کمرہ 312

یہ تحریر 794 مرتبہ دیکھی گئی

پہلی قسط

سنہ 2007 کو مجھے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں ایم۔ اے اردو کا داخلہ ملا اور میں نہایت خوشی اور عجلت میں تہران سے ماہان ائیر کے ذریعے سیدھا لاہور پہنچا۔ ایران اور پاکستان کی ثقافت ایک دوسرے سے ملتی جلتی نظر آتی ہوئی پھر بھی ان میں فرق ضرور نظر آتا ہے۔ ائیرپورٹ پر اترے تو مجھے اردو کا نامانوس لب و لہجے سے افتاد پڑی۔ مجھے کافی حیرت ہوئی خدایا یہ کونسی اردو ہے جو مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ قُلیوں سے بات کرتے ہوئے میں تو حواس باختہ ہو چکا تھا۔ زبان تو اردو سے ملتی جلتی تو نظر آتی ہے لیکن شاید میرے کانوں کو دوران پرواز خرابی پیش آئی جو مجھے اس طرح کی اردو ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی۔ اپنے ہاں سوچا کمبخت تو نے اردو میں بی ۔اے کر کے کیا حاصل کیا سیدھے اپنے گھر چلے چلو بہر کیف مجھے گیٹ کی دوسری طرف ڈاکٹر علی بیات اور ڈاکٹر محمد کیومرثی نظر آئے اب جان میں  جان آ گئی اور میرے مضمحل شدہ اعضا بحال ہوئے۔ عزیزوں سے گلے لگا کے شکایت کی ارے مجھے کیوں یہ والی اردو سمجھ نہیں آ رہی۔ ڈاکٹر علی بیات گویا ہوئے: “بھیا یہ تو پنجابی بول رہے تھے تمہاری ابھی سے پنجابی سننے کی پریکٹس شروع ہو گئی ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں آپ کو دھیرے دھیرے یہ زبان آ ہی جائے گی بس اپنی ہمت نہیں ہارنا۔” اپنے عزیز اساتذہ کرام کی معیت میں گاڑی میں بیٹھ کر لاہور ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے لاہور کی شاہراہوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجھے لاہور کی یہ سڑکیں کافی انجانی لگ رہی تھیں اور تہران کی لمبی چوڑی شاہراہوں کے مقابلے میں چھوٹی نظر آ رہی تھیں البتہ شاید ماحول کی تبدیلی مجھ پر کافی اثرات چھوڑ رہی تھی اور میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر گھوم پھیر کر ہماری منزل پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس والے ہوسٹلز دور سے نظر آنے شروع ہو گئے۔ ہاسٹل نمبر 2 کے سامنے گاڑی رُک کر ہم گاڑی  سے اتر ے۔ ہوسٹل مجھے عجیب سا لگا جیسے میں ایک قید خانے میں داخل ہو رہا ہوں۔ سیڑھیوں کو اوپر چڑھتے ہوئے خوف طاری ہونا شروع ہوا ہمارے آگے اکبر نامی ملازم سامان اٹھائے ہوئے چلا جا رہا تھا اور میں ورطہ ءحیرت میں مبتلا انجانی دیواروں پر میری نظریں جمی ہوئی تھیں گویا یہ ایک ٹھوٹی پھوٹی آسیبی محل تھی جس کے مکین کب کے اور کہیں کے تھے۔ البتہ یہ میرے تصوارت تھے جو مجھے بُری طرح جھنجھوڑ رہے تھے۔ ہائے ناکامی کی آوازیں مجھے گھسیٹ کر اس ویرانے میں کیوں لائیں۔ مجھے تیسری منزل پر کمرہ نمبر 312 ملا اور یہ وہ واحد کمرہ تھا جسے میرے لیے مختص کیا گیا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے مسلسل چھے برس اسی کمرے کی دیواروں سے مانوس ہونا پڑے گا۔

