رات کے حسیں مناظر کو
غور سے تکتا ہوا چاند
ستاروں کو جگمگاتے ، جھلملاتے
مل کر دُبِ اکبر و اصغر بناتے
جب دیکھتا ہے تو۔۔
اپنی تنہائی کے خیال سے رو پڑتا ہے
تو وہ چرخا چلاتی صدیوں پرانی
چاند کی بڑھیا
بے چین ہو کر ۔۔۔
تیزی سے چرخے کی ہتھی گھماتی ہے
اس کا آنچل ذرا سا سرکتا ہے
اور سفید زلفوں سے شفاف چاندنی
ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے
اس وقت جب میں بڑھیا کے چہرے کو
ذرا غور سے دیکھتی ہوں تو
دادی اماں سے بچپن میں سنی ہوئی
شہزادی، فقیر اور کالے کتے والی
وہ کہانی بہت یاد آتی ہے
پھر ایک کسک سی دل میں اٹھتی ہے کہ
اب تک اس لوک کہانی کے کرداروں نے
اپنے بھیس بدل لیئے ہوں گے
شہزادے کی تلوار بے نیام نہیں ہوتی ہوگی
شہزادی کا کالا جادو کسی پہ نہیں چلتا ہو گا
یونہی خیال آتا ہے کہ کسی روز
ہر دور کے رنگ دیکھتی بڑھیا سے پوچھوں
زمانے کے بدلتے موسموں نے
کہانی اور کرداروں کو
کس قدر بدلا ہے؟
کیا اب بھی کسی گھر میں ضد کرتے بچے
دادی اماں سے کہتے ہیں
”کالے کتے“ والی کہانی سننی ہے
اسی طرح صدیوں پرانے چہرے سے
میرے تصورات الجھتے رہتے ہیں
نہ بڑھیا کا سوت ختم ہوتا ہے
نہ میرے خیالوں کی ڈور سلجھتی ہے
مگر آہستہ آہستہ میری آنکھیں
نیند سے بوجھل ہو جاتی ہیں
نظم
یہ تحریر 567 مرتبہ دیکھی گئی