کچھ سرسید کے بارے میں

یہ تحریر 3348 مرتبہ دیکھی گئی

ایک لحاظ سے میر، سودا، مصحفی وغیرہ بدقسمت تھے۔ ان کی زندگیاں پُرآشوب زمانے میں گزریں۔ کتابوں اور دستاویزوں کو سنبھال کر رکھنا مشکل تھا۔ ڈاک بھیجنے اور وصول کرنے کا کوئی نظام نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو وہ ضرور خط لکھا کرتے اور ان میں سے سب نہیں تو بہت سے محفوظ رہ جاتے۔

زمانہ تو غالب کا بھی کچھ کم ہنگامہ خیز نہیں تھا۔ لیکن ان کے عمر کے آخری تین عشروں میں ڈاک کا نظام قائم ہو گیا تھا۔ انھوں نے بہت سے خط لکھے اور یہ خطوط خاصی تعداد میں محفوظ رہ گئے۔ ان خطوں کی مدد سے غالب کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی معلوم ہوئیں کہ بصورت دیگر کبھی ہمارے علم میں نہ آسکتیں۔

سرسید اور بھی زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے۔ ان کی زندگی کے آخری چالیس سال نسبتاً امن و امان میں گزرے۔ اختلافات، تنقید، طنز اپنی جگہ، ان سے تو کبھی بڑے سے بڑے آدمی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جو راہ سرسید نے اپنے لیے چنی، اس میں کوئی بھاری رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔ اپنی مرضی سے جو جی چاہے کرنے کی آزادی نصیب تو نہ تھی۔ پھر بھی، بعض حدوں کے اندر رہ کر، بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔

اس بنا پر ہمیں سرسید کی زندگی کے بارے میں غالب کی زندگی سے زیادہ معلوم ہے۔ ایک زمانے تک الطاف حسین حالی کی کتاب ”حیاتِ جاوید“ مستند سمجھی جاتی تھی لیکن تازہ ترین تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ حالی نے سرسید کی سوانح قلم بند کرتے ہوئے اتنی محنت اور توجہ کا ثبوت نہیں دیا جس کی ان سے توقع تھی بلکہ یہ بھی کہنا چاہیے کہ بہت سی باتیں جو وہ آسانی سے معلوم کر سکتے تھے اب ہم ان سے کسی طرح واقف نہیں ہو سکتے۔

میرے سامنے شافع قدوائی کی کتاب ”سوانح سرسید…. ایک بازدید“ ہے جسے مجلسِ ترقی ’ادب‘ لاہور نے شائع کیا ہے۔ شافع قدوائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ میں استاد ہیں۔ ان کی کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید کی زندگی کے بعض گوشے ابھی مزید توجہ کے محتاج ہیں۔

نئی بات جو پتا چلی وہ یہ کہ حالی سے پہلے منشی سراج الدین سرسید کے سوانح لکھ چکے تھے۔ یہ کام انھوں نے سرسید کے مخلص رفیق کار، حاجی محمد اسمٰعیل خاں، رئیس دتاولی، کی فرمائش پر انجام دیا تھا اور بظاہر اس کام کو سرسید کی تائید بھی حاصل تھی۔ کتاب کا مسودہ تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل تھا اور 1883ءتک مکمل ہو چکا تھا۔

بعض وجوہ کی بنا پر بالآخر سرسید نے اس کی اشاعت مناسب نہ سمجھی۔ 23 ستمبر 1893ءمیں سرسید نے ایک خط میں لکھا، ”مولوی سراج الدین نے جو کچھ لکھا وہ چھاپا ہونے کے قابل نہ تھا۔ بعض واقعات اس میں صحیح نہ تھے اور طرزِ بیان درست نہ تھا۔ لائف ایک مدح نامہ نہیں ہوتی بلکہ ایسی ہونی چاہیے کہ اس شخص کی بھلائی برائی سب کا نمونہ ہو۔“

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سراج الدین کی کتاب میں توازن کی کمی تھی۔ تاہم یہ مسئلہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ حالی نے اس مسودے سے کتنا استفادہ کیا۔ یہ معما اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے کہ سراج الدین کا مسودہ ہمارے سامنے ہو۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ مسودہ گیا کہاں۔ کیا وہ اتفاق سے کہیں محفوظ ہے؟ جیسا کہ شافع قدوائی نے لکھا ہے، یہ پہلو تشنہ تحقیق ہے۔

