کہانی در کہانی

یہ تحریر 525 مرتبہ دیکھی گئی

ڈاکٹر مظفر عباس صاحب آج کل چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے بیٹے کے پاس امریکہ میں مقیم ہیں ۔پچھلے سال کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے انہوں نے اس سال بھی اوراق سبز کے قارئین کو شامل حال رکھنے کے لیے ایک تحریر سلسے کہانی در کہانی کا اہتمام کیا ہے ۔اس سلسلے کی پہلی تحریر حاضر خدمت ہے ۔ان شااللہ وقفے وقفے سے وہ اپنی فرصتوں کا حاصل ہم تک پہنچاتے رہیں گے اور ہماری خوشی میں اضافہ کرتے رہیں گے ۔مدیر

ہم جوچھپاتے ہیں وہ ہوتے ہیں،جو بتاتے ہیں وہ نہیں ہوتے-میری یہ کہانی شروع ہی ہونے سے ہوتی ہے، یعنی جو ہوں اور جو ہوا تھا وہی سب بتاؤں گا، تو جس طرح پرانے داستان گو کہانی کو شروع کرتے تھے ویسے ہی کہانی شروع کرتے ہیں کہ ایک تھابادشاہ، ہمارا تمہاراخدابادشاہ-ہماری کہانی شروع ہی ساتویں در سے ہوتی ہے جو پیچھے کی طرف پہلے در تک جائے گی یعنی ترقئ معکوس کی صورت ہو گی- اب چلتے ہیں پہلی کہانی کی طرف-

پہلی کہانی :

ساتواں در‫ اور پھول:: ساتواں در استعارہ ہے استجاب اور تجسس کا-پہلے ناصر کاُظمی کی یہ غزل دیکھئیے؀ ‬
‫ ‬اہلِ دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اک دبستانِ ہنر کھولیں گے
وہیں رک جائیں گے تاروں کے قدم
ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے
بحر ایجاز خطرناک سہی
ہم ہی اب اس کے بھنور کھولیں گے
کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور
برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے
آج کی رات نہ سونا یارو
آج تو ساتواں در کھولیں گے
(ناصر کاظمی)
‫ساتواں درساتویں آسمان کے لئے بھی بولا جاتا ہے-کہاجاتا ہے کہ عرش معلیٰ تک دعائیں پہنچانے کے لئےرات بھر جاگنا ضروری ہے کہ یہیں سے قبولیت دعا کی منزلوں کا آغاز ہوتا ہے-‬
‫قدیم داستانوں میں بھی ساتواں در کھلنے کا حوالہ ملتا ہے-یہاں ناز ونعم میں پلے ہوئے شہزادے کوبادشاہ اورملکہ پہلے تواپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونےدیتےمبادا کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے مگر جب شہزادہ بہت ضد کرتا ہے تو پھر وہ اسے یہ تاکیدکرتے ہیں کہ وہ پہلے چھ دروازوں سے داخل ہو کر جہاں جو چاہے کرے،مگر ساتویں دروازے میں داخلے کا سوچے بھی نہیں کیونکہ اس دروازےکے پیچھےاسے ہر قدم پرنت نئی مصیبتوں اور بلاؤں سے پالا پڑے گاچڑیلیں حسین شہزادیوں کی شکل میں ملیں گی اور جنات اور دیو الللہ کے عبادت گزار بندوں کی شکل میں-یہاں پھل زہریلے، دریاکا پانی سحر زدہ ہوگا-یہ پانی پی کرانسان پتھر کا بن جاتا ہے-

اب ذرااپنے اردگرد نظر ڈالئےآپ کو اپنے چاروں طرف جو گوشت پوست کے انسان نظر آتے ہیں کیا وہ انسان ہیں؟مجھے تو تو لگتا ہے کہ زہریلا پانی پی پی کر یہ سب پتھر کے ہوگئے ہیں جن مروت،اخلاص اور احساس نام کی کوئی چیزنہیں اور جو ہمہ وقت ایک دوسرے دوسرے کو نیچا دکھاتے ہیں اور کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں-گویا ساتویں در کی تمام آلائشوں کے ساتھ وہ یہاں پہنچےہیں مگر گھبرائیے نہیں ان سے بچنےکاایک راستہ ہمیں میر انیس نے اپنی اس رباعی میں بتایاہے؀

‬نافہم سےکب داد سخن لیتا ہوں

دشمن ہو کہ دوست سب کی سن لیتا ہوں

چھپتی نہیں بوئےِ دوستان یک رنگ

کانٹوں کو ہٹا کے پھول چُن لیتا ہوں

چنانچہ اب یہ ہمارا اپنا کام ہے کہ پتھروں سےبھرےاور کانٹوں سے اٹےاس دیس میں کیسے بچ بچا کر زندگی گزاریں اور کانٹوں کو ہٹا ہٹا کر پھول چنتے رہیں!

