پہاڑی لوگ

یہ تحریر 2346 مرتبہ دیکھی گئی

ڈاکٹر علی کاؤسی نژاد(شعبہ اردو، یونیورسٹی آف تہران، ایران)

موسم بہار میں مہکتے پھولوں کی خوشبو فضاؤو ںمیں پھیلتی ہوئی ، تتلیاں ان کے گرد گردش کر رہی ہیں اورمعصوم  بچے  بچیاں  گندم کی  لہلہاتی فصلوں میں  اچھلتے کودتے  ایک  دوسرے کا پیچھا  کر رہے ہیں۔ کہساروں اور بلند و بالا پہاڑی سلسلوں  میں محصور اس چھوٹے سے گاؤں میں  جہاں سورج کی شعائیں  ان پہاڑوں کی اوٹ  سے  اپنا راستہ ڈھونڈتی ہوئی گھروں کے ایوانوں میں   پہنچ کر سیدھے سادھے معصوم دہاتی لوگوں کے معصوم چہروں کو نوازتی ہیں وہاں دادا دادی گھر کے ایوان میں بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف ہیں۔موسم گل میں بلبلیں  اور فاختائیں  چہچہاتی پھرتی ہیں اور بھونرے  پھولوں  سے  رس رسید  کرنے میں  مصروف ہیں۔ گاؤں والے صبح سویرے نیند سے اٹھ کر  دیسی مکھن اوربھیڑ بکریوں کے دودھ سے   ناشتہ کر کے  جان بناتے ہیں۔ گھریلو  عورتیں آنگن میں  مرغیوں اور مرغوں اور ان کے ننھے منّے چوزوں کو د انہ  دینے لگتی ہیں ،  اس کام سے فارغ ہوتے ہی اپنے مردوں کو روانہ ء صحرا  کرنے کے لیے توشہ ء راہ  کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان کی جبینوں پر سالہا سال کی  محنت و مشقت  کی لکیریں  پڑ گئی ہیں  اور ان کے معصوم چہروں پر سدا   مسکراہٹ   نمودار ہوتی ہے۔خاتونء  خانہ اپنے من دھن سے  گھرانے سے ٹوٹ کر پیار کرتی ہے اور اس کے نس نس میں  محبت کا لہو دوڑ  رہا ہے۔پہاڑوں جیسے مضبوط مرد  ہیں جن کے گران کندھوں پر زمانے کا  بوجھ  پیس  رہا ہے۔ یہ وہ مرد ہیں  جن کو   خلوت صحرا و بیابان میّسر ہے اور غم  دوران کا پتھر ان کی ہتھوڑیوں  سے  پھٹ چکا ہے۔ ٹیڑھی  لکیریں ان کے چہروں پر نقش بستہ ہیں  اور ان کی مضبوط کلائیوں سے   شیروں کی گردنیں  مڑوائی جا سکتی ہیں۔دیو ہیکل قامتوں  کو دیکھ کر  کالبدوں پر رعب طاری ہوتا ہے اور دل ہیں جو تیزی سے دھڑکنے لگتے ہیں لیکن ان  دیو قامت ہیکلوں کے دلوں میں مہر و  صفا کی داستانیں پڑھی جا سکتی ہیں اور ان کے دسترخوانوں پر بیٹھ کربادشاہ زمانہ  اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔

اس چھوٹے گاؤں کے دل میں ایک مدرسہ قائم ہے جس میں ننھے منّے بچے اور بچیاں  علم و ادب کے چشموں سے سیراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ صبح جب اپنے مدرسے کی طرف نکلتے ہیں ان کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی،  یوں لگتا ہے کہ کشتی صبا  میں  بیٹھ کر بڑے سمندروں   کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔اسکول کے رستے پر جاتے ہوئے انہیں  کئی طرح کی اٹھکیلیاں سوجھتی ہیں۔ قطار اند ر قطار بطخوں اور مرغابیوں اور ان کے چوزوں  سے کھیلتے ہوتے گاؤں کے  بھونکتے ہوئے کتوں کو روٹیاں دینے سے  اپنے پھولے میں نہیں سما تے۔خیالی امنگوں اور آرزوؤں کو لیے  اپنے ہم جماعتوں کے ہاتھوں کو پکڑتے  ہوئے رستے میں آنکھ مچولی کھلتے ہیں۔ اچانک انہیں اپنے بستوں کی یاد نہیں رہتی اور کہیں  اسے بھول جانے سے رو پڑتے ہیں۔اس اثنا میں کسی کو یہ بستہ ملتا ہے اور ان کی رونی شکل پر خوشی کی لہر دوڑنے لگتی ہے۔ مدرسے کے بیرونی دروازے پر ان کے  معلّم ان کے انتظار میں   اپنی گھڑیوں پر بار بار نظر دوڑاتے ہیں ۔ اپنے ننھے منّے طالب علموں کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے ہیں اور وہ مسکرائے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ  ایک ماں کی اپنے بچھڑے ہوئے بچےسے دوبا رہ ملاقات ہوتی ہے۔ اتنے میں آسمان پر سیاہ بادل چھا  جاتے ہیں اورآسمان کی گرج چمک سے بارش  ہونے لگتی ہے۔بارش کے پانی  میں بھیگے ہوئے  ننھے منّے بچے  اصلی دروازے سے مدرسے میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے کمرہ ء جماعت کی طرف کود پڑتے ہیں۔ لکڑی سے بنی ہوئی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنے معلّم سے سبق سیکھ کے  وہ اپنے مستقبل کی خیالی امنگوں کو لیے ہواؤں میں اڑان بھرتے ہیں اور اپنی کتابی داستانوں میں پڑھی ہوئی کہانیوں کے ہیروؤں اور اپنے ملک کے سپوتوں کے کارناموں سے محظوظ ہو کر بے حد مسرور ہو کر اپنے آپ کو ان کہانیوں  کے کردار سمجھنے لگ جا تے ہیں۔