حالی لکھتے ہیں کہ سوانح قلم بند کرنے کے خیال سے ”میں نے یہ بھی چاہا کہ برس چھ مہینے خود علی گڑھ میں جا کر رہوں مگر ملازمت کے تعلق کی وجہ سے یہ موقع بھی نہ مل سکا۔ بعض صاحبوں کی یہ رائے ہوئی کہ سرسید کی زندگی میں ان کی لائف لکھنی مناسب نہیں۔ اس کی جو وجوہات انھوں نے اس وقت بیان کیں وہ مجھے بھی معقول معلوم ہوئیں۔“ یہ مشورہ جنھوں نے بھی دیا نہایت غلط تھا۔ بے شک یہ سوانح سرسید کی زندگی میں شائع نہ کی جاتی لیکن جو معلومات اس وقت بالمشافہ حاصل کی جا سکتی تھیں، ان کا علم بعد میں کیسے ہوتا؟ حیرت ہے کہ اتنی سیدھی سی بات بھی حالی کی سمجھ میں نہ آسکی۔ ایک پہلو اور بھی ہے۔ شاید حالی کو پتا ہو کہ سراج الدین کی تحریر کو سرسید نے پسند نہیں کیا تھا۔ سوچا ہو کہ سوانح تب شائع کی جائے جب سرسید کو معترض ہونے کا موقع ہی نہ مل سکے۔

صاف بات ہے کہ محض حالی کی کتاب پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ سرسید کی ایک نئی اور مبسوط سوانح کی اشد ضرورت ہے۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر فرض ہے۔ لیکن، خدا کے لیے، اس غرض سے کوئی کمیٹی تشکیل نہ دی جائے۔

بقول شافع قدوائی ”حالی کے تسامحات پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے سرسید کے اجداد کے ورود ہندوستان کے سنہ، سرسید کے والد کے نام، ان کے انتقال کی تاریخ اور پھر ان کی بڑی بہن کے نام اور انتقال کے سلسلے میں صحت کا لحاظ نہیں رکھا۔“ حالی نے بڑی بہن کا نام صفیة النسا اور سال انتقال 1892ءلکھا ہے حالاں کہ ان کا نام عجبة النسا تھا اور انتقال 1894ءمیں ہوا تھا۔ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ حالی کو تحقیق سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔

سرسید کی اولاد کا تفصیلی ذکر تو درکار نہیں لیکن تھوڑا بہت حال تو لکھنا چاہیے۔ سرسید کی بیٹی امینہ کا کم سنی میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بارے میں اب کیا لکھا جائے؛ بڑے بیٹے، سید حامد کو تعلیم سے شغف نہ تھا۔ وہ مختلف اضلاع میں سپرنٹنڈنٹ پولیس رہے۔ پروفیسر افتخار عالم خاں نے ”سرسید درون خانہ“ میں لکھا ہے کہ ”حامد اپنے چھوٹے بھائی، سید محمود، کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار رہے۔ نوکری سے معطل کیے گئے۔ شراب نوشی ان کی عادت بن چکی تھی۔“ لیکن ”علی گڑھ انسی ٹیوٹ گزٹ“ میں درج ہے کہ انہوں نے استعفیٰ دیا تھا۔ اصل معاملے کا پتا نہیں چلتا۔ ہو سکتا ہے ان سے کہا گیا ہو کہ استعفیٰ دے کر باعزت طریقے سے ریٹائر ہو جاؤ۔ بصورتِ دیگر، معطل کیا جائے گا اور وہ وجوہ بھی سامنے آجائیں گی جن کے پیشِ نظر معطلی کے احکام جاری ہو سکتے تھے۔ اسی گزٹ میں معروف اردو ادیب، منشی ذکا اللہ، نے جو تعزیتی نوٹ سید حامد کی وفات پر لکھا تھا وہ خاصا ہم دردانہ اور توصیفی ہے۔ اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اس وقت دستور تھا، اور بڑی حد تک آج بھی ہے کہ متوفی کی خوبیوں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن اس کے معائب پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ سید حامد کی ازدواجی زندگی اور ان کی اولاد کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔

سید محمود صحیح معنی میں لائق تھے۔ انھیں 1882ءمیں شمالی مغربی صوبے (موجودہ اترپردیش) کے ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ وہ جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے والے پہلے مسلمان اور تیسرے ہندوستانی تھے۔ کچھ عرصے بعد ان کی چیف جسٹس سے ان بن ہو گئی اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی انگریزی دانی کا چرچا تھا۔ کیا اچھا ہو اگر ان کے بعض فیصلوں اور استعفیٰ کے خط کو شائع کر دیا جائے۔ سید محمود کی ازدواجی زندگی کا ذکر بھی نہیں ملتا۔

