نظم

یہ تحریر 788 مرتبہ دیکھی گئی

گاؤں میں ہر سال ہونے والی گندم کی کاشت نے
مجھے سکھایا ہے
نصیب کا لکھا کیسے ملتا ہے ؟
پہلے پہل زمیندار فصل پروان چڑھاتا ہے
بہت محنت سے بیج بوتا ہے
وقت پر ہل چلاتا ہے
پانی لگاتا ہے
فصل جب پک جاتی ہے تو
گاؤں کی مزدور عورتیں اور مرد
مل کر ٹولیاں بنا لیتے ہیں
اور فصل کاٹنے پر کمر بستہ ہو کر
کھیتوں میں قدم جما لیتے ہیں
ہر ٹولی فصل کو برابر بانٹ کر کاٹتی ہے
اور جو گندم معاوضے میں ملتی ہے
آپس میں برابر بانٹتی ہے
پھر ایک تھریشر والا
مشین کے ذریعے دانے اور بھوسا الگ کرتا ہے
زمیندار اس کا معاوضہ گندم دے کر بھرتا ہے
پھر باقی گندم زمیندار کے ڈیرے پہ لا کے رکھ دی جاتی ہے اور
اور ان دھونے والوں کو بھی معاوضے میں گندم دی جاتی ہے
گندم کے موسم میں
مزدور طبقہ سال بھر کی گندم اکٹھی کرتا ہے
پِسوا کر ، آٹا بنا کر
سارا سال استعمال کرتا ہے
مگر۔۔۔۔
جو سخت موسم سے گھبرا کر
فصلیں کاٹنے میں حصہ نہیں لے پاتا ہے
وہ خاندان سال بھر کیلئے بھوکا رہ جاتا ہے
کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے
کبھی کسی سے مانگنے جاتا ہے
یونہی ہم لوگوں کو نصیب کا لکھا ملتا ہے
مگر
اس کیلئے بھی تپتی دھوپ میں جلنا پڑتا ہے
کبھی ہم زمیندار کی مانند فصل پروان چڑھاتے ہیں
کبھی فصل کی کاشت کو نصیب کا لکھا پاتے ہیں
محنت سے اگائی گئی
دیانت سے کاٹی گئی فصل
فکروں سے بے نیاز کر دیتی ہے
مگر
ہم لوگ کبھی قدرت کی تقسیم سے راضی نہیں ہوتے
ہمارے حصے میں فصل کی کاشت آ جائے تو
ہم لوگ سخت موسم کے تھپیڑوں سے گھبرا جاتے ہیں
حسد کی آگ میں جلنے لگ جاتے ہیں
کاٹنے والے کی بجائے اگانے والے کیوں نہ ہوئے
یہ سوچ کر فصل اجاڑ آتے ہیں
اور پھر
محروم کرنے والے ہم لوگ عمر بھر کیلئے
محروم رہ جاتے ہیں
کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں
کبھی کسی سے مانگنے جاتے ہیں !!!