سوتیلی

یہ تحریر 600 مرتبہ دیکھی گئی

وہ جب نذر حسین کے گھر بیاہ کر آئی تو صحن سے کمرے تک چلتے ہوئے چمڑے کی بو نے اس کے نتھنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس نے خاصی ناگواری سے ناک پر گوٹے والا دوپٹہ کھینچ لیا۔ پلنگ پر بیٹھتے ہی اس نے اپنی ٹانگوں کو سکوڑ کر سینے کے ساتھ لگا لیا، تھکاوٹ اسے چور چور کر رہی تھی۔ آدھے گھونگھٹ میں سے اس نے کمرے کا بغور جائزہ لیا۔ بلب کی پیلی روشنی میں اسے ہر چیز ملگجی محسوس ہوئی۔ اس گھر کی ہر چیز میں چمڑے کی بو رچی بسی تھی۔ ابھی اس نے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ کوئی دھم سے پلنگ پر گرا، اس نے چونک کر دیکھا تو نذر حسین کی گود سے ایک بچہ لڑھک کر پلنگ پہ گر چکا تھا۔ ”آ میرا کاکا، او میرا کاکا۔۔۔ کا  ہوا۔۔۔۔ اوئے، اوئے، اوئے۔“ پلنگ پر آنکھ مچولی شروع ہو گئی، بچے کی اچھل کود اور باپ کی پکڑ دھکڑ نے بھونچال بپا کر دیا تھا۔ صفیہ سے گھونگھٹ کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو رہا تھا، غصہ گیس کی طرح اس کے سر پر سوار ہونے کو تھا جب نذر حسین نے گلا کھنکار کر اسے مخاطب کیا: ”یہ میرا کاکا ہے، کاکے اپنی امی کو سلام کرو۔۔۔۔ شاباشے، واہ جی واہ! کیا بات ہے جی۔“ کاکے نے آگے بڑھ کر اسے پکڑنا چاہا لیکن صفیہ نے محتاط انداز سے اسے پچکار کر اپنے پہلو میں بٹھا دیا۔ کاکے کے سونے تک نذر حسین اپنی نئی بیوی کو اس کی ماں کی موت اور اپنے اکیلے پن کی کہانیاں سناتا رہا۔ دو سال کا کاکا جب گہری نیند سو گیا تو نذر حسین نے اپنی واسکٹ اتار کر کرسی پر رکھی اور خود کو اکیلے رُکھ کی طرح میدان میں گاڑ دیا۔

کاکے کے پاجامے سے اٹھنے والی پیشاب کی بو مسلسل تیز ہو رہی تھی تبھی نذر حسین نے سہاگ کی لال چمکیلی چادر کے بیچوں بیچ کھیسی بچھائی۔ اب وہ اسے سیدھا لٹاکرکپڑے بدل رہا تھا۔ صفیہ نے ادبدا کر کروٹ بدلی، یکدم کمرے سے چمڑے کی بو کے بجائے پیشاب کی بو نے ڈیرے ڈال لیے۔ ساری رات دوپٹے کا پلو اس کے نتھنوں سے لگا رہا اور وہ بڑے کڑوے کڑوے سانس لیتی رہی۔ نئے گھر میں یہ اس کی پہلی صبح تھی جس میں پھولوں، گجروں اور خوشبوؤں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نا ایک دوسرے کے جسموں سے اٹھنے والی دھیمی سلگتی آنچ تھی اور نا ہی چوڑیوں اور گنگنوں کا شور تھا۔ بس ایک ٹکر ٹکر دیکھنے والا کاکا تھا جو پیار بھرے انداز سے اسے تکے جاتا تھا۔

ہمسائیاں اور رشتے دار عورتیں صبح سے اس کے کمرے میں چل پھر رہی تھیں۔ دو عورتیں آگے بڑھ کر سلام لیتیں اور بڑی بوڑھیاں اس کے سر پر پیار دے کر پلنگ پر بیٹھ جاتیں۔ ان عورتوں کی کھسر پھسر نے عجیب سا شور پیدا کر دیا تھا۔ کسی کو اس کے ہاتھ اور کسی کو گندھا ہوا جسم بھا رہا تھا۔ وہ مجمعے کے سامنے تماشا بنی مورتی کی طرح تھی جو ایک ہی پوز میں کھڑی رہتی ہے۔ کاکا شور مچاتا کمرے میں اچھلتا کودتا جسے عورتیں صفیہ کی گود میں اچھال دیتیں۔ بیڈ منٹن کا یہ میچ پورا دن چلتا رہا، صفیہ کے ہاتھ سے کبھی تو گول مس ہو جاتا اور کبھی وہ سکور کر جاتی۔ کبھی تو اس کا جی چاہتا وہ کاکے کو بال کی طرح دیوار سے دے مارے اور میچ کسی فیصلے کے بنا ہی ختم ہو جائے۔ عورتیں اس کھیل میں دونوں کھلاڑیوں کے درمیان چلنے والی کشمکش کو بھاپننے کے تمام گر آزما رہی تھیں۔ صفیہ مجمعے سے گھبرا کر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے تکیے پر ڈھے گئی۔ گھر میں پھیلی چمڑے اور کاکے کے پیشاب کی بو اس کے دماغ کو چڑھنے لگی تھی۔