ہاسٹل میں دو تین ایرانی لڑکے رہائش پذیر تھے جو فارمیسی کر رہے تھے ان سے میری ملاقات رہی  وہ تعلیمی سرگرمیوں میں مگن تھے اور مجھ جیسے نووارد کے لیے ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا پھر میں نے فیصلہ کیا ان کے لیے اسباب زحمت نہ بنوں اور اپنی رہائشی سامان کا خود بند و بست کرلوں۔ کمرہ 312 میرے مقدر میں لکھا گیا تھا اور میرے ہمسائے میں ایک پاکستانی لڑکا قیام پذیر تھا جو ملک سے باہر اپنی اعلی تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا۔ ان سے میرا سلام دعا ہوا اور مجھے برابر یہ بات دہرا رہے تھے کہ تجھے اردو پڑھ کر کیا کرنا ہے اور میرے پاس ایک معصومانہ جواب تھا کہ مجھے اردو زبان سے کافی محبت ہے۔ شاید وہ اپنے یہاں سوچ رہا ہوگا کہ اس کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ ویسے وہ پاکستان سے باہر اپنی تعلیم جاری رکھنا تھا اور میرا اس سے کیا لینا دینا تھا۔ میں نے 15 نومبر 2007 لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا تھا اور پاکستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ لاہور آنے سے پہلے میرے والد صاحب نے مجھے پاکستان آنے سے منع کیا تھا لیکن میرے سر پر اردو زبان کی محبت کے بادل منڈلا رہے تھے۔ عام طور پر غیر ملکیوں کو ایک کمرا الاٹ کیا گیا تھا اور مجھے پہلی رات بیچاری سی چارپائی پر لیٹ کر سونا پڑتا تھا۔ کمرا  میرے ذاتی سامان کے علاوہ کسی آرام دہ سامان سے بالکل عاری تھا اور بڑا سا پنکھا تھا جسے دیکھ کر سزا یافتہ قیدیوں کی یاد آ رہی تھی۔ سفر سے تھکا ہارا کمرے میں آنکھ لگ گئی اور اچانک نیند آئی۔ فجر کے وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ایک آدمی میرا گلا گھونٹ رہا ہے اور مجھے اس کے مضبوط ہاتھوں سے گلو خلاصی کا کوئی راستہ نہیں۔ مجھ پر خوف اور کپکپاہٹ طاری ہو چکی تھی اور حواس بحال ہونے میں تھوڑی دیر لگی۔ مجھے یوں لگا کہ یہ کمرا مجھ سے پہلے کسی جن یا بھوت کی رہائش میں تھا اور میں نے زبردستی سے اس پر اپنا قبضہ جاری رکھا ہے۔ جو کچھ میں نے ایران سے ساتھ لایا تھا اس سے ناشتہ کیا اور مجھ میں اورینٹل کالج جانے کا شوق بڑھ گیا۔ مجھے دراصل ڈاکٹر علی بیات کے ساتھ اورینٹل کالج جانے کا اردہ تھا لیکن مجھ میں عجلت کا مادہ بدرجہ اتم زیادہ تھا اور چوکیداروں سے پوچھ کر اورینٹل کالج اور اولڈ کیمپس جانے کا راستہ سمجھ آگیا۔ سرسید انٹرنیشنل ہاسٹل کے ساتھ ہوائی پل کراس کر کے نہر کی دوسری طرف مجھے بس نمبر 2 میں سوار ہونا تھا۔ بس آ گئی اور دو تین لڑکے اس کے دروازے کو مضبوطی سے پکڑ کر لٹک رہے تھے مجھے تو بس مل گئی لیکن یہ تو خطرے سے باہر نہیں تھا اپنی عاجزی کا اظہار کر کے مجھے بس کے اندر گھس جانے کی کامیابی ہوئی۔ چہرے پر برابر مسکراہٹ قائم رہی اور مجھے سواریوں سے اولڈ کیمپس جانے کا راستہ معلوم ہوا بعض لوگوں کو میری رنگت اور لب و لہجے سے پتا چلا کہ میں غیر ملکی ہوں ۔