کہانی پھولوں اور شہیدوں کی( خون کے دھبے جو برساتوں سے نہیں دھلتے)

یہ تحریر 2169 مرتبہ دیکھی گئی

جب سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوا ہے جدال و قتال کا ٹنٹا ختم ہونے میں نہیں آتا۔ مہذب دینوی اور علمی شعبوں میں افراد کے کارنامے قابلِ ذکر ضرور ہیں۔ لیکن تاریخی ادوار کو جس بات نے باہم دِگر پر رکھا ہے وہ جنگ و جدال اور غارت گری ہے۔ یہ خیال بہرحال غلط ہے کہ مار دھاڑ انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ اگر اسے لازمہ تسلیم کر لیا جائے تو سب سے زیادہ خوں ریز اوائلی انسانوں کو ہونا چاہیے تھا۔ انسانیات کے ماہر کہتے ہیں کہ اس کا الٹ درست ہے۔ ہم جتنے زیادہ مہذب ہونے کے دعوے کرتے ہیں اسی تناسب سے بڑھ چڑھ کر جنگجو ہوتے جا تے ہیں۔


عام طور پر جنگیں دشمنوں سے لڑی جاتی ہیں تاکہ توسیع پسندی کے جذبے کو تسکین بخشی جائے، دولت لوٹنے کو ملے، عورتیں ہاتھ آئیں، مردوں اورلڑکوں کو غلام بنانے میں کامیابی ہو۔ یہ سب کچھ قتل و غارت، تشدد اور ظلم کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن جنگ کی خوف ناک ترین صورت خانہ جنگی ہے جس میں مدت سے نسبتاً بھائی چارے کے ساتھ رہنے والے ہمسائے، جو ایک زبان بولتے ہوں یا ایک ہی مذہب کے پیروکار ہوں یکایک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نفرت، ظلم اور تشدد کے جتنے مظاہرے خانہ جنگی کے دوران ملتے ہیں کہیں اور نظر نہیں آتے۔ ایک دوسرے سے بہت قریب یا بخوبی واقف ہونا نفرتوں کو کم نہیں کر سکتا۔ اس سچائی کو سمجھنے کے لیے کسی بھی کنبے میں دبی یا ک±ھلی مخاصمتوں پر نظر ڈالنا کافی ہوگا۔
عقیلہ اسمٰعیل نے اپنے ناول میں ایک ایسے خاندان کو درپیش مصائب کا ذکر کیا ہے جن سے اس کے افراد 1972ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد دوچار ہوے۔ یہ خاندان بنگالی نہ تھا بلکہ ماں باپ پونا اور پٹنہ سے آکر نئے بنے پاکستان میں آباد ہوے تھے۔ خاندان کے افراد کا اٹھنا بیٹھنا بنگالیوں کے ساتھ تھا۔ وہ بنگالی بول سکتے تھے۔ بنگالیوں کی امنگوں اور آرزوو¿ں کی حمایت کرتے تھے اور دل سے سمجھتے تھے کہ مغربی پاکستانی بنگالیوں سے اچھا سلوک روا نہیں رکھتے اور مشرقی پاکستان کو ایک طرح کی نو آبادی تصور کرتے ہیں۔


1971ئ تک تو ثوری، ناول کا مرکزی کردار، اس کے دونوں بھائی اور ماں باپ یہی سمجھتے رہے کہ وہ پوری طرح بنگالیوں کے ہم درد ہیں اور مشرقی بنگال ہی ان کا وطن ہے۔ یہ خوش فہمی 1971ئ کی ابتلا میں چند دن بھی قائم نہ رہ سکی۔ بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ اس کے بعد پاکستانی فوج کے تعاون سے غیر بنگالیوں نے بنگالیوں کا خون بہایا۔ دسمبر 1971ئ میں جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دِیے تو ثوری اور اس کے گھر والوں کو پتا چلا کہ نہ ان کا کوئی گھر بار ہے نہ وطن نہ صحیح معنوں میں کوئی پرسانِ حال۔ کسی کو پروا نہیں کہ وہ بنگالیوں کے ہم نوا رہ چکے ہیں۔ وہ غیر بنگالی ہیں، انھیں انسان سے کم تر سمجھا جاتا ہے اور نوزائیدہ ملک میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔


فروری1972ئ میں ثوری کے باپ اور بھائیوں کو بنگلہ دیشی فوجی پکڑ کر لے گئے۔ ثوری اور اس کی چھوٹی بہن اور ماں کو ڈھاکے سے د±ور ایک کیمپ میں لے جایا گیا جہاں ان جیسی سینکڑوں عورتیں اور لڑکیاں موجود تھیں۔ اس کیمپ میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا اور کھانے پینے کو جو ملتا تھا وہ قطعی طور پر خراب اور ناکافی تھا۔


اس قید و بند سے ثوری اور اس کی ماں اور بہن کو ایک بنگالی ہم جماعت، رومی، کی مدد سے نجات ملی۔ رومی کو ثوری سے محبت تھی اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔اپنے ایک بنگلہ دیشی فوجی دوست کی اعانت سے وہ انھیں کیمپ سے نکال کر ڈھاکا لے گیا۔ وہاں وہ اپنی شناخت پر پردہ ڈالے رکھنے پر مجبور تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ باپ اوردونوں بھائی کسی طرح مل جائیں تو وہ سب پاکستان کی راہ لیں۔ باپ کا سراغ مل گیا جو قید تھا اور تقریباً پاگل ہو چکا تھا۔آخر میں اسے رہا کر دیا گیا۔ دونوں بھائیوں کا پتا نہ چلا اور ثوری کی سمجھ میں آگیا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔ بنگلہ دیشی فوجیوں نے انھیں مار ڈالا ہے۔ ماں اس صدمے کی تاب نہ لا سکی اور فوت ہوگئی۔ ثوری اور اس کا باپ اور بہن پاکستان چلے آئے۔ وہ سوچتی ہے کہ بٹوارے کے وقت کسی نے کسی سے اس کی مادری زبان نہیں پوچھی تھی۔ سنہرے دیس میں اس کی ماں اور دو بھائی دفن ہیں جنھیں ان کی مادری زبان کی وجہ سے مار دیا گیا۔ وہ سوچتی ہے کہ شاید رومی اس سے آملے۔ شاید وہ اس سے اب بھی محبت کرتا ہو۔ لیکن آخر میں یہ جملہ تمام خوش فہمیوں کا قلع قمع کر دیتا ہے: ”رومی، میرے رومی، تاریخ کے چکر میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔


مشرقی بنگال کے زمینی حسن کے بار بار ذکر نے ان تمام واقعات کے بھیانک پن کو مزید اجاگر کر دیا ہے جن سے ناول بھرا پڑا ہے۔ بیانیہ سربسر حقیقت پسندانہ ہے اور جو حقیقت اس آئینے میں نظر آتی ہے وہ ہمیں شرمندہ بھی کرتی ہے، بے چارگی کا احساس بھی دلاتی ہے اور سوال بھی اٹھاتی ہے۔ کیا ہماری فکر اور عمل میں کوئی بنیادی خامی تھی کہ پچیس سال بھی ساتھ نہ رہ سکے؟ مادری زبان کے مسئلے کی تو آڑ لی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ معاشی ہوتا ہے اور مواقع کی کمی کا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو خدشہ تھا کہ وہ ملازمتوں، عہدوں، کاروبار اور سماجی طور پر آگے بڑھنے کے تمام دوسرے مواقع میں ہندوو¿ں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ متحدہ پاکستان میں بنگالی بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ آزاد ہوے بغیر ان کے ہاتھ بہت کم آئے گا۔


اصل المیہ ثوری اور اس کے خاندان جیسے خاندانوں کا ہے جنھیں استحصال کا ذمے دار تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اجڑتے رہنا جن کا مقدر ہے۔ آج بھی لاکھوں بہاری بنگلہ دیشی کیمپوں میں پڑے ہیں۔ انھیں پاکستان لانے سے انکار کرتے ہوے عذر تراشا گیا کہ اس طرح ملک کی ڈیمو گرافی بگڑ جائے گی۔ جب چالیس لاکھ افغانی ملک میں آ گئے تو کوئی کچھ نہ بولا۔ لیکن انصاف دشمن اور کاذب قوموں کو قدرت سزا ضرور دیتی ہے۔

یہ ناول انگریزی میں لکھا گیاہے۔ اجمل کمال نے اسے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اسے پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری مختصر تاریخ کے ایک ایسے شرم ناک باب کی جھلکیاں دکھاتا ہے جسے ہم فراموش کرنا چاہتے ہیں یا کر چکے ہیں۔
کہانی پھولوں اور شہیدوں کی از عقیلہ اسمٰعیل
ناشر: آج کی کتابیں، کراچی۔ ص321؛پانچ سو روپے