صفیہ سے شادی نے نذر حسین کو کاکے کی پرورش اور اپنی تنہائی سے مکمل بے فکرا بنا دیا تھا۔ وہ صبح اٹھ کر ناشتہ کرتا اور اسے کاکے کے بارے ہدایات دیتا ہوا سائیکل سنبھال کر کام پر نکل جاتا۔ وہ دکان میں داخل ہوتے ہی چمڑے کی بڑی بڑی پرتوں کوایک ہی سائز میں کاٹنے لگتا۔ ادھر صفیہ کے لیے صورت حال سنگین تھی وہ کاکے کو ذہنی اور دلی طورپر تسلیم ہی نہیں کر سکی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ تناؤ نفرت میں بدلنے لگا تھا۔ نذر حسین گھر داخل ہوتے ہی ”او میرے کاکے، کدھر ہے تو۔“ کا نعرہ بلند کرتا تو دروازہ کھولتی صفیہ کے ہاتھ وہیں رک جاتے اور اس کی مٹھیاں پسینے سے گیلی ہو جاتیں۔ وہ باپ بیٹے کی محبت کے درمیان آنے کی کوشش میں روند دی جاتی۔ سائیکل سٹینڈ سے کھانے کا ٹفن اٹھانے سے لے کر کھانا لگانے تک وہ نذر حسین کو دیکھتی رہتی۔ وہ کاکے کے ساتھ لاڈ جتانے میں اس قدر مگن ہوتا کہ اپنے گرد گرم الاؤ کی تپش محسوس ہی نہ کر پاتا۔

صفیہ کے اندر ممتا پیدا ہو ہی نہیں رہی تھی، بعض اوقات وہ اسے زبردستی اپنے سینے سے چمٹا کر بھینچ لیتی۔ کبھی کبھار اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے کر اسے اپنی ٹانگوں کے بیچ دبوچتی۔ کاکا زور لگا کر اٹھنے کی کوشش میں طمانچے کھاتا لیکن اس کی گود چھوڑنے کی ہمت اس میں جمع نہیں ہوتی تھی۔ صفیہ ہونٹوں کے درمیان انگلی رکھ کر زور سے بولتی: ”خبر دار! تیری آواز نکلی تو جلتا کوئلہ حلق میں ڈال دوں گی، کیچوے۔“ ایک دن اس نے کاکے کو کمرے میں بند کر کے کنڈی لگا دی، وہ ہمیشہ کی طرح گلا بند کیے رونے لگا۔ ابھی بھی اسے صفیہ کا اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش اور خبردار کہنا ڈرا رہا تھا۔ رات کو نذر حسین گھر آیا تو اسے سویا ہوا پا کر فکر مند ہوگیا۔ وہ بار بار اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی کرتا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں۔ ”صفیہ! میرے کاکے کا بڑا دھیان رکھنا۔ اس کی ماں نہیں ہے جو اسے اپنی گرمی دیتی۔ تمہارے ساتھ بڑا دل لگ گیا ہے اس کا۔“ روٹی کا نوالہ توڑتے ہوئے اسے صحن میں لیٹا کاکا چاند کا ٹکڑا لگ رہا تھا۔

 صفیہ اپنی جلتی ہوئی آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر کمرے میں چلی گئی۔ نفرت کی یہ آندھی صفیہ کو بہائے لیے جا رہی تھی، وہ اب اسے مارنے کے بہانے ڈھونڈنے لگی تھی۔ ”بس کچھ ایسا کروں کہ یہ مردود مر بھی جائے اور میرا نام بھی نا لگے۔۔۔۔ لیکن ایسا ہو گا کیسے۔“ وہ بڑبڑاتی رہتی۔ وہ اکثر اسے بازار لے کر جاتی تو جان بوجھ کر اس سے اپنی انگلی چھڑا کر غائب ہو جاتی۔ کاکا اس کی نظروں کے سامنے رہتا لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں صفیہ کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوتیں۔ وہ سراسیمہ اپنی جگہ کھڑا رہتا کبھی گول گول گھوم کر اسے تلاش کرتا اور دونوں ہتھیلیاں آپس میں رگڑتا رہتا۔ آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو اور بہتی ناک اس کا گریبان گیلا کر دیتی۔ رش والی جگہ پر دھکم پیل ہوتی تو وہ ٹھوکریں کھاتا ہوا تنکے کی مانند بہتا رہتا۔ صفیہ بکیے کی طرح ریس کے اس گھوڑے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی لیکن وہ دو قدم چل کر راضی نہیں ہوتاتھا۔ ”حرامی! گم بھی نہیں ہوتا۔“ وہ اس کے بازوپر زور سے چٹکی کاٹ کر اپنی جانب متوجہ کرتی اور کان سے پکڑ کر گھر لے آتی۔ کاکا پانچ برس کا ہونے کو تھا لیکن بولنے کے بجائے اشاروں سے اپنی بات سمجھاتا رہتا۔ وہ بس صفیہ کے چہرے پر نظریں گاڑے رکھتا تھا جیسے اس کے آرڈر کا منتظر ہو مگر وہاں صفیہ کو نذر حسین کی ضرورت تھی اور درمیان میں کاکے کی کھیسی آ گئی تھی۔

”یہ میری بات نہیں سنتا، کہنا نہیں مانتا، ہاں جی! صحیح ہے نا، میں کون سا اس کی اصل ماں ہوں۔ میرا بھی کوئی جی ہوتا تو میں آج ایسے روتی تو نا۔“ کبھی کبھار نذر حسین بھی اس کے مکر میں آ جاتا۔ ”نا میری شہزادی، حکم کر کیا چاہیے۔ کل ہی تیری مرضی کا جوتا حاضر ہو گا۔ بوٹ، شو، گرگابی، سلیم شاہی، ملتانی، مکیشن، پمپی، ناگرا، سینڈل، سلیپر، چپل، کیا چاہیے تجھے۔“

