آدمی کو میسر نہیں انسان ہونا

یہ تحریر 2151 مرتبہ دیکھی گئی

ڈاکٹر علی کاؤسی نژاد (یونیورسٹی آف تہران، ایران)

دنیا  عجیب صورتحال کا سامنا کر رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اکیسویں  صدی کے اس پرتلاطم دور میں جہاں  دنیا کی سب سے بڑی   طاقتیں  امریکہ اور چین  ایک دوسرے کو مفلوج کرنے  کے لیے  بر سر پیکار ہیں  وہاں ایسی  منحوس وبا دنیا  میں پھیلا دی گئی ہے جو انسانوں کے سمندر میں تیرتی ہوئی ان  کی سانسیں لے رہی ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس  لیبارٹریوں میں  سائنسدانوں کے ہاتھوں تیار کیا گیا ہے اور ایک طے شدہ  منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر  انسانی دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے۔آخر انسان کو یہ سوچ کہاں سے ملی کہ وہ  بنی نوع انسان کو مٹانے کے عزم سے سرشار ہو گیا ہے؟ وہ کیونکر اپنی ٹانگوں پر کلہاڑیاں مارنے  آ ن بیٹھا ہے۔؟کونسے شوم عزائم  ہیں جو انسان کو اس قدر بے رحمانہ اور بے دردانہ موت کے گھاٹ  اتارتے ہیں؟ کئی صدیوں سے انسان روئے زمین پر جنگیں لڑ رہا ہے ۔ دوسری سرزمینوں پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے  خون کی ندیاں بہا  رہا ہے ۔وہ ہمیشہ طاقت کے نشے میں رہ کر  لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانیں لے رہا ہے لیکن کبھی  پچھتاوے کا نام نہیں لے رہا۔ واقعی  یہ وہ انسان ہے جو شجر ممنوعہ کے پھل کھانے کے جرم میں زمین میں بھیج دیا گیا ہے  تا  اپنے ہم نوع  انسانوں کی زندگیاں تباہ کر کے خود ٹھنڈی سانس لے؟!

