ولیم لینگ لینڈ

یہ تحریر 2213 مرتبہ دیکھی گئی

(1331ء ۔ 1399ء) انگریز شاعر۔ کچھ پتا نہیں کہ “پیئرز پلومین” (ہلواہا) جو روایتی طور پر ولیم لینگ لینڈ سے منسوب ہے، کب اور کہاں لکھی گئی تھی۔ خود لینگ لینڈ بھی مجہول الاصل ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ نظم اس کی تصنیف ہے۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ لینگ لینڈ کا تعلق مغربی انگلستان سے تھا۔ اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ نظم طویل غیر مقفٰی ہم حرفی بحر میں لکھی گئی ہے اور یہ بحر اور اسلوب چودھویں صدی میں زیادہ تر مغربی انگلستان ہی میں مقبول تھی۔ نظم کو قبولِ عام  حاصل تھا کیوں کہ چودھویں اور پندرہویں صدی کے متعدد مخطوطے ملتے ہیں اور یہ سولھویں صدی میں کئی بار طبع ہوئی تھی۔

“پیئرز ہلواہا” تین الگ الگ صورتوں میں دستیاب ہیں۔ انھیں محققین نے ا، ب اور ج کا نام دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نظم کے یہ تینوں روپ 1360ء اور 1385ء کے درمیانی عرصے میں قلم بند کیے گئے تھے۔ “ا” قدیم ترین اور مختصر ترین ہے۔ اس میں تقریباً ڈھائی ہزار مصرعے ہیں۔ “ب” پندرہ سال بعد کی تحریر ہے۔ اس میں “ا” کے متن میں بڑے پیمانے پر ترمیم کی گئی ہے اور “مراحل” کے نام سے کئی نئے باب بڑھا دیے گئے ہیں۔ یوں اس کی ضخامت تگنی ہو گئی ہے۔ “ج” دس سال بعد کا ہے۔ اس میں ضخامت البتہ”ب” جتنی ہی ہے۔ اس بارے میں محققین میں خاصا اختلاف ہے کہ آیا ان تینوں متنوں کو ایک ہی شاعر کا کلام سمجھا جائے یا نہیں۔ کسی فیصلے پر پہنچنا  مشکل ہے۔ بس اتنا ہے کہ پہلے دو متنوں کے مقابلے میں “ج” میں شاعری کا معیار قدرے پست ہے۔ اس لیے خیال آتا ہے کہ شاید یہ کسی اور شاعر کی تصنیف ہو۔

نظم کی غیر مقفٰی ڈھیلی ڈھالی اور لہراتی بحر وہی ہے جسے چودھویں صدی کی ایک اور طویل نظم “سر گے وین اینڈ واگرین نائٹ” کے شاعر نے بھی استعمال کیا ہے۔ زبان میں آرائش پر توجہ کم ہے اور سیدھی سادی عبارت سے ذاتی جذبات کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔ شاعر اپنے عہد کے مذہبی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے بارے میں فکرمند نظر آتا ہے اور وہ انگلستان کی دینی اور معاشرتی صورتِ حال کے ان اجزائے ترکیبی کا خاص طور پر ذکر کرتا ہے جو اس کے خیال میں اصلاح اور تنقیح کے محتاج ہیں۔ نظم میں عامی اور دینی روایتوں کی خصوصیات یکجا ہو گئی ہیں اور ان دونوں روایتوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ انھیں کسی فردِ واحد کے تجربات یا خیالات کا ترجمان نہیں سمجھا جا سکتا۔ جو شعور یہاں کار فرما ہے وہ بڑی حد تک اجتماعی ہے۔