”اچھا چل شہری میموں والی کوٹھا اڈی والی جتی چلے گی؟“

”بس کر دو جی، جوتیوں کا میں نے کیا کرنا ہے۔ کاکے کے بہن بھائی ہوں بس اتنا ہی کافی ہے۔“ نذر حسین ہمیشہ کی طرح اس کی اس فرمائش پر فیوز بلب بن جاتا مگر اب کی بار وہ اس کا فیوز اڑا چکی تھی۔ کاکا خاموش نظروں سے زندگی گزار رہا تھا۔ جب اس کے اوپر تلے دو بھائی دنیا میں آئے تو اس نے غوں غاں کرنا شروع کی۔ وہ ان کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتا، ان کے پاجامے دھوتا، گیلے چوتڑوں کو سوکھے کپڑے سے صاف کرتے ہوئے انہیں پیار سے تھپتھپاتا۔ صفیہ ان دنوں کاکے کو مارنے کا منصوبہ بھلا چکی تھی لیکن ابھی بھی اسے گرمی کی شکر دوپہروں میں گھر سے کھیلنے کے لیے بھیج دیتی۔ وہ دروازے کے ساتھ بنے تھڑے پر ہاتھ میں تنکا لیے بیٹھا رہتا۔ اس تنکے سے نجانے وہ کتنی بار کسی عورت کی تصویر بناتا تھا جس کی مانگ کے دونوں طرف بڑی چوڑی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی۔ وہ کم از کم صفیہ تو نہیں تھی، پھر وہ تنکے سے ساری مٹی برابر کر کے ایسی بہت سی عورتوں کی تصویریں بناتا چلا جاتا۔ صفیہ اپنے دونوں لڑکوں کو لیے کولر کی ٹھنڈی ہوا میں سوئی رہتی۔ شام کو کاکا پھر اس کا منتظر ہوتا اور وہ بڑبڑاتی: ”حرامی! گم بھی نہیں ہوتا، کوئی اسے اٹھا کر بھی نہیں لے جاتا۔ پتہ نہیں کہاں مر گئے ہیں یہ بچے اٹھانے والے۔“ وہ کاکے ساتھ تمام داؤ کھیلتی جن میں اسے کسی نہ کسی چیز سے ٹکرا کر گرنا ہوتا تھا۔

”تجھے دیوار پر ٹانگ کر نشانہ باندھوں تو شاید خطا ہو جائے، ایسا نیش ہے تو۔“

”سن تربوز کے بعد پانی پی لیا کر، نہیں ہوتا تجھے ہیضہ ویضہ۔“

”اوئے، یہ زبان لگا کر دیکھ برف کا کوؤلا ٹھنڈا ہے یا نہیں۔“

کاکا جیسے ہی زبان اس برتن کے ساتھ مس کرتا وہ اس کے ساتھ چمٹ جاتی۔ پھر وہ بڑی مشکل سے اس برتن سے اپنی زبان چھڑواتا اور صفیہ زخمی شیرنی کی طرح آنکھوں میں خون بھرے اسے تکتی۔ ایک دن کھیلتے کھیلتے وہ چھت سے نیچے گرا تو اس کا سر پھٹ گیا، صفیہ کے چہرے پر اطمینان کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے گیلے کپڑے کی ٹاکی اس کے سر پر رکھی اور پپو کمپوڈر کی دکان پر چلی گئی۔ خون بہتا جا رہا تھا، پپو نے اس کے سر کو سن کیے بنا ٹانکے لگانا شروع کر دیے۔ سوئی اس کے ماس میں گھستی تو وہ چیختا چلاتا۔ صفیہ اسے اپنی ٹانگوں میں دیے چاروں شانے چت کر چکی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اس کی بتیسی بند کر دی، ٹانکے لگنے کے بعد اس پر پٹی کی گئی تو وہ سسکیاں لینے لگا۔ صفیہ اس کے درد سے لطف کشید کر رہی تھی جیسے آج کتنے عرصے بعد انتقام کی پہلی قسط ادا ہوئی ہو۔ رات کو جب نذر حسین گھر آیا تو دونوں چھوٹے لڑکے اس کے بازوؤں سے جھول گئے۔ چارپائی پر لیٹے ہوئے کاکے کے سر پر پٹی دیکھ کر باپ کا دل بے چین ہو گیا۔ ”بس جی! پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ چھت سے گرا تھا، ٹانکے لگوا دیے ہیں۔ ستے خیراں نے۔“

”میرے کاکے کو درد تو نہیں ہوتا۔“ نذر حسین نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا۔ دونوں چھوٹے لڑکے اس کی گود اور کاندھوں پر سوار ہو چکے تھے۔ کاکے نے نفی میں سر ہلا دیا۔ چھوٹی موٹی چوٹیں اسے لگتی رہتی تھیں جن پر صفیہ کبھی پریشان نہیں ہوئی تھی ایک بار جب بھڑوں نے کاکے کو کاٹ لیا تو اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ”یہ کہاں سے پھونک بھراوا لایا ہے رے۔“کاکا اپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگا، تکلیف کے مارے اس کے دانت ایسے بند تھے جیسے اسے دندل پڑ گئی ہو۔ بس ”ہوں ں ں، ہوں ں ں“ کی دھیمی آوازیں اس کے حلق سے نکلتی تھیں۔ صفیہ اپنے دل کو خوب کس کر گرہ لگا چکی تھی اسے نذر حسین کی آنکھوں میں بھی کاکا ہی نظر آتا تھا۔ ایک دن اسے پڑوسن بابا شیر شاہ کے پاس لے گئی۔ ”سنا ہے بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔ آزما کر دیکھ لو شاید کام بن جائے۔“ بابا جی نے صفیہ کی آنکھوں میں نفرت کا ابلتا سمندر دیکھ کر چوکڑی ماری: ”لڑکے کی جان چاہیے کیا؟“

