کیاناول مشکل دور سے گزر رہاہے؟

یہ تحریر 353 مرتبہ دیکھی گئی

بازار بھاؤ کو دیکھ کرتو ایسا نہیں لگتاکہ ناول مشکل دور سے گزر رہاہے۔لمز کی ایک ادبی گفتگو میں مجھے ہندوستانی ناول پہ کچھ بولناتھا۔آدھے گھنٹے کی گفتگو ہندوستانی ناول کے ساتھ کیاانصاف کر سکتی تھی۔البتہ جن ناولوں کے ساتھ دانستہ یاغیر دانستہ طور پر ناانصافیاں ہوئی ہیں ان کی طرف اشارہ ضرور کیاجاسکتاتھا۔ناصر عباس نیر نے یقینا کچھ سوچ کر مجھے یہ موضوع دیاہوگا جو طلبہ اور سامعین وہاں موجود تھے انہیں یقینا یہ جاننے کااشتیاق تھاکہ ادھر گزشتہ برسوں میں کس نوعیت کے ناول یہاں لکھے گئے؟۔ابتدامیں میں نے یہ بات کہی تھی کہ کوئی ایک ناول یاایک ناول نگار کااسلوب اپنے عہد کی حسیت کو سمیٹنے سے قاصر ہے۔ناصر عباس نیر نے بورخیس کے حوالے سے شاید لکھاتھاکہ ناول ایک ہی اسلوب اور ایک ہی فکر سے نہیں پہچاناجاسکتا۔معلوم نہیں کہ یہ بات پہلی مرتبہ کس نے کہی تھی کہ ہر بڑے فن کار کے پاس ایک ہی کہانی ہوتی ہے اور ایک ہی اسلوب ہوتاہے۔اس خوبی کی طاقت کاراز تو اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ تخلیقی ذہن اپنی حدِ پروازسے واقف ہے۔وہ کسی نامانوس علاقے کی طرف جانا نہیں چاہتا۔مانوس علاقے کو ناموس بنا دینابھی بڑاکام ہے۔ کوئی نامانوس علاقہ کسی اہم تخلیق کار کے یہاں جومانوس ساہوتاجاتاہے تو اس کی وجہ تجربے کی پھیلتی ہوئی دنیاہے۔وہ تجربہ جو پہلی سطح پر بہت ذاتی قسم کاہوتاہے وہ بھی نامانوسیت کے پردے سے نکل آتاہے۔
کوئی ناول نگار کیوں کر ہمیشہ ایک ہی طرح سے سوچ سکتاہے اور ایک ہی طرح سے لکھ سکتاہے۔کیااسے ناول نگار کی کمزور ی کہاجائے یااس کی طاقت۔ ہر بڑے فن کار کے پاس ایک ہی کہانی اور ایک ہی اسلوب ہوتاہے۔زندگی سے بڑی کوئی کہانی کیاہوگی۔لیکن اسے بڑے سیاق میں دیکھنے کاشعور تاریخ عطاکرتی ہے۔کیایہ کہناغلط ہوگاکہ تاریخ ہی ناول کے سیاق کو بڑابناتی ہے۔تہذیب،تاریخ کے ساتھ مل کر تاریخ کو بھی تہذیب کے دائرے میں داخل کرلیتی ہے۔تاریخ کاتہذیب بن جانا اور کبھی تہذیب پر تاریخ کاگمان ہونایہ نظر بھی فکشن نے ہمیں عطا کی ہے۔ یافکشن نے ہمیں یہ شعور بخشاہے کہ تاریخ اور تہذیب کو کچھ اس طرح بھی گلے ملتی ہے۔ یہ دیکھنا پہلی سطح پر تکنیکی اور سائنسی عمل ہوسکتاہے مگر فکشن دیکھنے کے اس عمل کو تکنیکی،سائنسی اور تاریخی رہنے نہیں دیتا۔اس کے باوجود اس میں کچھ ایسے نشانات ہوتے ہیں جو اسے تاریخی سے زیادہ نوتاریخی بنادیتے ہیں۔پتہ نہیں کیوں رفتہ رفتہ ناول نگاروں کے یہاں تاریخ کایہ شعور کم ہوتاگیا۔بلکہ بعض لکھنے والوں نے لفظ تاریخ سے اپنی بیزاری کااظہار بھی کیا۔اردو ناول کے سیاق میں جو چند بڑے نام ہیں انہیں بھی نگاہ کم سے دیکھنے کاحوصلہ پیداہوگیاہے۔