چوں کُفر از کعبہ بر خیزد

یہ تحریر 3461 مرتبہ دیکھی گئی

(مشاہیرِ علم و اَدب کے سرقوں کا محاسبہ)

              انسانی ذہن اپنی خداداد اور بے پناہ صلاحیّتوں سے کام لے کر علم و اَدب اور زندگی کے دیگر شعبوں میں عظیم کارنامے انجام دیتا آ رہا ہے۔ کچھ حیوانِ ناطق اپنی کج خلقی کی بنا پر اسی ذہن سے ایسے منفی کمالات دکھاتے ہیں جو خود اُن کی رُسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ اَدب میں اس کا چلن کافی رہا ہے۔ اتنا کہ اس کے لیے الگ اَدبی اِصطلاح “سرقہ” گھڑنی پڑی۔ سرقہ بازی کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے پس منظر میں سرقہ باز کا اپنی صلاحیّتوں پر عدم اعتماد، مزاج سے غیر مناسبت رکھنے والے موضوعات پر مشقِ ستم ڈھانے کی بے پناہ خواہش اورکم علم و پست ذہن قارئین کو متاثر کرنے کا ارادہ موجود ہوتا ہے۔ سرقہ باز ایک کی ایک واضح شناخت یہ  ہے کہ اُس کی تحریر میں سچ کی سی وضاحت اور دوٹوک پن نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ گول مول باتیں کرتا ہے جس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ اصل میں کہنا کیا چاہتا ہے۔ اس طریقے کو مہارت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے سرقہ باز قاری کو شش و پنج میں مُبتلا کر دیتا ہے کہ وہ کسی واضح نتیجے پر پہنچے بغیر اپنی ناقص فہم کی وجہ سے وہی سمجھتا ہے جو اُسے سرقہ باز باور کرانا چاہتا ہے، جو ظاہر ہے کہ حقیقت نہیں ہوتا۔   

اَدب میں سرقے بازی پر متعدّد تحریریں موجود ہیں۔ ان میں سے بیش تر منتشر ہیں ، یک جا نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اُن تحریروں سے کماحقّہٗ فائدہ اُٹھانا بہت مشکل تھا۔ پیشِ نظر کتاب میں ایسی اہم تحریریں جمع کر کے اس کتاب کے مرتّبین نے یہ مشل کافی حد تک کم کر دی ہے۔ یہ کتاب اصل میں ممبئی (بھارت) سے شائع ہونے والے اُردو کے ایک اَدبی جریدے “اثبات” کی اشاعتِ خاص کا کتابی رُوپ ہے، چناں چہ کتاب کے ناشر نے سرِ ورق پر سب سے اوپر “اثبات کا سرقہ نمبر – مدیر: اشعر نجمی” لکھ کر اس اَمر کی وضاحت کر دی ہے۔

کتاب کے مرتّب اشعر نجمی نے کتاب میں مشمولہ مضامین کو تین واضح حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصّہ سرقہ نویسی اور اس کی تاریخ سے متعلق خالد جامعی، عندلیب شادانی، مُشفِق خواجہ، خالد علوی اور مرغوب علی کے پانچ قیمتی مقالات پر مشتمل ہے۔دوسرے حصّے میں ادیبوں اور کتابوں کی سرقہ نویسی پربتّیس مقالات اور تیسرے حصّے میں اَدبی سرقہ نویسی کے مجموعی رُجحانات پر اکتّیس شذرات جمع کیے گئے ہیں۔ ان دونوں حصّوں میں قاضی عبدالودود، خلیق انجم، گیان چند جین، سیّد علی اکبر قاصد، سیّد حسن مثنٰی ندوی،  ماہر القادری،قرۃ العین حیدر، نجیب اشرف ندوی، انور سدید، فرمان فتح پوری، سیّد ابوالخیر کشفی، لطیف اللہ، نظیر صدّیقی،منیرالدّین احمد، انجم رومانی،عمیق حنفی، زبیر رضوی، خورشید قائم خانی، ناصر عبّاس نیّراورقاضی عابد جیسےاہلِ علم کی تحریریں موجود ہیں۔