”نہیں بابا جی! بس میں چاہتی ہوں میری جان چھوڑ دے، میرے بچے اور میں اس کے باپ کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ کم بخت اسے چومتا چاٹتا رہتا ہے۔“

”یعنی ہانڈی نہیں چلوانی، پیروں سے چلے نہیں کٹوانے۔ بس ہتھل کرنا ہے۔“

”جی جی جی۔۔۔ بس پڑا رہے کہیں، گم ہو جائے۔“

”ھم م م م۔۔۔ سیندور لے کر تعویز بنوا اور ڈال دے اس کے گلے میں۔ تیرے سب رستے سیدھے ہو جائیں گے۔“

صفیہ نے جہاں سو جتن کیے تھے وہاں ایک اور کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا ماسوائے کاکے کی مسلسل بڑھنے والی کھانسی کے، جو وہ رات بھر کرتا رہتا۔ نذر حسین آدھی رات کو اٹھ کر اس کی چارپائی کے پاس بیٹھ جاتا، دھیرے دھیرے اس کے سینے پر اپنی ہتھیلی ملتا۔ کبھی شہد ملا پانی پلاتا تو کبھی قہوے بنا کر دیتا لیکن آرام کسی کروٹ نہیں تھا۔ پھر ایک دن شہرسے واپسی پر نذر حسین کے جھکے ہوئے سر اور رپورٹوں کے انبار نے بتایا کہ اسے ٹی۔ بی ہے۔ صفیہ نے اس دن سے کاکے کا بستر ڈرموں، بھڑولوں اور پیٹیوں والے سٹور میں ڈال دیا تھا۔ جہاں اناج سے اٹھنے والی گرمی اسے مزید کھانسنے پر مجبور کرتی رہتی۔ وہ سارا دن گھر کو فینائل سے دھوتی رہتی، دھونی دیتے دیتے صحن دھوئیں سے بھر دیتی اور خاص طور پر اپنے دونوں لڑکوں کو اس سے دور رکھتی۔ کاکے کے کپڑے بھی نذر حسین کو دھونا پڑتے۔ ٹی۔ بی نے اس کے جسم کو کھنگر گائے بنا دیا تھا۔ ٹھسکے دار کھانسی اور بلغم سے اس کی چھاتی بھری رہتی۔ ”جو مزہ تجھے لاغر دیکھنے میں ہے وہ مارنے میں کہاں۔“ صفیہ اسے یوں دیکھتی جیسے بجلی کے ننگے تار اس نے زبان پر رکھ لیے ہوں۔ جسم میں پھیلنے والے کرنٹ کی تیزی اسے مزید نفرت انگیز بنا دیتی تھی۔ گھر کے اندر ایک چھوٹا کمرہ کال کوٹھڑی بن گئی تھی جس میں قیدی نمبر ا بند تھا۔

نذر حسین جب بھی کاکے کے پاس لیٹنے کی کوشش کرتا، دونوں لڑکے اس کی ٹانگوں سے چمٹ جاتے۔ صفیہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتی اور بوڑھا باپ کمرہ عدالت سے سر جھکائے واپس لوٹ جاتا جیسے وہ اپنی زندگی کا آخری کیس ہار گیا ہو۔ کاکا اس بار بھی بیماری سے جیت چکا تھا لیکن ٹی بی نے اس کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ پیلا زرد چہرہ اور کانپتے ہاتھوں سے اس نے کتابوں کو خیر باد کہہ کر باپ کی دکان سنبھال لی۔ نذر حسین چمڑے کو سانچے میں ڈال کر اسے کاٹتا تو وہ موٹے دھاگے سے تلوے چمڑے کے ساتھ سینے لگ جاتا۔ ”یہ دیکھ میرا پُت، بندے کا اصل بھی مٹی، یہ رُکھوں میں پلنے والے جانور بھی مٹی اور ان کی کھال سے بننے والی چم بھی مٹی۔ پھر کہاں کی بادشاہی۔ سنا تو نے، کبھی گیلی چم بن کر کاٹتے نہ پھرنا۔ سمجھ گئے نا۔“ کاکا زور زور سے سر ہلانے لگتا۔ جب نذر حسین بیمار ہو کر پلنگ سے لگا تو صفیہ نے اپنی جگہ خالی کر کے سیٹ کاکے کے حوالے کر دی۔ ”لو کر لو باپ بیٹا جی بھر کر میرے خلاف باتیں۔ میں نہیں آتی تم دونوں کے بیچ۔“ نذر حسین چارپائی پر لاچار پڑا اس کی بڑ بڑ سنتا رہتا۔ ”اس سے اچھی موت ہے کاکے، دعا کر آ جائے۔“ کاکا سسکارا بھرتے ہوئے اس کے ہاتھ چوم لیتا۔ وہ رات بھر باپ کے ماتھے پر برف کی پٹیاں رکھتا، برف کی تاثیر نے اس کے اندر بھی گرمی بھر دی تھی وہ اوپر سے کس قدر ٹھنڈا تھا جبکہ اس کے اندر گلیشئیر بنتا جا تا تھا۔ ادھر دو آنسو نذر حسین کی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے کانوں کی لوؤں کے پاس گم ہو جاتے۔ راجدھانی بدل چکی تھی، نذر حسین دنیا سے جا چکا تھا اور دونوں چھوٹے شہر کے پاتال میں گم ہو گئے۔ صفیہ کو اپنی خدمت کے لیے عورت چاہیے تھی سو کاکے کے لیے بیوی لانا پڑی۔ جب اس نے اپنے چھوٹے بھائیوں کی شادیاں کیں تو گھر کی رونقیں دیکھنے والی تھیں لیکن اس کی ڈولی میں سجی دلہن کو جنازے کی طرح قبرستان میں رکھ دیا گیا تھا۔ وہ ابھی نگینہ کو منہ دکھائی کی انگوٹھی پہنانے ہی والا تھا کہ صفیہ زور زور سے اسے پکارنے لگی۔ ”حرامزادے، کدھر مر گئے سارے۔ ہائے میری کمر ٹوٹ گئی۔“

