ ارے سنتے ہیں ۔۔۔ وہ میری دوست ہے نا ۔ ۔۔ میرا مطلب ہے کہ تھی ۔ ‘‘

’’ کس کی بات کر رہی ہو ۔ ‘‘

’’ سفینہ کی ۔ ۔۔ وہ رات قتل ہو گئی ۔ ‘‘

’’ ہیں ۔۔ کیسے ، کیا مطلب ۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ کیا بکے جا رہی ہو ۔ ‘‘ بالڈ ایگل کمر پر ہاتھ رکھے کمرے سے باہر نکل آیا ۔ ’’ یہ دیکھو صبح سے خبروں میں بس اسی کی خبر ہے کہ کسی نے اسے گولی مار دی ۔ ‘‘

’’ مگر ایسے کیسے ہو سکتا ہے وہ تو رات ۔۔ نیلی نائیٹی میں تھی ۔ ‘‘ کتنی ہی سرگوشیاں اس کے اندر چل رہی تھیں۔

’’ اگر میں اس رات باتیں کرتے کرتے اس کا ہاتھ پکڑ لیتا تو کیا وہ برا مانتی ۔۔۔ نہیں نہیں ، اس کی آنکھوں میں میری شرافت گھوم رہی تھی ، میں تو شاید اسے نظر ہی نہ آتا ۔ ‘‘

’’ پھر کیا فائدہ ایسی مردانگی کا کہ ایک عورت کا سنسر مرد کو جانچنے سے انکاری ہو جائے ۔ دھت تیرے کی ، ماں چود شرافت اور میں سب سے بڑا دلا۔‘‘ ہاتھوں میں بٹی ہوئی ڈوری اس کی کیفیت سے بے خبر اپنے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں کوگھماتے ہوئے پھول برسا رہی تھی ۔ بالڈ ایگل کا سینہ زور لگا رہا تھا گویا کوئی چیز ابل کر باہر آنے کے چکر میں ہو ۔ سانس لینے میں گھٹن محسوس کرتے ہوئے وہ فوراً چھت پر چلا گیا ۔ دسمبر کے پہلے ہفتے کی تاریخیں خنکی کا پیغام دے رہی تھیں ۔ اس نے منڈیر پر کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے لیکن اس کی بغلیں تو خاموش تھیں ۔ وہ آنکھیں بند کر کے ریلنگ پر کھڑا ہونے کی کوشش میں چھت پر آن گرا جیسے کوئی کچا پھل کانٹی مار کر گرا دے ۔ اس نے بڑے بڑے سانس لے کر اٹھنے کی کوشش میں منہ سے چیاؤں کی آواز نکالنا چاہی لیکن جواب میں خاموشی اس کی منتظر تھی ۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتا ہوا ٹھنڈے اور کھردرے فرش پر چت پڑا تھا ، وہ بار بار اپنی ناک کو ہاتھ لگا کر دیکھتا کہ شاید چونچ نکل آئی ہو لیکن وہاں تو ربڑ کی ناک چسپاں تھی ۔ اس نے بے بس ہو کر گردن زمین پر رکھتے ہی ٹانگوں کو سیدھاکرتے ہوئے ان کو پنجوں میں تبدیل ہونے کے لیے چھوڑ دیا ۔ بالڈ ایگل اپنی آخری فلائٹ پر تھا جب اس کی آنکھ ہسپتال کے نیم گرم ماحول میں کھلی ۔ اسے اپنے چہرے پر ہوائیں چلتی محسوس ہوئیں اور اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔ اس کی بیوی منہ میں کچھ تیزی سے بڑبڑاتے ہوئے آگے کو جھکتی اور پھونک مار کر پھر آنکھیں بند کر لیتی ۔

 ’’ میرے پر ۔۔ چونچ اور وہ میرے پنجے ۔ ‘‘

’’ لگتا ہے ہوش آ گیا ہے ۔ ‘‘ نرس اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھی ۔ اس کے ہاتھ نصیر کی کلائی میں پیوست تھے جب اس نے بادامی رنگت پر کالی لٹوں کو گرے ہوئے دیکھا ۔

’’ شکر ہے آپ کو ہوش تو آیا ۔ اتنی سردی میں کیا لینے گے تھے چھت پر ۔۔۔ اب کروا لیا نہ نمونیہ ۔ مل گیا چین ۔ ‘‘

نصیر خاموش نگاہوں سے اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ اسے لگاجیسے سامنے اس کی بیوی کے بجائے وہی نیولا بیٹھا ہے جو اس کے منہ سے شکار کو اچک کر اب دور بیٹھا کھا رہا تھا ۔ اس میں بولنے کی سکت نہیں تھی ۔ پسلیوں میں درد تھا جسے وہ اپنے کھلنے والے پروں سے تو تعبیر کر سکتا تھا لیکن یہ ماننا مشکل تھا کہ نمونیے نے اس کی پھیپھڑوں کو جکڑ لیا تھا ۔ کمرے میں مزید تین پلنگ بچھے تھے اور دونوں نرسیں باری باری ان بیڈز کی طرف بھی جاتی تھیں ۔ بالڈ ایگل ادھ کھلی کھڑکی کے پار سے ان نرسوں کی ہلتی ہوئی پشت کو دیکھ کر منہ سے چیاؤں کی آواز نکالنے لگا ۔ ایک نرس اس کے جنبش میں گم لبوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھی۔ بالڈ ایگل اپنی چونچ سے پنجہ صاف کر رہا تھا ۔ ’’ اوں ۔۔ہوں ۔۔۔ ہاتھ سیدھا کریں ، ڈرپ ہل جاتی ہے ۔ ‘‘ نرس کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ٹکرایا۔ شکاری شکار کو دور جاتا دیکھ کر پر پھڑپھڑانے لگا ۔ ’’ نرس ، یہ کھڑکی بند کر دو ۔ سردی آتی ہے ۔ ‘‘ ساتھ والے بیڈ سے بوڑھے مریض نے آواز لگائی ۔

’’ چپ ، کھسیے ، یہیں سے تیری بوٹی نوچ لوں گا۔ ٹھہر میں آیا ۔ ‘‘ بولڈ ایگل نے کھڑکی بند کرنے پر منہ کھولا ۔ اس کا جبڑہ تو ہل رہا تھا لیکن لفظ غائب تھے ۔ لچک دار کمر اور بھاری پشت والی نرسیں کرسیوں پر بیٹھی اپنی باتوں میں مگن تھیں جب بالڈ ایگل کھڑکی سے اڑ کر ان کے پیچھے سرک گیا ۔ خون کی بو اور ذائقے کی کسیل نصیر کے نتھنوں سے حلق کی طرف چڑھ گئی تھی ۔