اس کی وجہ ان بڑے ناول نگاروں کی فکری اور تخلیقی لکیر ہے جسے ہزار قسم کے وجودی اور نفسیاتی ناول چھوٹانہیں کر سکتے۔اردو میں پہلاوجود ی اور نفسیاتی ناول کس نے لکھااس میں بہت سے طالب علموں کی طرح میری بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وجودیت اور نفسیات کے مسائل سے مجھے کوئی دلچسپتی نہیں ہے۔ان مسائل کے بارے میں جو تھوڑاسامیرامطالعہ ہے اس کایہ تقاضاہر گز نہیں کہ ہم کسی اوسط درجہ کے لکھنے والے بلکہ اوسط سے بھی کم درجہ کے لکھنے والے کی عزت افزائی کریں۔کوئی ناول چاہے کسی بھی مسئلے کااظہار ہو اسے کم سے کم اپنے طور پر بلکہ اپنی لسانی ساخت کی بناپر ناول ہو ناچاہیے۔باہر سے کوئی اصطلاح اسے کہاں تک سہارادے سکتی ہے۔ناول نے توہمیں یہ سکھایاتھاکہ ہم اپنے فکروخیال کی دنیاکو محدود نہ کریں اور یہ دیکھیں کہ زندگی کی بے کرانی کیاہوتی ہے۔ایک ناول جس کاکینوس چھوٹاہے وہ بھی اپنی حد میں رہ کر قاری کو وہ نہیں رہنے دیتاجو وہ پہلے تھا۔ناول کی تنقید اور ناول کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ناول خود اپنی بنیادوں پر کھڑاہوکر وقت کے ساتھ بھی ہوتاہے اور وقت کو عبور بھی کر لیتاہے۔اردو کے چند اہم ناولوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو وہ کتنی مختصر یاکتنی لمبی ہوگی اس کاتعلق بھی فہرست بنانے والے سے ہے۔ ناول کی دنیابہت وسیع وعریض ہے اس کایہ مطلب نہیں کہ ناول کے نام پر جوکچھ شائع ہورہا ہے ہم اسے ناول کی فہرست میں شامل کر لیں۔ایک اچھاناول نگار جب داخلی اعتبار سے غیر مطمئن ہوتاہے تو وہ کچھ ایسے وسائل اختیار کرتاہے جو اسے موضوع گفتگو بنائے رکھنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ ناول کاکوئی ٹکڑا،کوئی جملہ درمیان سے نکال کر اچھالنے والے کب تک اور کہاں تک ناول کو زمین سے بلند کرتے رہیں گے۔یوں دیکھیں توناول کازمین سے لگ کر چلنا اس کی طاقت ہے نہ کہ کمزوری۔مگر یار لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ناول کو اپنی جگہ فطری طورپر بنانے کا موقع دیں۔یہ زمانہ ناول اور ناول نگار دونوں کے لیے صبر کابھی ہوتاہے اور آزمائش کابھی۔یہ جگہ جو فطری طورپر ناول کے لیے بنتی ہے کوئی اس کی جگہ لے نہیں سکتا۔بہت سے نوبیل پرائز حاصل کرنے والے ناول نگاروں کو بھی زمانے نے ایک حد تک یابڑی حد تک فراموش کر دیا۔تو یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی انعام کسی تخلق کو ہمیشہ کے لیے زندہئ جاوید بنادے۔دریدانے یوں تو نہیں کہا تھا کہ جو کچھ ہے وہ متن کے اندر ہے۔اس کایہ مطلب نہیں تھا کہ متن سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔یہ جو متن کے اندر کی دنیاہے وہ اس کی نگاہ میں لسانی ساخت تھی لیکن زبان کی گہری ساخت قاری کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرتی ہے اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی گئی۔