”کیا ہوا اماں۔“

”ہونا کیا ہے، دیکھ نہیں رہا پھسل گئی ہوں، اٹھا نہیں جا رہا۔ لے پکڑ کر بٹھا مجھے یہاں۔“

کاکا ساری رات اس کی ٹانگیں دباتا رہا اور وہ دل ہی دل میں اپنی ان تمام راتوں کے بدلے چکا رہی تھی جن میں چمڑے کی بو سے زیادہ اس کے پیشاب کی بو رچی بسی تھی۔ بہت جلد نگینہ کی طبیعت کی تیزی صفیہ کی ترشی سے ٹکرا گئی۔ ”میری اماں ہے، اسے کچھ مت کہنا۔“

”سگی نہیں ہے۔“

”سوتیلی ہی سہی۔ ابا کی نشانی ہے۔ میری ماں کے بدلے آئی ہے۔“ نگینہ اس کے جواب پر منہ بنا کے سو جاتی۔

صفیہ کے شور شرابے سے گھبرا کر وہ دکان سرشام ہی بند کر کے گھر آ جاتا۔ ماں کے کمرے میں بیٹھ کر وہ جوتوں کے تلوں کو سلوشن سے جوڑتا تو کمرے میں ایک نئی بو کا اضافہ ہو جاتا۔ صفیہ حقے کی نالی منہ میں لیے گڑ گڑ کرتی رہتی۔ جوتوں کی ٹھک ٹھک ٹھک، پیلی روشنی اور دھوئیں نے مل کر ماحول کو عجیب خانقاہی بنا دیا تھا۔ ”سوکھی چم جیسا ہو گیا ہے تو۔ کالا، سوکھا سڑا ہوا۔ بدرنگ، بدمزہ، تھوووو۔“

کاکا ہنستے ہوئے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگا وہ حقیقتاً سوکھے چمڑے کی طرح تھے جو پانی لگنے کے بعد اس قدر تنگ ہو جاتے ہیں کہ پہننے والے کو کاٹتے پھرتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ بچپن سے کھڑاؤں پہنے پھرتا تھا، نیا جوتا اسے بھی کبھی راس نہیں آیا۔ وہ اب بھی صفیہ کی خدمت پر ویسے ہی مامور تھا جیسے بچپن میں وقت گزرتا رہا۔ تب دونوں چھوٹے آدھا دن سو کر گزارتے اور وہ صفیہ کے ساتھ گھر کی صفائی سے لے کر مسالہ کوٹنے تک ادھر سے ادھر نہ ہوتا۔ ”میرے بچے جاگ نہ جائیں۔ آہستہ چل مردار، کون سے سیل ہیں تیرے اندر۔“

اب وہ ایسی ہی جل کٹی نگینہ کو سنانے لگی تھی اور اس کے لیے صفیہ کا بڑھاپا مصیبت بننے لگا تھا۔ وہ آخری عمر میں حد درجہ بدتمیز اور بد لحاظ ہوتی جا رہی تھی۔ اکثر وہ کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے پھینک دیتی۔ ”مجھے زہر دینا چاہتے ہو، سنپولیو۔ ناگن عورت۔“

نگینہ کا دل چاہتا وہ فوراً ناگن بن کر اسے اس بری طرح سے ڈسے جیسے اس کے باپ کو سانپ نے کاٹا تھا۔ زہر نے اس کے جسم سے ماس ہی نہیں چاٹا بلکہ جلن کے مارے اس کی چیخیں شہر کے بڑے ہسپتال کو بھی ہلاگئی تھیں۔ ”کیا ٹکر ٹکر دیکھتی ہے، کتی، فاحشہ۔“

”بس بھئی بس۔ میرے تو اب کنٹرول میں یہ مائی نہیں رہی۔ تم ہی اپنی ماں کو روٹی دیا کرو۔“ کاکے نے پلیٹ اٹھائی اور اس کے منہ میں نوالے ڈالنے لگا۔ کچھ مہینوں سے صفیہ کی یادداشت متاثر ہونے لگی تھی، اب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر صحن میں دوڑیں لگاتی۔ کبھی نذر حسین کو آوازیں دیتی تو کبھی کاکے، کاکے کی صدائیں گونجنے لگتیں۔ کاکا دوڑتا ہوا آتا اور اسے کمرے تک لے جاتا۔ ”یہ بو کہاں سے آتی ہے۔ چمڑے کی تو نہیں لگتی۔۔۔۔ ہائے ہائے یہ تو تیرے پیشاب کی بو ہے۔ حرامی! تو ہگتا بہت ہے۔ ابھی تک ہگتا ہے کیا۔ توبہ توبہ کتنی بو ہے۔ تو مرا نہیں ابھی تک۔“ صفیہ نے اپنا لرزتا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