شاعر نے گیارہ خوابی مکاشفوں کے ذریعے سے دکھایا ہے کہ اگر الوہی رہ نمائی میسر نہ ہو تو انسان عالمِ ناسوت میں لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پہلے مکاشفے میں اسے دنیا یوں نظر آتی ہے جیسے جنت اور جہنم کے درمیان ایک سہانا میدان ہے جہاں ہر طرف لوگ ہی لوگ ہیں۔ ہلواہے، راہب، سوداگر، فقیر، مسخرے، زائر اور پادری سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ پیئرز ہلواہا، جو عام آدمی کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے، اس عاصی معاشرے کو توبہ استغفار کا سبق دیتا ہے تاکہ وہ راہِ راست پر آ کر حق کی تلاش میں نکل پڑیں۔ باقی مکاشفے اسی تلاشِ حق کے مراحل ہیں اور پیئرز، عالم خواب میں، ایک زائر کی طرح انھیں طے کرتا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب ہوتے دیکھتا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰؑ دوبارہ جی اٹھنے کے بعد غیر مسیحی اتقیاء اور بچوں کی ارواح کو جوارِ دوزخ سے نجات دلاتے ہیں، کلیسائے مقدس کی تعمیر ہوتی ہے اور دجال خروج کرتا ہے۔ یہاں انسانی فطرت حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت میں مدغم ہونے کے بعد خدا اور اس کے بندگان کے دشمنوں کے خلاف صف آرا ہو کر عظیم مسیحی فتح میں حصہ لیتی ہے۔ اور ہم حضرت عیسیٰؑ کو دیکھتے ہیں کہ وہ پیئرز ہلواہے کا روپ دھارے، مسلح نائٹ بن کر، خیر و شر کے معرکے میں شرکت کرتے ہیں۔ شاعر نے نظم کو بڑی استادی سے ختم کیا ہے۔ ان مکاشفوں کے بعد جب شاعر کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ وہی دنیا ہے اور خیر و شر اسی طرح دست و گریباں ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ خوابی تمثیل کا یہ استعمال نیا ہے۔ عشقیہ خوابی تمثیلوں میں قصہ خراماں خراماں آگے بڑھتا ہے اور یہاں کلام میں ایسی پھرتی اور گہماگہمی ہے جیسے ہر کوئی زور شور سے اپنے کام میں منہمک ہو۔ ازمنہ وسطیٰ کے انگریزی ادب میں اس طرح کی کیفیت کہیں اور نہیں ملتی۔ نظم کا بڑا عیب یہ ہے کہ شاعر اپنے مواد پر ٹھیک طرح قابو نہیں پا سکا۔ اجزا بکھرے بکھرے اور سیال صورت میں ہیں۔ فنی وحدت سے محروم ہونے کے باوجود نظم کا مرکزی خیال اوجھل نہیں ہوتا۔ حق، نجات اور خدا کی یہ تلاش ان مکاشفوں میں مختلف سطحوں پر جاری رہتی ہے اور انسانی زندگی اور فکر کا ہر پہلو اس جستجو کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ نظم میں مکالمے یا مناظرے کا انداز اپنایا گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے بہت سے وعظ اکٹھے کر دیے گئے ہوں۔ پند و نصائح کی اس فراوانی سے نظم ان مل بے جوڑ ہو گئی ہے۔ “پیئرز ہلواہا” کا بنیادی محرک چوں کہ مذہبی جذبہ ہے اس لیے اسے صرف جمالیاتی یا فنی کسوٹی پر جانچنا جائز نہیں۔ یہ ایک عالمانہ، ناصحانہ اور دینی تصنیف ہے جس میں شاعری سے تبلیغ اور تزکیے کا کام لیا گیا ہے۔ شاعر کو یوں تو دنیا سے کوئی ہم دردی نہیں جو اسے ہر طرح کی برائیوں، بالخصوص جلبِ زر کی ہوس، میں مبتلا نظر آتی ہے لیکن وہ مسکینوں اور خسہ حالوں کا غم خوار ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ان پلید لوگوں کی اقدار کا، جو سراپا خود میاں فضیحت دیگراں را نصیحت ہیں، حقانیت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس کے خیال میں بدترین بدچلنی وہ ہے جب معاشرے کے بہترین افراد بدچلن ہو جائیں۔ اس رویے کے پیشِ نظر اس امر پر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ 1381ء میں کسانوں کی بغاوت کے دوران میں “پیئرز ہلواہا” کے کتنے ہی مصرعے انقلابی سیاق و سباق میں استعمال کیے گئے۔