چاروں طرف نظر

یہ تحریر 2358 مرتبہ دیکھی گئی

سید افسر ساجد  بھی خوب آدمی ہیں۔ کوئی کتاب ڈھنگ کی ہاتھ آ جائے تو سہی، اس پر تبصرہ ضرور کرتے ہیں۔ ان کے انگریزی تبصروں کے دو مجموعے پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ تیسرا ہے۔ ایک اور اعتبار سے بھی انھیں انفرادیت حاصل ہے۔ وہ ان معدودے چند حضرات میں سے ہیں جو اپنا مافی الضمیر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں سہولت سے ادا کر سکتے ہیں۔ انگریزی اور اردو میں ایم۔اے کر چکے ہیں۔ ایل ایل  بی ہیں۔ سرکاری ملازمت بھی سلیقے سے کی ہے۔ ان دنوں جی سی یونی ورسٹی، فیصل آباد، میں انگلش اور قانون کے تشریف آور پروفیسر ہیں۔ ارو میں بھی تبصرے اور خاکے لکھے ہیں۔ “وجود ایک واہمہ ہے” کے عنوان سے ایک شعری مجموعہ بھی ہے اور خیال ہے کہ انھوں نے کبھی مرتضےٰ برلاس کے مانند اس طرح کا گلہ نہیں کیا ہوگا کہ “دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں/ افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں۔”

تبصروں پر مشتمل اس نئی کتاب کو چھ ابواب میں بانٹا گیا ہے۔ ان ابواب کے عنوانات گنوانے کا فائدہ کچھ نہیں لیکن موضوعات پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ افسر ساجد کی دل چسپیاں خاصی متنوع ہیں۔ اقبال اور فیض پر الگ سے لکھا ہے۔ ان کے علاوہ الٰہیات، فلسفہ، تصوف، انشائیہ، آپ بیتی، یادداشتیں، خاکے، خطاطی، مصوری، معاشرتی اور لسانی مسائل، اردو اور انگریزی کا فکشن اور شاعری، تراجم، سب پر کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ غرض کہ ان کی وابستگی صرف ادب سے نہیں۔ زندگی کے مسائل کو ہر رخ سے دیکھنے کے قائل ہیں۔ ان کے مزاج کی یہ ہمہ گیری قابلِ قدر ہے۔

جب اتنے بہت سے تبصرے بیک وقت پڑھنے کا اتفاق ہو تو ان پر فرداً فرداً کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ صرف اس طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جو تبصرہ قدرے طویل ہے زیادہ بامعنی نظر آتا ہے۔ جہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے وہاں تشنگی کا احساس ناگزیر ہے۔ بہرحال، تبصرے طویل ہوں یا مختصر، نثر ستھری ضرور ہے۔

ذیل میں ان تبصروں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے جو بہتر معلوم ہوئے۔ “فیض احمد فیض ۔ چند نئی دریافتیں” از اشفاق بخاری، اس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ فیض صاحب کا لائلپور سے کیا تعلق رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال آفاقی کی کتاب  میں مسیحی اور اسلامی علمیات کا تقابلی مطالعہ ہے۔ اینا سوورووا ایک روسی سکالر ہیں۔ انھوں نے لاہور پر اس عنوان سے کتاب لکھی ہے: Lahore: Topophilia of Space and Place۔ فی الحال میں ٹوپوفیلیا کا کوئی معقول اردو مترادف ڈھونڈنے سے قاصر ہوں۔ کتاب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ شہر کے باشندوں کی تاریخی اور ثقافتی بالیدگی کس طرح ثقافتی اور زمینی منظرنامے کو مرتب کرتی ہے اور اسی طرح جغرافیائی مقام اور مکانیت، اپنے طور پر، لاہور کے شہریوں کے رویوں اور شناخت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ موضوع دل چسپ ہونے کی بنا پر تفصیل طلب تھا۔ لیکن اخباروں میں کتابوں پر تبصروں کو کتنی جگہ مل سکتی ہے، یہ بالکل الگ مسئلہ ہے۔