دوپہر کا وقت آنے لگتا ہے اور مدرسے کی کھڑکیوں سے گھریلو عورتوں کے ہاتھوں پکی ہوئی روٹیوں کی مہک کمرہء جماعت کی فضا میں پھیلتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ بے قابو ہو کر اپنے اپنے گھروں کو جانے کا بہانہ سوچتے ہوئے  حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔  اتنے میں مدرسے کی گھنٹی بجا ئی جاتی ہے اور وہ بیک وقت نکلنے کی کوشش میں  اپنے بستے بھول  کر پھر سے واپس آ کر دوڑتے ہوئے  ان کی پنسلیں ان کے بستوں سے گر تی ہیں ۔ چشم زدن میں ان  کو اٹھا کر گھروں کی طرف دوڑ بھاگتے ہیں۔ گاؤں  کی بلندی میں بیٹھ کر مائیں اپنے اپنے بچوں کے انتظار میں  بڑی بیتاب ہیں۔ اپنی ماوؤں کی آغوش میں   انہیں ایک طرح کا سکون ملتا ہے اور اور مائیں ہیں جو ان کیےناز و نخرے اٹھانے کے لیے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا کر انہیں مامتا  کی محبت سے لبریز کرتی ہیں۔

گاؤں  کی عورتیں اپنے گھریلو کاموں سے فارغ ہو کر کسی ہمسائے کے گھر کے ایوان میں اکھٹی  بیٹھ کر اپنی تخلیقی قوت کو بروئے کار لاتی ہوئی  اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے فطری ماحول سے اقتباس لیتی ہوئی   نئی  دستکاریاں بنانے میں اپنے  اپنے جوہر دکھانے لگتی ہیں۔سردیوں کے لیے ریشمی کپڑے ، دستانے  اور جرابیں  بنانے ہوں  یا کپڑوں پر سلائی  کڑھائی کا کام کرنا ہو اس میں انہیں اتنی مہارت حاصل ہے کہ وہ اپنی انگلیوں  پر پورا بھروسا کرتی ہوئی  اتنی نئی اور خوبصورت  چیزیں تخلیق  کرتی  ہیں  جنہیں  دیکھ  کر انسان  ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔ ارے بڑےکارخانوں میں بھی   اتنی معیاری  چیزیں کب اتنی خوبصورتی سے  تیار کی جاتی ہیں؟! یہ گاؤں کی محسور کن فضا میں رہ کر دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات کے استعمال  کا  اعجاب انگیز اثر ہے جو ان لوگوں کے دماغ کو اتنا تر و تازہ  رکھنے اور  ان میں صلاحیتیں پیدا کرنے میں اپنا کردار  ادا کرتا ہے۔ جاڑے کے موسم میں جب سردی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے ان گھریلو عورتوں سے بنی ہوئی دستکاریاں کام آتی ہیں اور برفیلے پہاڑوں پر چڑھنے اور اترنے  اور شکار کھیلنے میں    پہاڑ جیسے مضبوط مردوں  کے لیے اور ان کے کالبدوں کو گزند حوادث سے بچانے میں کافی مدد دیتی ہیں۔