”وہ دیکھ تیرا باپ آیا ہے۔ کل بھی آیا تھا کہتا تھا میں اکیلا ہوں یہاں۔ میں نے کہا کہ کاکے کو بلا لو۔ مصیبت ٹلے۔“

”سن۔۔۔ تیرا باپ مر گیا ہے کیا؟“

”ہاں اماں۔“

”میں بیوہ ہوں اب۔ نہیں نہیں تم تو نذر حسین ہو۔ ہے نا۔ آ بیٹھو ادھر۔ ادھر میری گود میں۔“

کاکے نے اس کی گود میں سر رکھ دیا۔ آج اس کے حلق سے بھی خر خر خر کی آوازیں نکل رہی تھیں۔

”سنو! نذر حسین! اپنے کاکے کو بلا لو، مجھے ا س سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ یہ بھی مجھے مار ڈالے گا۔ قسم سے مار دے گا۔ میں نے تو اسے نہیں مارا۔“

”تو مجھے مار دے گا نا۔۔۔ بول، مار دے گا؟“

”نہیں اماں! میں بھی تجھے نہیں ماروں گا۔“

دو آنسو لڑھک کر اس کی ہتھیلیوں پر آ گئے، باہر صحن میں گیلے چمڑے کی بو تیز ہو چکی تھی۔

کاکا جیسے ہی زبان اس برتن کے ساتھ مس کرتا وہ اس کے ساتھ چمٹ جاتی۔ پھر وہ بڑی مشکل سے اس برتن سے اپنی زبان چھڑواتا اور صفیہ زخمی شیرنی کی طرح آنکھوں میں خون بھرے اسے تکتی۔ ایک دن کھیلتے کھیلتے وہ چھت سے نیچے گرا تو اس کا سر پھٹ گیا، صفیہ کے چہرے پر اطمینان کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے گیلے کپڑے کی ٹاکی اس کے سر پر رکھی اور پپو کمپوڈر کی دکان پر چلی گئی۔ خون بہتا جا رہا تھا، پپو نے اس کے سر کو سن کیے بنا ٹانکے لگانا شروع کر دیے۔ سوئی اس کے ماس میں گھستی تو وہ چیختا چلاتا۔ صفیہ اسے اپنی ٹانگوں میں دیے چاروں شانے چت کر چکی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اس کی بتیسی بند کر دی، ٹانکے لگنے کے بعد اس پر پٹی کی گئی تو وہ سسکیاں لینے لگا۔ صفیہ اس کے درد سے لطف کشید کر رہی تھی جیسے آج کتنے عرصے بعد انتقام کی پہلی قسط ادا ہوئی ہو۔ رات کو جب نذر حسین گھر آیا تو دونوں چھوٹے لڑکے اس کے بازوؤں سے جھول گئے۔ چارپائی پر لیٹے ہوئے کاکے کے سر پر پٹی دیکھ کر باپ کا دل بے چین ہو گیا۔ ”بس جی! پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ چھت سے گرا تھا، ٹانکے لگوا دیے ہیں۔ ستے خیراں نے۔“

”میرے کاکے کو درد تو نہیں ہوتا۔“ نذر حسین نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا۔ دونوں چھوٹے لڑکے اس کی گود اور کاندھوں پر سوار ہو چکے تھے۔ کاکے نے نفی میں سر ہلا دیا۔ چھوٹی موٹی چوٹیں اسے لگتی رہتی تھیں جن پر صفیہ کبھی پریشان نہیں ہوئی تھی ایک بار جب بھڑوں نے کاکے کو کاٹ لیا تو اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ”یہ کہاں سے پھونک بھراوا لایا ہے رے۔“کاکا اپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگا، تکلیف کے مارے اس کے دانت ایسے بند تھے جیسے اسے دندل پڑ گئی ہو۔ بس ”ہوں ں ں، ہوں ں ں“ کی دھیمی آوازیں اس کے حلق سے نکلتی تھیں۔ صفیہ اپنے دل کو خوب کس کر گرہ لگا چکی تھی اسے نذر حسین کی آنکھوں میں بھی کاکا ہی نظر آتا تھا۔ ایک دن اسے پڑوسن بابا شیر شاہ کے پاس لے گئی۔ ”سنا ہے بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔ آزما کر دیکھ لو شاید کام بن جائے۔“ بابا جی نے صفیہ کی آنکھوں میں نفرت کا ابلتا سمندر دیکھ کر چوکڑی ماری: ”لڑکے کی جان چاہیے کیا؟“

”نہیں بابا جی! بس میں چاہتی ہوں میری جان چھوڑ دے، میرے بچے اور میں اس کے باپ کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ کم بخت اسے چومتا چاٹتا رہتا ہے۔“

”یعنی ہانڈی نہیں چلوانی، پیروں سے چلے نہیں کٹوانے۔ بس ہتھل کرنا ہے۔“

”جی جی جی۔۔۔ بس پڑا رہے کہیں، گم ہو جائے۔“

”ھم م م م۔۔۔ سیندور لے کر تعویز بنوا اور ڈال دے اس کے گلے میں۔ تیرے سب رستے سیدھے ہو جائیں گے۔“