سید ضمیر حسین اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے تھے۔ ان کی کتاب یادوں کا خزانہ ہے اور اس پر تبصرہ بھی جچا تلا ہے۔ باپسی سدھوا کے ناول “دی کروایٹز” کا ترجمہ “جنگل والا صاحب” کے عنوان سے ہوا ہے اور محمد عمر میمن نے کیا ہے۔ یہ تبصرہ بھی ٹھکانے کا ہے۔ کندیرا کے ناول “بقائے دوام” کا ترجمہ ارشد وحید کے قلم سے ہے۔ اس پر بھی تبصرہ بہت مناسب ہے۔ خواجہ مسعود کی کتاب Lessons of my Life یقیناً تبصرے کی مستحق تھی۔ اپنی کتاب میں خواجہ صاحب نے “دس دن جنھوں نے راج کو ہلا کر رکھ دیا” میں فروری 1946ء میں برٹش بحریہ کے ہندوستانی عملے کی بغاوت کا ذکر کیا ہے۔ اس بغاوت کے بارے میں اب لوگوں کو بہت کم علم ہے۔ بغاوت سے انگریز حکمراں تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے اور کانگرسی قیادت کی دہشت زدگی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ کانگرس کی مدد کرنے میں سرمایہ دار پیش پیش تھے اور قیادت خوف زدہ تھی کہ اگر بغاوت فوج میں بھی پھیل گئی تو ہندوستان ایک طرح سے میدانِ جنگ بن جائے گا۔ اس صورت میں شاید کانگرس کی اہمیت نہ رہے۔ آزادی کی جدوجہد کے اس باب کو اب تقریباً بھلا دیا گیا ہے اور اردو میں اس موضوع پر، جہاں تک مجھے معلوم ہے، کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ محمد علی خاں کی کتاب Read no evil  میں اقتباسات زیادہ شامل ہیں جو چست بھی ہیں اور پُرلطف بھی ، مثلاً یہ کہ “پاکستان ماضی میں وجود میں آیا تھا اور پچھلے ساٹھ سال کے عرصے سے زیادہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے۔”

جن مصنفین کی کتابوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے ان کے نام ملاحظہ ہوں:

مظہر محمود شیرانی، توصیف تبسم، محمد عاصم بٹ، ظفر اقبال مرزا، اختر رضا سلیمی، مرتضیٰ برلاس، خورشید رضوی، فیاض تحسین، ظفر حسن، گلزار، حسرت موہانی، محمد اطہر مسعود، ناصر عباس نیر، جاوید انور، فرخ یار، سعادت سعید، شہزاد قیصر، اقتدار جاوید، سارہ سلیری۔ یہ فہرست مکمل نہیں۔ لیکن اندازہ ہو سکتا ہے کہ افسر ساجد نے تنقید اور تبصرے میں وسیع القلبی اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی کتاب سے مستفید ہونے والے کو پتا چل سکتا ہے کہ پاکستان میں اردو اور انگریزی میں کیا کیا لکھا جا رہا ہے اور سامنے آنے والی تحریروں میں کون کون سی قابل ذکر ہیں یا اعتنا کی مستحق۔

جن پاکستانی شعرا نے انگریزی کو ذریعہ اظہار بنایا ہے ان میں سے دو پر خاص توجہ دی ہے۔ ایک تو اطہر طاہر ہیں اور دوسرے اعجاز رحیم۔ ثانی الذکر کے کئی شعری مجموعوں پر تبصرے ہیں۔ اس ذہنی مناسبت کے پیش نظر جو افسر ساجد اور اعجاز رحیم کے درمیان موجود ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اعجاز رحیم پر “شخصیت اور فن” کے عنوان سے کوئی ڈیڑھ سو صفحے کی کتاب انگریزی میں لکھ دیتے۔ اس طرح تنقید، تائید اور تحسین سب کا حق ادا ہو جاتا۔

Evaluations از سید افسر ساجد

ناشر: دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد

صفحات: 362؛ آٹھ سو روپیے