مردوں کا موسم بہار میں گلہ بانی  اور شکار کھیلنے کے مشغلے رہتے ہیں۔ وہ صبح سویرے موسم  بہارکے لطف اندوز جھونکوں کے ساتھ اٹھ کر زاد راہ کو لیے ہوئے اپنے بھیڑ بکریوں  کے ساتھ  صحراوں اور پہاڑوں کی طرف نکلتے ہیں۔ روانہ  ہوتے ہی نگران کتے  بھونکتے ہوئے  ان کے پیچھے  گلے کی حفاظت کا اپنا  فرض سمجھتے  ہیں اور ایک ایک  بھیڑ بکری   پر ان کی  گہری نظر ہوتی ہے۔ انہی نگران کتوں سے  چرواہوں کو بھیڑیوں اور وحشی جانوروں سے خوف نہیں رہتا اور وہ بڑے اطمینان کے ساتھ دور رس پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنا  مقصد  سفر بناتے ہیں۔ یہ  پہاڑی  مرد  شکار کھیلنے کے لیے بندوق بردار ہو کر گھر سے نکلتے ہیں اور ان کی بوریوں میں  آگ جلانے کے لیے تیل اور تیتر بٹیروں کو  شکار کرنے کے جال ہوتے ہیں۔یہ مرد اپنے رزق و روزی  تلاش کرنے  اور اپنے کنبے کو  خوش کرنے کے لیے نہ صرف  گلہ بانی کرتا  ہے بلکہ اس نے   ان کے پیٹ پالنے کے لیے   اپنے اندر شکار کھیلنے کی صلاحیت  بھی اپنائی ہے۔پہاڑی  چٹانوں  پر چڑھنے   کے لیے اس کا عزم و ادارہ قابل  ستائش ہے اور وہ   پہاڑ  کی بلند و ارفع چوٹیوں کو  سر کرنے کے لیے  نڈر اور  بیباک ہے۔ یہاں کے موسمی حالات کی وجہ سے  بلوط کےدرخت  ایک گھنے جنگل کا سماں پیش کرتے ہیں اور ان کی چھاؤں میں  مسافر تھوڑی دیر کے لیے سکون بھری  نیند  میں سو جاتے ہیں۔ پرندوں اور وحشی جانوروں کی آوازیں پہاڑی دامن میں گونجتی  ہیں   اور ان پرندوں کی خوش الحانی اور سریلی آواز گوش نواز  ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے  سورج کی تیز دھوپ میں پگھلتی ہوئی برف  کا پانی  بہاتا ہوا   ندی کی شکل اختیار کرتا ہوا  روح کو تسکین اور پیاس بجھانے  کے لیے  گوارا  ہوتا ہے اور یہ منظر بے حد خوشگوا ر  ہے۔ چہچہاتی ہوئی بلبلیں اور تتلیوں اور بھونروں کی پرواز، انسان پر سحر اور جادو طاری کرتی ہے۔

دوپہر کے وقت تیتر بٹیر پانی پینے کے لیے  ندیوں کا رخ کرتے ہوئے خوش الحانی سے  گاتے ہیں اور اسی دوران  پہاڑی مرد کو ان کی آواز سنائی دیتی ہے اور ان کو شکار کرنے کا عزم کرتا ہے یہ ایک ناگزیر امر ہے اور اس شکار کے بغیر وہ اپنے گھرانے  کو کیا کچھ دے سکتا ہے۔حدنظر تک  بادل چھائے ہوئے ہیں اور یہ خوف اس کے دل میں رہتا ہے کہیں سے خونی بھیڑیے اس کے گلے پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔  اچانک  نگران کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی ہے جو ایک آنے والے خطرے کا پیغام  لے کرآتی ہے۔ اسے اپنے ریوڑ کی نگہبانی کے لیے  چوکس رہنا پڑتا ہے ، اپنی بندوق میں گولیاں رکھ کر  آنے والے بھوکے پیاسے بھیڑیوں کے انتظار میں اس کے سکون و راحت میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس کی مدد کرنے کے لیے  محافظ کتے بھی موجود ہیں ۔وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنے ریوڑ کا ر خ گاؤں جاتے ہوئے راستے پر کرلیتا ہے۔ شام ہونے کو ہے اور سورج کی آخری کرنیں دھیرے دھیرے بادلوں کی اوٹ سے ہوتی ہوئی پہاڑوں کی دوسری طرف  کے چٹانوں پر پڑتی  ہیں اور خوف و ہراس کے لمحات آن پہنچتے ہیں اور انسان پر اداسی کی لہر دوڑتی ہے۔

اب  پہاڑی مرد اپنے گاؤں کے  آس پاس پہنچ گئے ہیں  اوران کی آواز سے گاؤں والوں کو پتا چلتا ہے کہ وہ  اپنے رزق کو دامن کوہ سے  لیے ہوئے  اپنے اپنے گھروالوں کو خوشخبری سنانے کے عزم سے سرشار ہیں۔ بچے  خوشی خوشی دوڑتے ہوئے ان کے استقبال کے لیے  بڑی پھرتی سے بھاگ آئے ہیں اور ان کی بوریوں سے اپنا اپنا حصہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ گاؤں میں ایک شور و غُل بپا ہوتا ہے اور گھریلو عورتیں اپنے مردوں کے ہنستے مسکراتے  چہروں  کو دیکھ کر  اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے دل سے دعاگو ہیں ۔شاید کسی دن  وہ اپنے پڑھے لکھے بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں میں داخل کرائیں اور اپنے ان پڑھ ہونے پر پانی پھیر دیں۔  یہ وہ پہاڑی لوگ ہیں جن کے دلوں میں بڑے بڑے سمندر سمانے کی  گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں  جو آسمانوں کے ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں۔