آج ایسے ہی ایک چنے ہوئےپھول کی کہانی سنیئے-ہوا یوں کہ اوائل سن پچپن چھپن کا زمانہ تھا، لاہور کی ایک مضافاتی آبادی میں دو محلے دار دوست ایک پرائمری سکول کی پہلی جماعت میں ایک ہی دن میں داخل ہوئےاتفاق دیکھئے اُن کوایک استانی جی نے ساتھ ساتھ ایک ہی بنچ پر بٹھا دیا-وہ ملےاوربس دوست بن گئے-سکول کی ابتدائی جماعتوں سے فارغ ہوئے تو یوں بچھڑے کہ شاید کبھی خوابوں میں ملیں مگر دنیا گول ہے گھما پھرا کر کم و بیش ستر سال بعد دونوں کو ایک دائرے میں پھر لے آئی-دونوں تر آنکھوں کے ساتھ گلے ملےاُن میں سےایک زیادہ رقیق القلب تھا آنسوؤں کے دریااُس کی آنکھوں سے یوں جاری ہوئے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے بچپن کےان دوستوں میں سےایک تو یہی خاکسار ہے اور دوسرا موجودہ دور کامعروف دانشور، کہانی نویس، ہدایتکار اورفلم سازمحمدپرویزکلیم-


ہم دونوں ایک انگلش میڈیم ہیپی کنڈگارٹن سکول کے طالب علم ہیں جو آج کل گورنمنٹ ہیپی ہائی سکول کے نام سےراج گڑھ میں واقع ہے یہ چھوٹا سا صاف ستھرا سکول تھا ہماری استانیاں بہت شفیق اور لائق تھیں،ان میں سےاب بس دو کےنام یاد ہیں ایک ہیڈمسٹرس مسز زبیدہ دوسری کلاس ٹیچر مس بدر کا کاجو ساندہ کلاں کی جامع مسجد کے پیش نمازمولانارمضان کی صاحبزادی تھیں- ہاں ایک اور ٹیچر کا نام یاد آیا مس کوثرجوسپورٹس کرواتی تھیں پرویز اور میں شروع میں ہی اساتذہ کے چہیتےبن گئے کیونکہ دونوں بظاہر بہت مودب تھےپرویز شرارتی ضرور تھا مگرتہذیب کے دائرےمیں رہ کر یہاں ہم تین چار سال اکٹھے رہے پھر اپنے اپنے راستے پر چل پڑے اور زندگی کے دھندلکوں میں یوں گم ہوئے کہ ؀۔

منزل عشق میں نہ تھی ایک کو ایک کی خبر-
پرویز کلیم بنیادی طور پر ایک ادیب ہے-ادب اس کی

گھٹی میں پڑاہے کہ اس کے والد کا تعلق شعروادب سے تھا-پرویزکلیم کا افسانوی مجموعہ “رنگ”اُس کی ادبی بلندقامتی کاجیتا جاگتا ثبوت ہے-پرویزمخلص،خاکسار،سچاکھرا انسان ہےدل کا غنی،ہاتھ کا کھلا منافقت سے کوسوں دور،منہ پھٹ ایسا کہ کسی کا لحاظ نہیں کرتااوراپنانقصان کرا بیٹھتا ہےبظاہرشو بز کی رنگینیوں میں کھو جانے والا یہ شخص اندرسے دیندار ہےرسول الللہ(ص)اور اُن کے اہل بیت(ع) کا پکاعاشق-
پرویزکلیم کم وبیش دوسو کامیاب فلموں کاخالق ہے جن میں “گناہ“، ننگے پاؤں“ اور ”بت شکن“ جیسی شاہکار فلمیں شامل ہیں-پرویز کے لئے اس دعا کے ساتھ کہانی کو ختم کرتے ۔

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