جب انہیں معلوم ہوا میں ایرانی ہوں تو احمدی نژاد زندہ باد کے نعرے شروع ہونے لگے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے صدر کی پاکستان میں اتنی مقبولیت کہاں سے ہوئی ان سے وجہ استفسار کیا انہوں نے جواب دیا احمدی نژاد نے امریکہ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے اور ہمیں بھی ایسا صدر چاہیے جو امریکہ سے دو ٹوک بات کرے۔ جیل روڈ آ گیا مجھے بس سے اتر کر دوسری بس پکڑنی پڑی اور پوچھتے پوچھتے میں اولڈ کیمپس پہنچا۔ یونیورسٹی کے صدر دروازے سے داخل ہوا اور معصومانہ لہجے سے طالب علموں سے اورینٹل کالج جانے کا راستہ دریافت کیا۔ اورینٹل کالج کی درسگاہ آ گئی اور میں داخل ہو کر دو تین طالب علموں سے جو آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے مخاطب ہوا کہ شعبہء اردو کا دفتر کہاں ہے؟مجھے آگے جا کر معلوم ہوا یہ میرے کلاس فیلو ہیں جو کلاس سے غائب یہاں گفتگو میں مصروف ہیں۔ اشفاق رضا نے مجھے اردو ڈپارٹمنٹ کے دفتر میں لے جا کر اظہر صاحب کے سپرد کیا اظہر صاحب نے فی الفور مجھے کلاس میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سر مرغوب حسین طاہر کلاسیکی شعر و ادب پڑھاتے تھے۔ کلاس میں داخل ہو کر ایک اجنبی لڑکے کو جو کوٹ میں ملبوس تھا طالب علموں کے لیے حیرت کا سبب بنا وہ سب کے سب غور سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں پہلے سمجھ رہا تھا کہ ایم۔ اے اردو میں 10 کے قریب طالب علم پڑھ رہے ہوں گے لیکن کلاس میں تیس پینتیس کے قریب طالب علم تھے جو بڑی یکسوئی کے ساتھ لیکچر سن رہے تھے۔ بس میں نے کلاس کی آخری کرسی پر براجمان ہو کر لیکچر سننا شروع کیا۔سر مرغوب حسین طاہر کی آواز تو اونچی ضرور تھی لیکن مجھے تمام فقرے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ میرے پاس سونی ایرکسن کا موبائل تھا اسے ریکارڈ پر لگا کے لیکچر ریکارڈنگ شروع کی جو بعد میں اپنے کمرے میں  جا کر غور سے سننا تھا۔ لیکچر ختم ہوا اپنے ہم جماعتوں سے سلام دعا ہوا اور انہوں نے مجھے اپنے اپنے نوٹس دینے کا وعدہ کیا میں غالبا سیمسٹر کے عین وسط میں لاہور پہنچا اور اگلے ہفتے کو میڈ ٹرم کے لیے بھی تیاری کرنی تھی۔ میرے پاکستانی کلاس فیلو مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ میں نے تہران یونیورسٹی سے بی اے آنرز کیا تھا۔ میر تقی میر، مومن، غالب اور دوسرے کلاسیکی شعرا کے بارے میں مجھے کافی معلومات تھیں لیکن جس دھنگ سے مرغوب حسین طاہر کلاس میں اردو کے اشعار زبانی یاد تھے مجھے حیرت ہوئی اور اشعار یاد کرنے کا بھی میں نے فیصلہ کیا۔ میرے کلاس کے لڑکے آپس میں پنجابی میں گفتگو کرتے تھے اور میری ان کی اتنی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کلاس کے فورا بعد یونیورسٹی کی بس پکڑ کر اپنے ہاسٹل پہنچا۔ پتا چلا ہاسٹل انتظامیہ نے روزنامہ جنگ، نوائے وقت اور انگریزی اخبار ڈاون نیوز کا اہتمام کیا ہے جسے ہر وقت آپ آسانی اور سہولت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ ہاسٹل کے لڑکوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ آپ اردو اخبار پیسے دے کر اپنے کمرے میں منگوا سکتے ہیں۔ تو اگلے روز سے میں نے جنگ اور نوائے وقت کے اخبارات منگوا لیے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ پاکستان کے اندرونی حالات اور حالات حاضرہ کے حوالے سے واقفیت ہوئی، ساتھ ساتھ اردو زبان کی  وہ خامیاں دور ہوتی جا رہی تھیں جو مجھے بولتے وقت ستاتی رہیں۔ البتہ پنجابی زبان سمجھنے کی بھی خواہش تھی کیونکہ جہاں کہیں مجھے اس زبان سے واسطہ پڑتا تھا اور مارکیٹ جاتے وقت خریداری اور رکشہ لیتے وقت پنجابی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ مجھے غروب اور رات کے وقت ہاسٹل کے چوکیداروں سے بیٹھ کر پنجابی سننے کی فرصت ملتی۔ پہلے یہ الفاظ ( کتھے-تسی- منو-اتے- اتے) کے الفاظ سمجھ میں آ گیا اور جہاں کوئی فقرہ سمجھ نہیں آیا تو مجھے ( منو کی پتا) کا فقرہ بولنا تھا۔ چوکیدار، مالی، درزی، دھوبی سے پنجابی کی پریکٹس ہوتی تھی اور یوں پنجابی کی سمجھ بوجھ آ ہی گئی لیکن اردو کی وجہ سے مجھے پنجابی زبان میں بولنے کی زیادہ مشق نہیں کی کیونکہ کہیں ڈر تھا کہ اردو زبان سیکھنے کی راہ میں خلل نہ پڑے۔

جس ہاسٹل میں میں رہائش پذیر تھا اس میں غیرملکی سمیت پاکستانی طلبا بھی رہتے تھے۔ ان غیر ملکی طلبا میں جو اکثر پنجاب یونیورسٹی کے فارمیسی ڈپارٹمنٹ میں داخل تھے ایران، نیپال ، سوڈان، صومالیہ، یمن، شام اور فلسطین سے تعلق رکھتے تھے مجھے یاد ہے آذربائجان سے بابک نامی ایک لڑکا بھی ہاسٹل میں رہتا تھا جس سے ہماری دوستی تھی۔ افریقی اور عرب ممالک سے آئے ہوئے یہ لڑکے بیشتر سیاہ فام تھے اور یوں سمجھ لیجئے ہم حبشی لمبوترے لڑکوں کے نرغے میں تھے۔ یہ تو ذاتی طور پر ہاسٹل میں آوارہ پھرتے تھے اور جب ان کی طبیعت خوش ہوتی تو ڈپارٹمنٹ سے ہو کے آتے اور یوں ان کی طبیعت کی سستی دور ہوجاتی۔ ہاسٹل میں شور شرابہ انہی حبشیوں کی وجہ سے ہوتی اور باقاعدگی سے پنجگانہ نمازوں کے پابند تھے اور مسجد کی صف اول میں کھڑے ہو کر واجب فرائض بجا لاتے۔ مسجد کی لاوڈ اسپیکر سے پانچ وقت کی اذانیں حسین و جمیل نمازیوں کی سریلی آواز سے سننی پڑتی تھی اور وہ بلاناغہ اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے اور ان کی طبیعت سے کافی شگفتگی صادر ہوتی۔ حبشیوں سے میری بس محمد بدرالدین سے جو سودان سے تھا گہری دوستی تھی اور وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو سے مجھ سے گفتگو کرتے اور یہ میرا ہمسائہ بھی تھا۔ جب سے پاکستانی لڑکا اعلی تعلیم کے سلسلے میں باہر ملک گیا تو اس کا کمرا حبشیوں کے قبضے میں آیا اور میری شامت آئی۔ یہ تو دن کو دیر تک سوتے اور رات کو دیر تک جاگتے اور تاش کھیلنے میں مصروف تھے بیچ میں اونچی عربی زبان میں آپس میں لڑتے جھگڑتے اور یوں میری نیند انہی نامراد لوگوں کی وجہ سے حرام ہوتی اور ان سے رہائی کا کوئی راستہ نہیں تھا دو تین بار ان سے گلہ شکوہ کیا جب کوئی افاقہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر مقیت جاوید سے جو ہاسٹل سپریٹنڈنٹ تھے ان کی شکایت لگا دی بالاخر ان کے کمرے کی الاٹمنٹ ختم کرادی اور یہ کمرا بعد میں میرے ایرانی دوست کیومرث دہدار کے حصے میں آیا اور یوں مجھے ان سے رہائی ملی۔ غیر ملکی طالب علموں میں سے نیپالی طالب علم کافی محنتی اور ذہین تھے یہاں تک کہ اجے نامی لڑکے نے فارمیسی ڈپارٹمنٹ میں اول آیا اور پنجاب یونیورسٹی نے اسے گولڈ میڈل سے نوازا ان سے میری اچھی دوستی تھی اور اچھی خاصی اردو بولتے تھے۔

ہاسٹل میں کئی ایسے لوگ تھے جن سے میری جان پہچان تھی لیکن شروع ہی سے جن شخصیت سے میری دوستی بنی اور آجکل بھی ان سے رابطے میں ہوں وہ ڈاکٹر محمد قاسم ( اوپن یونیورسٹی اسلام آباد) تھے یہ خود بھی مرزا غالب کے شیدائی تھے اور اس وقت کلام غالب کے انگریزی تراجم پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے تھے۔ قاسم صاحب نہایت نیک دل ، مہمان نواز اور شفیق تھے۔ ان سے ڈاکٹر وفا یزدان منش کی وساطت سے آشنائی ہوئی دراصل یہ ڈاکٹر صاحبہ کے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ یوں کہیے قاسم صاحب کا کمرا نمبر 116 میرا دوسرا کمرا ہوا کرتا تھا جب کہیں مجھ پر وطن سے دوری کی اداسی چھا جاتی تو قاسم صاحب کے کمرے میں گھس کر انہی کی صحبت میں تمام پریشانیاں ختم ہو جاتیں اور ان کے پاس موجود اردو کے کلاسیک گانے محمد رفیع اور جگجیت سنگھ کے سنتے اور یوں طبیعت بحال ہو جاتی۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ فارسی گانوں کی پریکٹس ہوتی جو وہ شوق سے دہراتے۔ میرے علاوہ طاہر اقبال، مولوی اشفاق اور آذربائجانی لڑکا بابک ان کے کمرے کے مستقل مہمان تھے وہ خوش روئی اور نہایت مہربانی سے پیش آتے اور ساتھ ساتھ تحقیقی امور کی طرف دھیان دیتے۔ کچھ عرصے کے لیے وہ ہاسٹل کی میس مینجر کے فرائض انجام دیتے تھے اور قاسم صاحب کی وساطت سے ہاسٹل کے باورچی بشیر صاحب سے میری آشنائی ہوئی۔ بشیر صاحب دراصل کشمیری الاصل پاکستانی تھے جو وہاں سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا انہوں نے لاہور میں بسیرا کیا۔ بشیر صاحب کو کشمیری، پنجابی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور مجھے ان کی زبان آموزی کی استعداد و صلاحیت پر رشک آتا تھا۔ یہ شاید واحد باورچی تھے جنہیں اتنی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پنجابیوں، ایرانیوں اور حبشیوں کی صحبت میں بیٹھ کر انہیں زباندانی کا ہنر آیا تھا۔ شروع شروع میں پاکستانی کھانے اور مسالہ جات سے بھرپور کھانے ٹھیک طرح سے کھاتا لیکن بعد میں مجھے معدے میں جلن محسوس ہوئی اور میں نے پاکستانے کھانے چھوڑ دیے۔ ہاسٹل میں میرے علاوہ ایرانی لڑکے شہرام، محمد، حسین ، آرین، رامین، امیر حسین اور مہدی بھی رہائش پذیر تھے جو فارمیسی کر رہے تھے۔ شہرام سے بات ہوئی تو بشیر صاحب کو میں نے سمجھانا شروع کیا اور یوں ایرانی میس کی شروعات ہوئی اور ایرانی کھانوں سے دوزخ شکم کو بھر دیا۔ بشیر صاحب میں نہایت عاجزی اور انکساری تھی اور انہیں اردو کے پرانے گانے نہایت پسند تھے اور ان کا محقر کمرا اردو گانوں کے ڈیسکوں سے بھرا پڑا تھا جو وہ گراموفون پر لگا کے سنتے اور یوں دور ماضی کی یادیں تازہ ہوتیں۔ ایران کی مستقل واپسی پر پتا چلا کہ بشیر صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔

میں نے پندر نومبر 2007   پاک سرزمین پر قدم رکھا اور  عنفوان جوانی کے چھے برس اسی سرزمین کے گہوارے میں گزر گئے۔ اورینٹل کالج کی درسگاہ میں مجھے  ایم- اے اردو کرنے کی پہلی سیڑھی پر قدم  رکھنا تھا ۔ ایم- اے اردو کی اس کلاس میں   دس کے قریب لڑکے اور باقی لڑکیاں تھین جنہوں نے پاکستانی  مہمان نوازی   کی رسم خوب نبھائی اور ان عزیزوں کی یادیں تا ابد میرے ذہن  میں  ثبت ہیں۔ ہماری کلاس میں عمران علی عمران  ، اشفاق رضا، ظفر اقبال اور سدرہ افضل کی طبیعت میں  اردو شعر و شاعری کی استعداد موجود تھی اور اس کلاس میں با صلاحیت لوگوں  کی کمی نہیں تھی۔ سجاد آصف، فہیم اختر، رانا محسن  ، عصمت حیات اور ہمارے پٹھان بھائی جس کا نام میں بھول گیا ہوں کی شرارتیں میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔  میں  سمسٹر کے عین وسط میں  لاہور پہنچا  اور میرے پاس  میڈ ٹرم پیپر  تیاری کرنے کے لیے نوٹس نہیں تھے، میں نے پیارے پاکستانی ہم جماعتوں سے اچھے اچھے نوٹس لیے البتہ   میرے پاس سارے نوٹس پڑھنے کا وقت نہیں تھا  اور میں نے ایک ہی اچھے نوٹس پر اکتفا کیا اور عالم عجلت میں  سارے میڈٹرم کے پیپر پاس ہوئے۔ پاکستانی طالب علموں کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ اکسٹرا شیٹس  لکھنے میں  مہارت رکھتے تھے ، عزیزو !  مجھ پر مایوسی غالب آ گئی تھی کہ ان لوگوں کے پاس اتنی معلومات ہیں اور میں  اتنا نکما اور اور  لاعلم ہوں۔ سجاد آصف کی اکسٹرا شیٹس لگانے میں  کافی مہارت حاصل تھی  مجھے آگے جا کر پتا چلا  جن سوالوں کے جوابات دو تین صفحوں  میں تحریر کرتا ہوں   یہ کفایت شعاری ہے اور جو دوسرے حضرات اکسٹر ا شیٹس لگاتے ہیں بس پیپیر ضائع کرنے کا مترداف ہے۔  سنہ 2007 میں ڈاکٹر  محمد سلیم ملک  اردو کے صدر شعبہ تھے  اور محترم ڈاکٹر محمد سلیم مظہر  اورینٹل کالج کے ڈین آف  فیکلٹی  تھے  اور ہماری  کلاسیں  عام طور پر اورینٹل کالج  کی دوسری منزل پر  ہوا کرتی تھیں جہاں  کبوتر آسانی سے  اڑ کر چبوترے کی چھت  میں بیٹھ  کر آرام  فرما رہے تھے اور   بلیاں  کلاس تک  پہنچ  جاتی تھیں  البتہ  یہ میں کہنا بھول گیا تھا کہ پاکستان میں بلیوں اور کتوں  کی  عزت  کی جاتی ہے اور ان بے زبان جانوروں کو لوگ ہرگز   ہراسان نہیں کرتے ۔