 ہر سو دنیا ہراس و وحشت میں مبتلا منہ کھلے دکھلا رہی ہے۔ انسانی ضمیروں پر  جنون آمیز  سوچ حکمرانی  کر رہی ہے۔ یہاں  ایک سائنسدان کی غلطیوں کی وجہ سے  لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی جا سکتی ہیں  خیر اس کی پرواہ کون کرے؟ گلی کوچوں میں  تمہیں وہ لوگ نظر آئیں گے جو کھانستے ہوئے  نجانے کب اور کہاں اپنی جان کھو بیٹھیں گے۔ اب دنیا کے بازار میں  تمہیں وہ چیز سب سے سستی نظر آئی گی اور وہ  انسان کی جان ہے جو سستے داموں میں بک رہی ہے۔دنیا کی دو بڑی طاقتیوں میں  جنگ چل رہی ہے اور دنیا کے کاشانے  سے جانیں چلی جا رہی ہیں۔ کورونا کی جائے پیدائش کے بارے میں چند مفروضے موجود ہیں جن میں سب یہ متفق القول ہیں کہ یہ منحوس وائرس پہلے  چین سے شروع ہو کر دنیا میں سیر کرنے لگا اور اس نے انسانی پھیپھڑوں  کو اپنا  کاشانہ بنا رکھا ہے  جسے دیمک کی طرح چاٹ کر انسانی  کالبد اپنی روح و جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے کئی بار چین کو متنبہ کیا کہ یہ وبا تمہاری  لیبارٹریوں  میں تیار ہو کر  دنیا میں پھیلا دی  گئی۔ لیکن چینیوں نے اس  بات سےانکار کردیا ۔با ت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں کئی وائرس اور وبا کی بیماریاں پھیل گئی ہیں لیکن اس کورونا  وائرس کی نوعیت پہلے بیماریوں سے کچھ مختلف ہے اور موسمی  حالات کے حساب سے اس کے انسانی جسم پر اثرات طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ آج کل دنیا کے سائنسدان  اس وائرس کی ویکسین بنانے میں منہمک ہیں لیکن حال تک کوئی سائنسدان  سو فیصد یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ میں  نے ایسی ویکسین بنائی ہے جو کورونا وائرس کے اثرات کو ختم کر سکتی ہے۔ یون لگتا ہے  کہ سائنسدانوں کو اس کی دوا  بنانے میں ابھی  اور وقت لگے گا اور اس وائرس  کو انسانی پھیپھڑوں کو چاٹنے میں اور مزہ آئے گا۔ ظاہر ہے اس وائرس سے  انسانی جانوں کو خطرہ ء لاحق ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا کی   معاشیات پر اس کے دوررس اثرات ہیں۔منطقی انداز سے سوچا جائے  جس    انداز سے یہ وائرس تیار کیا گیا ہے اس کے پس پشت کئی  منحوس مقاصد ہیں۔ دنیا کی معیشت کو تباہ کرنا  اور اس جانکاہ مرحلے سے لوگوں کو گزارنا یہ وہ اصلی مقصد ہے جس کے لیے کئی برس محنت  کی گئی ہے اور ہمیں اکیسویں صدی میں اس  منحوس وائرس سے دست و گریبان چاک کرنا ہوگا۔ انسان کبھی اتنا شیطان صفت بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے ہم نوع اور ہم جنس کو زمیں سے مٹانے کے لیے کوئی کسر نھیں اٹھا رکھتا اور اپنی انسانیت گنوا بیٹھتا ہے۔ اتنی درندہ صفت ہو سکتا ہے  کہ انسانوں کے گوشت نوچ نوچ کے رکھتا ہے۔ خدا نے انسان کو اختیار کی طاقت سے نوازا ہے لیکن یہ مخلوق کبھی اپنے اختیار کی  حدیں  بھی پار کر سکتا ہے۔ اگر تاریخ کی  ورق گردان کی جائے اس کی خوفناک مثال امریکہ کا ناگاساکی  پر ایٹمی حملہ ہے جس کے نتیجے میں  لاکھوں بے گناہ انسان لقمہء اجل بن گئے اورجاپانی لوگ  آج  بھی اس کے  نا قابل تلافی اثرات سے محفوظ نہیں ہیں  ۔ در اصل  انسان نے اس کرہ ء خاکی کو  ایک  تجربہ گاہ بنا رکھا ہے   اور اپنے شوم عزائم کو جاری رکھنے کے لیے بے گناہ انسانوں کی زندگیوں   سے  کھیلتا  رہتا ہے۔بند پنجروں میں ایسے انسانوں کو تصور کیا جائے   جن کی آزادی چھین لی گئی ہے اور ان  کے کالبدوں پر مختلف دوائیاں  تجربہ کیا جا رہا ہے۔ در اصل ہم یہ جانکاہ مرحلہ طے کر رہے ہیں اور ہم پر ایسی طاقتیں  مسلط کی گئی ہیں  جن سے  بچنے   کا کوئی  راستہ نہیں ہے۔ کورونا وائرس   نےممالک کی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے  اور یہ اس کا ایک اصلی مقصد ہے جو کورونا وائرس بنانے والے   اس کے تعاقب میں ہیں۔کبھی یہ خیال انسان کو ستاتا ہے کہ بعض  مشرقی ممالک دوسرے  کُرّات جیسے مریخ  میں انسانی زندگی ممکن بنانے کی سوچ میں انسانی دنیا کو کہیں تباہ نہ کر بیٹھیں۔بڑے پیمانے پر تجربات  کرانے کے لیے انسانی دنیا  بھی ایک اچھی تجربہ گاہ بن  سکتی  ہےجس میں سائنسدان مختلف  وبائی بیماریاں تجربہ کر سکتے ہیں اور لاعلم اور بے خبر وہ  بے گناہ انسان ہے جس پر تجربہ کیا جا رہا ہے اور وہ  اپنی زندگی  سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، یہ انسان کی وہ خوفناک سوچ ہے جو آج کل حقیقت کا روپ اختیار کر گیا ہے اور ہسپتالوں میں ایسے  بے گناہ انسان داخل کیے جا رہے ہیں جو وائرس زدہ ہیں اور ان کی جان بھی چلی جائے تو  شاید کسی کو غم نہ ہو۔  اس وبائی مرض کے المناک اور چشم دید واقعات دیکھ کر انسان کے رونگھٹے  کھڑے  ہو جاتے ہیں۔ انسان  اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور تجربہ کار سائنسدان اپنے  تجربات کے نتائج دیکھ کر  خوشی سے باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ ان کا مقصد انسانی پیکروں کو  تختہء مشق بنانا ہے اور اور وہ بے حسی میں مبتلا ہو کر اپنے انسانی مرتبے سے گر کر گھناؤنی  عزائم کو جاری رکھنے کے لیے مختلف چالیں چلانے کے درپے ہیں۔اُ س کے  انسانی رویوں میں  کافی تبدیلی آ گئی ہے اور اس نےاپنے ہم جنس سے بیزاری کی قسم کھا رکھی ہے۔ جنون آمیز خیالات  اس کے ذہن و فکر پرہمیشہ سوار رہتے ہیں اور یہ انسان اس کے  اثرات سے  بچنے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ  اس نے ایک شیطانی  سوچ کو لے کر آگے  اپنی دھرتی کو  اجاڑنے  کا ناجائز  ارادہ کر دیا ہے۔ ارے انسان یہ دھرتی ختم کرنے کے علاوہ کہیں دوسرے  کہکشانوں تک   رسائی حاصل نہ کرئے جن میں بنی نوع انسان نہیں رہتا اور وہ آج تک ہماری بدنیتی اور بُرے عزائم کی پہنچ سے  محفوظ ہیں۔

ڈاکٹر علی کاؤسی نژاد کی دیگر تحریریں