صفیہ نے جہاں سو جتن کیے تھے وہاں ایک اور کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا ماسوائے کاکے کی مسلسل بڑھنے والی کھانسی کے، جو وہ رات بھر کرتا رہتا۔ نذر حسین آدھی رات کو اٹھ کر اس کی چارپائی کے پاس بیٹھ جاتا، دھیرے دھیرے اس کے سینے پر اپنی ہتھیلی ملتا۔ کبھی شہد ملا پانی پلاتا تو کبھی قہوے بنا کر دیتا لیکن آرام کسی کروٹ نہیں تھا۔ پھر ایک دن شہرسے واپسی پر نذر حسین کے جھکے ہوئے سر اور رپورٹوں کے انبار نے بتایا کہ اسے ٹی۔ بی ہے۔ صفیہ نے اس دن سے کاکے کا بستر ڈرموں، بھڑولوں اور پیٹیوں والے سٹور میں ڈال دیا تھا۔ جہاں اناج سے اٹھنے والی گرمی اسے مزید کھانسنے پر مجبور کرتی رہتی۔ وہ سارا دن گھر کو فینائل سے دھوتی رہتی، دھونی دیتے دیتے صحن دھوئیں سے بھر دیتی اور خاص طور پر اپنے دونوں لڑکوں کو اس سے دور رکھتی۔ کاکے کے کپڑے بھی نذر حسین کو دھونا پڑتے۔ ٹی۔ بی نے اس کے جسم کو کھنگر گائے بنا دیا تھا۔ ٹھسکے دار کھانسی اور بلغم سے اس کی چھاتی بھری رہتی۔ ”جو مزہ تجھے لاغر دیکھنے میں ہے وہ مارنے میں کہاں۔“ صفیہ اسے یوں دیکھتی جیسے بجلی کے ننگے تار اس نے زبان پر رکھ لیے ہوں۔ جسم میں پھیلنے والے کرنٹ کی تیزی اسے مزید نفرت انگیز بنا دیتی تھی۔ گھر کے اندر ایک چھوٹا کمرہ کال کوٹھڑی بن گئی تھی جس میں قیدی نمبر ا بند تھا۔

نذر حسین جب بھی کاکے کے پاس لیٹنے کی کوشش کرتا، دونوں لڑکے اس کی ٹانگوں سے چمٹ جاتے۔ صفیہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتی اور بوڑھا باپ کمرہ عدالت سے سر جھکائے واپس لوٹ جاتا جیسے وہ اپنی زندگی کا آخری کیس ہار گیا ہو۔ کاکا اس بار بھی بیماری سے جیت چکا تھا لیکن ٹی بی نے اس کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ پیلا زرد چہرہ اور کانپتے ہاتھوں سے اس نے کتابوں کو خیر باد کہہ کر باپ کی دکان سنبھال لی۔ نذر حسین چمڑے کو سانچے میں ڈال کر اسے کاٹتا تو وہ موٹے دھاگے سے تلوے چمڑے کے ساتھ سینے لگ جاتا۔ ”یہ دیکھ میرا پُت، بندے کا اصل بھی مٹی، یہ رُکھوں میں پلنے والے جانور بھی مٹی اور ان کی کھال سے بننے والی چم بھی مٹی۔ پھر کہاں کی بادشاہی۔ سنا تو نے، کبھی گیلی چم بن کر کاٹتے نہ پھرنا۔ سمجھ گئے نا۔“ کاکا زور زور سے سر ہلانے لگتا۔ جب نذر حسین بیمار ہو کر پلنگ سے لگا تو صفیہ نے اپنی جگہ خالی کر کے سیٹ کاکے کے حوالے کر دی۔ ”لو کر لو باپ بیٹا جی بھر کر میرے خلاف باتیں۔ میں نہیں آتی تم دونوں کے بیچ۔“ نذر حسین چارپائی پر لاچار پڑا اس کی بڑ بڑ سنتا رہتا۔ ”اس سے اچھی موت ہے کاکے، دعا کر آ جائے۔“ کاکا سسکارا بھرتے ہوئے اس کے ہاتھ چوم لیتا۔ وہ رات بھر باپ کے ماتھے پر برف کی پٹیاں رکھتا، برف کی تاثیر نے اس کے اندر بھی گرمی بھر دی تھی وہ اوپر سے کس قدر ٹھنڈا تھا جبکہ اس کے اندر گلیشئیر بنتا جا تا تھا۔ ادھر دو آنسو نذر حسین کی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے کانوں کی لوؤں کے پاس گم ہو جاتے۔ راجدھانی بدل چکی تھی، نذر حسین دنیا سے جا چکا تھا اور دونوں چھوٹے شہر کے پاتال میں گم ہو گئے۔ صفیہ کو اپنی خدمت کے لیے عورت چاہیے تھی سو کاکے کے لیے بیوی لانا پڑی۔ جب اس نے اپنے چھوٹے بھائیوں کی شادیاں کیں تو گھر کی رونقیں دیکھنے والی تھیں لیکن اس کی ڈولی میں سجی دلہن کو جنازے کی طرح قبرستان میں رکھ دیا گیا تھا۔ وہ ابھی نگینہ کو منہ دکھائی کی انگوٹھی پہنانے ہی والا تھا کہ صفیہ زور زور سے اسے پکارنے لگی۔ ”حرامزادے، کدھر مر گئے سارے۔ ہائے میری کمر ٹوٹ گئی۔“

”کیا ہوا اماں۔“

”ہونا کیا ہے، دیکھ نہیں رہا پھسل گئی ہوں، اٹھا نہیں جا رہا۔ لے پکڑ کر بٹھا مجھے یہاں۔“

کاکا ساری رات اس کی ٹانگیں دباتا رہا اور وہ دل ہی دل میں اپنی ان تمام راتوں کے بدلے چکا رہی تھی جن میں چمڑے کی بو سے زیادہ اس کے پیشاب کی بو رچی بسی تھی۔ بہت جلد نگینہ کی طبیعت کی تیزی صفیہ کی ترشی سے ٹکرا گئی۔ ”میری اماں ہے، اسے کچھ مت کہنا۔“