ہاسٹل اور اورینٹل کالج میں چوہے  بالکل ناپید تھے  اور یہ سب ان بلیوں کی  نذر ہو جانے سے ان کی آبادی میں اتنی کمی آئی تھی کہ مجھے  ان عزیز  چوہوں  کی دیدار نصیب نہیں ہوئی۔   اورینٹل کالج کی عمارت کافی پرانی نظر آتی تھی اور مجھے یوں لگا کہ یہ عمارت انگریزوں کے دور میں بنی ہوگی۔ اس کی پرانی قدامت کے پیش نظر   اسے مشرقی زبانوں کے لیے  مختص کی گئی  تھی اور اس میں اردو، فارسی، عربی، پنجابی اور کشمیری زبانوں کی تعلیم دی  جاتی تھی اورینٹل کالج کی لائبریری  میں اردو، فارسی اور عربی  کتب ، رسائل اور مقالہ جات محفوظ تھے  اس لائبریری کی  ایک خصوصیت یہ تھی جس  کتاب کی ضرورت تھی  آپ کو  ان  سبز پگڑی  والے  بابا سے منگوانی تھی جنہیں کتابوں   کی نگہداشت اور ان کی  الماریوں  سے کافی واقفیت رکھتے تھے  بعض دفعہ  میں   پوری لائبریری  کا چکر لگاتا تو  مجھے کتاب نہیں ملتی اور مایوسی  ہوتی تو بابا جی  کو ایک چشم زدن میں کتاب ملتی۔ مجھے کئی عرصے بعد پتا چلا بعض طالب علم اپنی  من پسند کتاب الماری میں رکھی گئی کتابوں کے پیچھے بڑے اچھے سلیقے سے چھپاتے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے تو  وہ  اٹھا لیتے ہیں،  ابھی میں نووارد تھا اور ان چیزوں سے ناواقف بس   لاچاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اورینٹل کے دوسرے  حصے میں  ہندی، ترکی اور روسی زبانوں کی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔ میں نے ایران سے  ہندی بھاشا سیکھی تھی جب مجھے پتا چلا کہ  یہاں بھی ہندی زبان کی تعلیم  دی جاتی تھی تو میں نے بھی  اس کی فیس ادائیگی کے بعد کلاس میں شمولیت اختیار کیا۔ شبنم ریاض صاحبہ جن کے خاوند پاکستانی  تھے یہاں شعبے کی سربراہ او ر واحد  استاد تھیں۔ کلاس میں حاضری ہوئی تو پتا چلا میرے علاوہ  ایک ایرانی خاتون  محترمہ  وفا یزدان منش جو ایران میں میری استاد رہ چکی تھیں اور  ایک اور سینئر  ایرانی طالبہ لیلا عبدی خجستہ  پڑھ رہی ہیں البتہ اس کلاس میں میری ایک ایرانی ہم جماعت  معصومہ غلامی نے بھی بعد میں شمولیت اختیار کی۔ کلاس میں  دو پاکستانی لڑکے اور ایک میری سینئر  تنویر غلامحسین بھی پڑھتی تھیں ۔   میں نے ایران سے ہندی بھاشا ایک ایرانی استاد سعیدی صاحب سے  سیکھی تھی تو یہاں ہندی ڈپلومہ کرنے میں مجھے  اتنی دقت نہیں ہوئی اور میں اچھے  نمبروں سے پاس ہوا ۔  صبح اورینٹل کالج کی ایم ۔ اے اردو کی کلاسوں  سے سیراب ہوتا تو  سہ پہر کو  ہندی بھاشا کی  مشق  ہوتی۔ اب  اورینٹل کالج  سے ملحقہ بازاروں  انارکلی اور اردو بازار   سے خوب آشنائی ہوئی   یہاں تک کہ اردو بازار سے   نصابی کتابوں کی بھی خریداری ہوئی۔ انارکلی اور اردو بازار  پر ہمیشہ گاہکوں کا ہجوم تھا اور مجھے ان  کی تنگ و باریک گلیوں میں گھومنے  کا بڑا شوق محسوس ہوا۔ پاکستانی ثقافت اور زبان سیکھنے کے مواقع فراہم  تھے اور یوں ان گلیوں اور بازاروں    سے  آشنائی ہوئی۔  تنویر غلامحسین جو اردو زبان و ادب کے مشہور استاد غلام حسین ذوالفقار کی بیٹی تھیں  نے پاکستانی مہمان نوازی کی رسم سے بلد  ہندی کلاس میں شامل ایرانیوں کو  اپنے گھر  پر دعوت دی اور ہماری خوب   خاطر تواضع کی ۔ گھر پر روٹی  اور سموسے پکانے کے طریقے سیکھا دیے۔ ہندی شعبہ کی طرف سے قلعہ لاہور اور بادشاہی مسجد دیکھنے کے لیے ایک ٹرپ کا بھی اہتمام کیا گیا اور یہ سب  تنویر غلامحسین اور میڈیم  شبنم ریاض کی کوششوں سے ہوا۔ قعلہ لاہور کا دورہ کیا گیا تو وہاں سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کی زیارت کرادی گئی جسے گورمکھی زبان میں لکھی گئی ہے ۔ گرو گرنتھ کی کتاب زیارت کرنے کے لیے جوتے اتار دیے گئے اور بڑے احترام کے ساتھ ہم  یوں سمجھے   گوردوارے میں داخل ہوئے۔  تہران میں سکھوں کا بھی گوردوارہ بھی ہے لیکن مجھے ابھی وہاں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا سکھ برادری تہران میں بھی رہائش پذیر ہیں اور عام طور پر  یہ تجارت  اور کاروبار سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ان  کی رنگین پگڑیاں دیکھ کر  مجھ ہندوستان اور ٹیپو سلطان کی فلم یاد آتی ہے جسے فارسی میں اس کی ڈبنگ ہو کر  ایرانی  کی سرکاری ٹی وی سے بہت برسوں پہلے  نشر ہوئی اور بچپن  میں میں یہ فلم شوق سے دیکھتا تھا۔ سکھ یاترا کے بعد ہم مغل بادشادہ کی محل ، شیش محل، ایران خاص و عام و  غیرہ کی خوب سیر کی اور  یوں اردو ادب کا مشہور  و معروف ناول ڈرامہ  انارکلی کی کہانی یاد آئی۔ میں نے پاکستان میں بنی اس ڈرامے کی  فلم لاہور سے خرید کر اپنے پاس محفوظ کر رکھی ہے۔   قلعہء لاہور سے    بلند و بالا  مینار  پاکستان نظر آر رہا تھا  اور اندرون لاہور کے  دروازوں  مستی ، لوہاری، یکی، باٹھی موچی، ٹکسالی ، اکبری  و غیر کے ناموں کی   فہرست یاد کرنے کی  کوشش کی گئی۔ قعلہ ءلاہور سے فارغ ہو کر بادشاہی مسجد  کی طرف گامزن ہوئے تو  مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ  شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال جسے ہم ایرانی اقبال  لاہوری   پکارتے ہیں کے مزار پر حاضری ہوئی اور فاتحہ پڑھی۔ شاہ افغانستان کی تحفتاً بھیجی  ہوئی لوح کی بھی دیدار ہوئی اور علامہ  اقبال   کی بالاخر مزار مبارک کی بھی زیارت ہوئی۔ علامہ اقبال کے مزار پر حاضر دینے کے بعد مسجد بادشاہی کے احاطے میں داخل ہوئے جس کے صدر دروازے  پر   نبی کریم (ص) سے  منسوب  چیزیں  رکھی گئی تھیں  ان کی بھی دیدار ہوئی۔   بادشاہی مسجد کو دیکھ کر اصفہان میں  صفوی دور میں بنی ہوئی   شاہ عباسی مسجد کی یاد تازہ ہوئی     دونوں مساجد کی  بناوٹ میں مماثلتیں ضرور ملتی ہیں کیونکہ مغلیہ  اور صفوی دور حکومت   میں زمانی قرابت  آتی ہے۔ یہ تاریخی عمارات دیکھنے سے روح میں تازگی اور طراوت آ گئی۔

جاری ہے۔۔۔۔