کہانی کی کہانی

یہ تحریر 2243 مرتبہ دیکھی گئی

”کہانی گھر“ عجیب نام ہے۔ کہانی تو ہمیشہ سے بے گھر چلی آرہی ہے۔ جب سے انسانوں نے اپنے خیالات اور احساسات کو زبان کی مدد سے عام کرنا سیکھا اس وقت سے کہانی دنیا میں سرگرداں رہی ہے۔ کوئی بندہ بشر، کوئی بندی ایسی نہیں جس کی آنکھوں میں، جس کے دل میں کہانی نے جھانک کر نہ دیکھا ہو۔ یہ سوچ کر جھانکا کہ کیا اپنے کبھی ختم نہ ہونے والے سفر میں کسی آدم زاد کے دل میں گھڑی دو گھڑی سستانے کا باسا مل جائے گا۔ لیکن کہانی سے لوگ ڈرتے ہی چلے آئے ہیں۔ بہت سے تو اسے پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں یا کہتے ہیں: ”بی بی، معاف کرو، بخشو۔ کوئی اور گھر دیکھو۔“وہ کہانی کے حلیے، آﺅ بھاﺅ سے سہم جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ اسے ٹھیرا لیا تو جانے ہم سے کیا کہلوادے! ہماری شہرت شرافت کی ہے۔ کہانی جو ہم سے کہلوائے گی اسے سن کر یا پڑھ کر لوگ کہیں گے: ”لو جی، ہم کیا سمجھے تھے۔ اندر سے یہ آدمی کتنا بگڑا ہوا نکلا۔ اس کی سوچ تو دیکھو۔“ کوئی سوچتا ہے: ”میری ناموری تو صحیح الدّماغی اور متانت کی وجہ سے ہے۔ کہانی دنیا کی نظر میں مجھے دیوانہ اور سماج دشمن اور پھکّڑ باز بنادے گی۔ اس سے چار کھیت پرے ہی رہنا چاہیے۔“ کہانی سے اشرافیہ ڈرتی ہے، امراءگھبراتے ہیں، مذہب کے نام پر کمائیاں کرنے والوں کو ہول اُٹھتے ہیں۔ اور تو اور حکومتیں خوف زدہ رہتی ہیں۔ اگر معاشرے کے قائدین اور صالحین کا بس چلے تو کہانی کو پکڑ کر ہمیشہ کے واسطے کسی زمیں دوز زندان میں زنجیری کردیں۔ مگر کہانی تو روشنی ہے، ہوا ہے۔ روشنی اور ہوا کو کس نے قید کیا ہے۔ ان کی طرف سے منھ موڑ لیا جائے تو زندگی حبسِ مسلسل میں کٹے، اندھیروں میں گزرے!

شاید آج سے تیس چالیس ہزار سال پہلے لوگوں نے کہانی کی میزبانی کا آغاز کیا۔ جب سے اُن پر اسے بنانے سنوارنے کی دُھن سوار رہی ہے۔ جیسے وہ کوئی دلھن بننے والی ہو اور بارہ ابھرن سولہ سنگھار اسی کو ساجے گا۔ پہلے پہل اسے پوستین پہنائی گئی۔ پھر جوں جوں آرائش کے فنون نے نئے سے نئے روپ دھارے اس کی پوشاکیں اور خلعتیں بھی بدلتی گئیں۔ ان سجاوٹوں کے سبب بارہا ایسا ہوا کہ سننے اور دیکھنے والوں کی توجّہ ظاہر کی بھڑک تڑپ میں اُلجھ کر رہ گئی، کہانی کے باطن تک نہ پہنچی۔ اس البیلے سجاﺅ بناﺅ پر کہانی جی ہی جی میں کھلکھلاتی رہی۔ حق یہ ہے کہ کہانی کو اصل میں مزہ اس وقت آتا ہے جب وہ الف ننگی ہوکر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اس کے بدن کی چکناہٹ اور تناﺅ اور چُھپواں بھید بھاﺅ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔ صالح صحبتوں میں اُٹھنے بیٹھے والے، حجابوں کے مارے ہوے، آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر شور مچاتے ہیں: ”اس پر پردہ ڈالو، اسے چھپاﺅ، پابند کرو۔“ مگر کہانی تو نابند ہونے کی قایل ہے، نا بندیوں کی جُویا ہے۔ چٹک مٹک دِکھاتی، کترواں چال چلتی، دیکھنے والوں کے گرد تاوے کاٹتی رہتی ہے۔ کہانی کا یہی جامہ، جس کا الٹا ہے نہ سیدھا، سب سے نیارا ہے، سب سے پیارا ہے۔ وہی، جو اس صاف کھلے حسن کی تاب لاسکے گا، کہانی کو گھر لے آئے گا، دل میں بسائے گا۔

ایک جلیل القدر پیغمبرؑ تھے۔ ان کا معمول تھا کہ شام کو باہر نکل جاتے اور جو مسافر یا پردیسی ملتا اسے گھر لے آتے اور دسترخوان بچھاتے۔ اکیلے کبھی نہ کھاتے۔ یہ تو پیغمبرانہ شان ہے۔ ہم اسے کیا سمجھیں بوجھیں، کب اس کے رمز تک پہنچیں۔ پھر بھی دل میں آتا ہے کہ شام کے اندھیرے میں گھر سے نکلیں تو جاتے جاتے کہیں کوئی کہانی مل جائے۔ سچ مچ اپنی کہانی، جانی کہانی۔

شام کا اندھیرا شہر پر جھکتا ہے۔ گرمی سے تونسے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ سڑکیں سنسان پڑی ہیں۔ میں اپنی دُھن میں چلا جارہا ہوں۔ اچانک سامنے سے کہانی آتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی چال ایسی ہے جیسے ہوا نرم نرم بہتی ہو۔ اس کا آدھا کھلا، آدھا ڈھکا پنڈا مٹیالا ہے، جیسے کوئی دھرتی جو اَت اُپجاﺅ ہو۔ اور پاس آئی تو آنکھیں ایسی جیسے اُن میں کسی چُھپی لَو کا عکس پڑ رہا ہو۔ اس نے آکر میرا ہاتھ تھام لیا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ایسی میٹھی آواز میں، جس میں بہتے پانی کی مر مر تھی، بولی: ”آﺅ چلیں۔“

(”کہانی گھر“۳/۴کے شکریے کے ساتھ۔۲۰۱۲ء)