ایک حبس زدہ شام کا واقعہ ہے

یہ تحریر 730 مرتبہ دیکھی گئی

سورج ڈھلنے سے پہلے
خوابوں کا ایک تاجر
میرے دروازے پہ آیا تھا
اور کچھ یوں صدا لگائی تھی
اے تنہائی کے مارے لوگو !!
جینے کے واسطے سہارے خرید لو
پھول’ روشنی ‘ تتلیاں’ جگنو
سب ہیں میری دسترس میں
اگر چاہو تو یہ سارے خرید لو
سحر زدہ سی ہو کر میں
حیراں پریشاں دروازے پہ آئی تھی
مجھے دیکھ کر کہنے لگا
خوبصورت ہیں تمہاری آنکھیں
مگر کتنی ویران ہیں
یہ دیکھو میری اس سفید پٹاری میں
دھنک رنگ سے خواب ہیں
لو آنکھوں میں سجا کر دیکھو
یہ دھنک تمہاری آنکھوں میں اچھی لگے گی
دیکھنا تو خوب جچے گی !!!
جب قیمت پوچھی میں نے تو
پر اسرار سا ایک قہقہہ لگا کر
بولا !
ابھی تو کچھ نہیں مگر
اگلے برس اوائل بہار کے دنوں میں آؤں گا
اور ایک سال کی قیمت لے جاؤں گا
پھر چاہنا تو خواب اگلے برس کیلئے رکھ لینا
یا لوٹا دینا
پہلے پہل تو دھنک رنگوں نے
آنکھوں کو خوب روشن کیا
مگر
پھر خواب آنکھوں پر بوجھ بننے لگے
ان کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں
میری راتوں کی نیند قربان ہونے لگی
زمانے کے سرد و گرم سے بچاتے بچاتے
میں لمحہ لمحہ ہلکان ہونے لگی
وہ تاجر فریبی تھا !!!
دھنک کے رنگ سارے کچے نکلے
جب جب آنکھ سے پانی برسا
خواب آنکھوں سے بہنے لگے
رنگ چہرے پہ جمنے لگے
اور جو بچے تھے
چشمِ تر میں منجمند ہو گئے
ایک سال کا وعدہ کرنے والا
وہ تاجر پھر کبھی نہیں آیا
ان گزرے برسوں میں میری تو شکل ہی بدل گئی ہے
خوابوں کو زندہ رکھنے کی خواہش میں
آنکھیں مر گئی ہیں
اب لوگ جو دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ سے کہتے ہیں
کتنے حسیں رنگ ہیں تمہارے چہرے پر
مگر یہ بتاؤ
آنکھیں کہاں گئی ہیں ۔۔۔۔۔؟!

آمنہ اشفاق کی دیگر تحریریں