اس کتاب میں اُردو کے بہت سے نام ور ادیبوں اور شاعروں  کی سرقہ نویسی کا بھانڈا پھوڑا گیا ہے۔ ان میں مولانا محمد حسین آزاؔد، مولانا الطاف حسین حاؔلی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولوی عبدالحق، نیاز فتح پوری، علّامہ اقبال، مولانا اشرف علی تھانوی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، فیض احمد فیضؔ، ابواللّیث صدّیقی، آلِ احمد سرور، وقار عظیم، سجّاد باقر رضوی،  یحیٰی تنہا، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر سیّد معین الرّحمٰن، مرزا حامد بیگ، ستیہ پال آنند، سجّاد مرزا اور مناظر عاشق ہرگانوی شامل ہیں۔

کتاب کے مشمولہ مقالات و مضامین پڑھنے سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جن ادیبوں کو سارق بنا کر پیش کیا گیا ہے، وہ واقعتاً ایسے ہی ہیں۔ یہ کُلّیہ بہت سوں پہ تو پورا آتا ہے لیکن سبھی ادیب “سارق” کہے جانے کے مستحق نہیں۔ مثال کے طور پر مولانا محمد حسین آزاؔد اور مولانا الطاف حسین حالؔی کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُنھوں نے انگریزی سے مواد چرایا ہے، جب کہ یہ ثابت شدہ ہے کہ دونوں اساطین انگریزی نہیں جانتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ انھیں انگریزی مواد کا خلاصہ اُن کے انگریز دوست، وغیرہ بتاتے تھے جس کی بُنیاد پر دونوں نے تنقیدی اور آزاؔد نے تمثیلی تحریریں لکھیں۔ دونوں نے کبھی اور کہیں یہ دعوا نہیں کیا کہ وہ جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اُن کے طبع زاد ہیں۔ بعینہٖ یہی صورت سر سیّد احمد خان کی تھی۔ حیرت ہے کہ اُن کی “سرقہ نویسی” پر کتاب میں کوئی مقالہ یا مضمون شامل نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ بعض مقالہ یا مضمون نگاروں نے بعض مقامات پر اپنے موقّف کو درست ثابت کرنے کے لیے فکری مماثلت کو بھی خواہ مخواہ سرقہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کی پیش کش جاذب نظر ہے۔ ناشر نے خاصے اہتمام سے کتاب شائع کی ہے۔ اتنی محنت اور توجّہ کے باوجود کتاب میں کچھ نہ کچھ غلطیوں کا رہ جانا انسانی محدودات کو ثابت کرتا ہے، سو اس کتاب میں بھی بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں۔ البتّہ کتاب میں ایک بڑی غلطی یہ نظر آئی کہ عبید اللہ کے مضمون “مقدّمہ شعر و شاعری کا مقدّمہ” کے صرف دو صفحات شامل ہو سکے ہیں، باقی مضمون کسی غلطی یا خرابی کے باعث شامل نہیں ہو سکا۔ ایک اہم تحقیقی و علمی موضوع پر اتنے مقالات کو یک جا کرکے شائع کرنا آج کے اس دورِ بے علمی میں یقیناً کارِ لائقہ سے یاد کیے جانے کے قابل ہے۔ یہ کتاب علما، محقّقین، قارئین اور طُلباے علم کے لیے یک ساں فوائد کی حامل ہے اور اس ضرورت کا احساس بھی دلاتی ہے کہ اس طرز کی کتابیں مزید توجّہ کے ساتھ منظرِ عام پر آنی چاہئیں۔

یاد رہے کہ اس کتاب سے پہلے خالد جامعی نے بھی اسی موضوع پر ایک کتاب مرتّب کی تھی جو “چہ دلاور است – مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ” کے عنوان سے 2007ء میں شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی پہلے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی کے علمی جریدے “جریدہ”کے خاص شمارے کے طور پر سامنے آئی، پھر کتابی صورت میں شائع ہوئی۔