”سگی نہیں ہے۔“

”سوتیلی ہی سہی۔ ابا کی نشانی ہے۔ میری ماں کے بدلے آئی ہے۔“ نگینہ اس کے جواب پر منہ بنا کے سو جاتی۔

صفیہ کے شور شرابے سے گھبرا کر وہ دکان سرشام ہی بند کر کے گھر آ جاتا۔ ماں کے کمرے میں بیٹھ کر وہ جوتوں کے تلوں کو سلوشن سے جوڑتا تو کمرے میں ایک نئی بو کا اضافہ ہو جاتا۔ صفیہ حقے کی نالی منہ میں لیے گڑ گڑ کرتی رہتی۔ جوتوں کی ٹھک ٹھک ٹھک، پیلی روشنی اور دھوئیں نے مل کر ماحول کو عجیب خانقاہی بنا دیا تھا۔ ”سوکھی چم جیسا ہو گیا ہے تو۔ کالا، سوکھا سڑا ہوا۔ بدرنگ، بدمزہ، تھوووو۔“

کاکا ہنستے ہوئے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگا وہ حقیقتاً سوکھے چمڑے کی طرح تھے جو پانی لگنے کے بعد اس قدر تنگ ہو جاتے ہیں کہ پہننے والے کو کاٹتے پھرتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ بچپن سے کھڑاؤں پہنے پھرتا تھا، نیا جوتا اسے بھی کبھی راس نہیں آیا۔ وہ اب بھی صفیہ کی خدمت پر ویسے ہی مامور تھا جیسے بچپن میں وقت گزرتا رہا۔ تب دونوں چھوٹے آدھا دن سو کر گزارتے اور وہ صفیہ کے ساتھ گھر کی صفائی سے لے کر مسالہ کوٹنے تک ادھر سے ادھر نہ ہوتا۔ ”میرے بچے جاگ نہ جائیں۔ آہستہ چل مردار، کون سے سیل ہیں تیرے اندر۔“

اب وہ ایسی ہی جل کٹی نگینہ کو سنانے لگی تھی اور اس کے لیے صفیہ کا بڑھاپا مصیبت بننے لگا تھا۔ وہ آخری عمر میں حد درجہ بدتمیز اور بد لحاظ ہوتی جا رہی تھی۔ اکثر وہ کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے پھینک دیتی۔ ”مجھے زہر دینا چاہتے ہو، سنپولیو۔ ناگن عورت۔“

نگینہ کا دل چاہتا وہ فوراً ناگن بن کر اسے اس بری طرح سے ڈسے جیسے اس کے باپ کو سانپ نے کاٹا تھا۔ زہر نے اس کے جسم سے ماس ہی نہیں چاٹا بلکہ جلن کے مارے اس کی چیخیں شہر کے بڑے ہسپتال کو بھی ہلاگئی تھیں۔ ”کیا ٹکر ٹکر دیکھتی ہے، کتی، فاحشہ۔“

”بس بھئی بس۔ میرے تو اب کنٹرول میں یہ مائی نہیں رہی۔ تم ہی اپنی ماں کو روٹی دیا کرو۔“ کاکے نے پلیٹ اٹھائی اور اس کے منہ میں نوالے ڈالنے لگا۔ کچھ مہینوں سے صفیہ کی یادداشت متاثر ہونے لگی تھی، اب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر صحن میں دوڑیں لگاتی۔ کبھی نذر حسین کو آوازیں دیتی تو کبھی کاکے، کاکے کی صدائیں گونجنے لگتیں۔ کاکا دوڑتا ہوا آتا اور اسے کمرے تک لے جاتا۔ ”یہ بو کہاں سے آتی ہے۔ چمڑے کی تو نہیں لگتی۔۔۔۔ ہائے ہائے یہ تو تیرے پیشاب کی بو ہے۔ حرامی! تو ہگتا بہت ہے۔ ابھی تک ہگتا ہے کیا۔ توبہ توبہ کتنی بو ہے۔ تو مرا نہیں ابھی تک۔“ صفیہ نے اپنا لرزتا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

”وہ دیکھ تیرا باپ آیا ہے۔ کل بھی آیا تھا کہتا تھا میں اکیلا ہوں یہاں۔ میں نے کہا کہ کاکے کو بلا لو۔ مصیبت ٹلے۔“

”سن۔۔۔ تیرا باپ مر گیا ہے کیا؟“

”ہاں اماں۔“

”میں بیوہ ہوں اب۔ نہیں نہیں تم تو نذر حسین ہو۔ ہے نا۔ آ بیٹھو ادھر۔ ادھر میری گود میں۔“

کاکے نے اس کی گود میں سر رکھ دیا۔ آج اس کے حلق سے بھی خر خر خر کی آوازیں نکل رہی تھیں۔

”سنو! نذر حسین! اپنے کاکے کو بلا لو، مجھے ا س سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ یہ بھی مجھے مار ڈالے گا۔ قسم سے مار دے گا۔ میں نے تو اسے نہیں مارا۔“

”تو مجھے مار دے گا نا۔۔۔ بول، مار دے گا؟“

”نہیں اماں! میں بھی تجھے نہیں ماروں گا۔“ دو آنسو لڑھک کر اس کی ہتھیلیوں پر آ گئے، باہر صحن میں گیلے چمڑے کی بو تیز ہو چکی تھی۔