ایسا نظر آتا ہے کہ سرسید اصولی طور پر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہ تھے۔ زیادہ توجہ، بہرحال مردوں کی تعلیم پر تھی۔ اس کی وجہ بھی عیاں ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے فارسی یا اردو کی اہمیت نہ رہی تھی۔ انگریزی کا چلن تھا۔ اگر مسلمان نئے انداز کی تعلیم سے بدظن رہتے تو اس کا نتیجہ لامحالہ یہ نکلتا کہ تقریباً ان تمام سرکاری عہدوں پر، جو اہل ہند کے لیے مخصوص تھے، ہندو فائز ہو جاتے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کا جو حشر ہوتا اس کے لیے تخیل پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔ عورتوں کا خواندہ ہونا اچھی بات تھی لیکن یہ کہ وہ ملازمت بھی کریں گی، اس بارے میں انیسویں صدی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا بلکہ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں بھی اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ صرف متوسط طبقے کے تحفظات تھے۔ طبقہ امرا کی عورتوں کو ملازمت کی چنداں ضرورت نہ تھی اور غریب عورتیں تو ہمیشہ سے نوکری کرتی آرہی تھیں۔

سرسید پہلے پہل مادری زبان کو (جس سے مراد غیر منطقی طور پر اردو تھی) ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگر مادری زبان میں تمام علوم و فنون کی تعلیم دی جائے تو اس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بعدازاں ان کا نقطہ نظر بدل گیا اور کہنے لگے کہ ترقی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ اس تبدیلی کو شافع قدوائی نے انگریزوں سے مرعوبیت اور نوآبادیاتی فکر کی ترجمانی قرار دیا ہے۔

غالباً سرسید کی رائے میں تبدیلی کی ایک خاص وجہ تھی۔ انھیں نظر آ گیا ہو گا کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے میں اتنی اہلیت نہیں یا وہ اتنے کام چور ہیں (اور آج بھی ہیں) کہ مغربی علوم، بالخصوص سائنسی علوم کو اردو میں منتقل ہی نہیں کر سکیں گے۔ اس ضمن میں جاپان کی مثال دینی بیکار ہے۔ جاپان میں شہنشاہ نے 1864ءمیں فیصلہ کیا کہ مغربی علوم سے شناسائی حاصل کی جائے۔ جاپان آزاد اور خودمختار ملک تھا۔ شہنشاہ کی حیثیت خدا کے برابر تھی۔ جاپان کے لیے ممکن تھا کہ وہ ہزار ہا طالب علموں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان، جرمنی، فرانس اور امریکا بھیج سکے۔ سرسید یہ کہاں کر پاتے۔ انھیں تو کالج کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی چندہ جمع کرنے کے لیے بڑا تردد کرنا پڑتا تھا۔ ہاں، اگر جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد کی بنیاد 1920ءکے بجائے 1870ءمیں پڑ جاتی تو بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی تھی۔ افسوس سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ریاست حیدر آباد کی تعلیمی پالیسی پاکستان کی تعلیمی پالیسی سے کہیں بہتر تھی۔

ایک قضیہ اور ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سرسید کی تجہیز و تکفین احباب کے چندے سے ہوئی۔ محسن الملک کا بیان ہے کہ سرسید کے وارثوں نے ان کی تدفین کا انتظام نہیں کیا تھا۔ محسن الملک نے اس غرض سے پچاس روپیے دیے، تب کہیں تدفین ممکن ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ 1898ءمیں تجہیز و تکفین کے لیے اتنی بڑی رقم کس لیے درکار تھی؟ سیدھا سا حساب کر لیجیے۔ گورکن کو چار آنے دیے گئے ہوں گے۔ چار آنوں کو حقیر نہ سمجھیے۔ 1898ءمیں چار آنے میں سیر بھر چھوٹا گوشت آ جاتا تھا جو آج کل ہزار روپیے کلو ہے۔ چار آنے غسال کو ملے ہوں گے۔ روپیے ڈیڑھ روپیے میں کفن آ گیا ہو گا۔ باقی اخراجات کو ملا کر چار پانچ روپیے سے زیادہ درکار نہ ہونے چاہئیں تھے۔ پچاس روپیوں کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ بالفرض اگر یہ معمولی خرچ محسن الملک نے برداشت کیا تھا تو اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاید سید محمود سے ذاتی سطح پر کوئی پرخاش ہو۔

فی زمانہ سرسید کے خیالات اور افعال و اقوال پر نکتہ چینی کرنے والوں کی کمی نہیں۔ سوا سو سال گزر جانے کے بعد کسی کی غلطیاں گنانا بہت سہل ہے۔ یہی نکتہ چیں اگر انیسویںصدی کے نصف آخر میں ہوتے تو ان کی بصیرت کا پتا چلتا۔ حالت یہ ہے کہ آزاد ہوئے سترسال ہو چکے لیکن معاشی، سیاسی، تعلیمی اور اخلاقی طور پر آج بھی غلاموں کی طرح جی رہے ہیں۔ انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ کوئی کل سیدھی نہیں۔

٭٭٭