پیٹربخسل کے خطبات

یہ تحریر 2266 مرتبہ دیکھی گئی

پیٹر بخسل، کہانیاں، خطبات، انتخاب و ترجمہ منیر الدین احمد۔ پنجاب بک ڈپو لاہور

بخسل (Bichsel) کم نویس ہے۔ تقلیل پسند کہہ لیجیے۔ اس کی تحریریں اس قدر مختصر ہوتی ہیں کہ انھیں جلی حروف میں چھاپنا پڑتا ہے۔ لیکن اختصار کے باوجود براق تہ داری کی حامل نظر آتی ہیں۔ اس کے منفرد ادیب ہونے میں کلام نہیں۔ آج کل طلسمی حقیقت پسندی کا بڑا چرچا ہے۔ بخسل کے فکشن پر بھی اس قسم کا کوئی ٹھپا لگایا جا سکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لاطینی امریکی ادیبوں کی بعض کاوشوں پر آورد کا گمان بہت ہوتا ہے۔ بخسل کے ہاں آورد کا شائبہ نہیں۔

بخسل 1935ء میں لوتسرن (سوئٹزر لینڈ) میں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر تیرہ برس تک مدرسے میں پڑھاتا رہا۔ اس کی پہلی کتاب اتنی کامیاب ثابت ہوئی کہ اس نے کل وقتی ادیب بننے کی خاطر تدریس کے پیشے کو خیرباد کہہ دیا۔ منیر الدین احمد نے، جو خود بھی افسانہ نگاراور سکالر ہیں، بخسل کے فکشن اور ادبی خطبوں کو براہِ راست جرمن سے ترجمہ کیا۔

ان کہانیوں اور افسانوں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انھیں لکھنے والے نے ادب کے اسرار و رموز پر زیادہ غور کیا ہے اور لکھا کم ہے۔ لیکن آدمی اگر کم سے کم الفاظ میں اپنا مدعا بخوبی بیان کر سکے تو ریم کے ریم سیاہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جس طرح کیمیا یا طب میں بعض مفردات کا جوہر الگ کر لیا جاتا ہے اسی طرح بخسل کو کہانی سے کہانی کا جوہر کشید کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ہم تک فکشن مقطر شکل میں پہنچتا ہے۔ کام آسان نہیں کہ ذرا سی چوک ہو جائے تو پتا چلے کہ پھوک حاضر، جوہر غائب۔

چھوٹی چھوٹی  کہانیاں، جیسے بیج جن میں پورے درخت کا بلیو پرنٹ ہوتا ہے۔ ان کی سادگی پر فریب ہے۔ کوئی چو منزلہ مکان دیکھا۔ اس کے گرد کہانی بنا دی۔ لڑکی انتظار کرتی نظر آئی اس کے گرد کہانی کا جالا تان دیا لیکن تصوف کی جوزیریں لہر اس کے افسانوں میں کارفرما ہے کہیں زیادہ حیرت ناک ہے۔ اس معنی آفرینی میں شعوری کوشش کا دخل شاید نہ ہو۔ ادب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا کر تصوف سے مل ہی جاتے ہیں۔ میں خاص طور پر “زمین گول ہے” کا ذکر کروں گا۔ افسانہ بظاہر لطیفہ معلوم ہوتا ہے لیکن باتوں باتوں میں سجھا دیا گیا ہے کہ سیدھی راہ پر چلنا درحقیقت کتنا دشوار ہے۔ تقریباً سبھی افسانے متصوفانہ معنویت کے حامل ہیں۔ “یوڈوک سلام بھیجتا ہے” چھوٹا سا عجوبہ ہے۔ کوئی پڑھنے والا اسے بھلا نہیں سکتا۔

بخسل کے پانچوں ادبی خطبے بھی خاصے کی چیز ہیں۔ خیال انگیز بھی اور نزاع انگیز بھی۔ ادب اور زبان کے حوالے سے بڑی کام کی بلکہ پتے کی باتیں کہی گئی ہیں۔ اس طرح کی گفتگو وہی کر سکتا ہے جس نے زبان اور ادب کے مباحث کی گہرائیوں میں غواصی کی ہو۔ بخسل کہتا ہے کہانی سنانا ادب کا اصل مدعا ہے نہ کہ کہانی کا متن۔ کوئی کہانی ایسی نہیں جس میں سچ نہ پایا جاتا ہو۔ ادب دہرائے جانے کا نام ہے۔ ادب میں زبان، بولی جانے والی زبان کے مقابلے میں، ایک اور فرض منصبی ادا کرتی ہے۔ کم زوروں کا طاقت وروں کے مقابلے میں کہانیوں سے زیادہ قریبی تعلق ہوتا ہے لیکن بخسل کے بعض اقوال سے اختلاف ممکن ہے، مثلاً یہ کہنا کہ ادب ثانوی چیز ہے۔ اگر نہ ہوتا تو سیاست دان کبھی کے اس پر قبضہ جما چکے ہوتے۔ ادب ثانوی چیز ہے یا نہیں مگر حکومتیں جس طرح ادبدا کر اسے کنٹرول کرنے کا تردد کرتی ہیں اس سے ظار ہے کہ ادب میں کوئی پہلو اقتدار شکنی کا ہے۔ شاید حکومتیں ڈرتی ہیں کہ صف اول کا ادیب جھوٹ کو بھی اس طرح پیش کر سکتا ہے کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے۔ اس طرح انھیں صرف سچائی ہی خوف ناک معلوم نہیں ہوتی بلکہ جھوٹ بھی۔