ناول کی ساخت زبان کی گہری ساخت ہے یانہیں اسے اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے کتنی بار ناول کی قرأت کی ضرورت ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کاجواب کسی ایک ناول کی روشنی میں نہیں مل سکتا۔محمد حسن نے اپنے مضمون ’ناول کافن‘میں اس بات کاجواب دیاہے کہ کسی اچھے ناول کو کم از کم دو مرتبہ ضرور پڑھناچاہیے۔ناول کے فن پر یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کی بازدید کی ضرورت ہے۔ناول کاقاری قرۃ العین حید ر، عبداللہ حسین،انتظار حسین اورشوکت صدیقی کے ناولوں کے قاری سے اگر مختلف ہے تواسے وقت کی گردش کہناچاہیے۔گردش زمانہ کس طرح ناول کو پامال کرنے کی بجائے اسے گردش میں رکھتاہے اس کی مثال اردو کے ان بڑے ناول نگاروں کے ناول ہیں۔میں یہ کسیے کہہ سکتاہوں کہ یاکوئی کیسے کہہ سکتاہے کہ اردو ناول کو انہی ناول نگاروں کے سائے میں ناول نگاری کاسلسلہ جاری رکھناچاہیے۔لیکن یہ کہنا تو کسی طرح مناسب نہیں بلکہ تاریخی اور ادبی سمجھ کافقدان ہے کہ کب تک انہی ناول نگاروں کاہم ذکر کرتے رہیں۔تقسیم کاسانحہ تاریخ کے جس اندوہناک واقعے سے وابستہ ہے اس کابار بار ذکر کرنا ایک طرح کی ذہنی آسودگی ہے۔مجھے حیرانی ہوتی ہے جب لو گ تاریخی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بار بار وجود کے مسئلے کو زیر بحث لے آتے ہیں۔کیاقرۃ العین حید ر،عبد اللہ حسین اور انتظار حسین کو وجودیت اور نفسیات سے کسی طرح کی شناسائی نہیں تھی؟۔وحید اختر نے ایک طویل مضمون جو آگ کادریاپرلکھاتھااس کاتعلق وجودی مطالعہ سے تھا۔پتہ نہیں وجودیت کو کیاسمجھا گیا۔ اداس نسلیں کی اشاعت کے پچاس سال مکمل ہونے پر شمیم حنفی کی صدارت میں ایک جلسہ ہورہاتھاتو اس موقع پر بھی شمیم حنفی نے نعیم کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔وہ بہت پہلے ہی نعیم پر ایک مضمون لکھ چکے تھے جسے بلراج مین را نے شعور میں شائع کیا۔کیااس میں کوئی وجودیت نہیں تھی۔کیاوجودیت تاریخیت سے اس قدر گریزاں رہتی ہے۔یہ اصطلاحیں میں نہیں کہتاکہ پرانی ہو گئیں ہیں۔لیکن یہ ضرور کہوں گاکہ آج بھی ہمارے بعض لکھنے والے انہی اصطلاحوں کی زد میں ہیں بلکہ ادبی معاشرے کو وہیں لے جاناچاہتے ہیں جہاں سے وہ زمانے کو ڈراسکیں۔وجودیت اور تاریخیت کو الگ الگ دیکھنے والے ناول کو اسی طرح اپناتختہئ مشق بناتے رہے ہیں۔ادھر مجھے HAN SHAOGONG کے ناول A DICTIONARY OF MAQIAO کو پڑھنے کاموقع ملا۔ناول نگار نے لغت کی شکل میں ناول لکھاہے اور اس میں 150اندراجات ہیں۔ماکیاؤ جنوبی چین کے افراد ہیں۔ناول کے راوی کو لغت نگار کے ساتھ ثقافتی انقلاب کے زمانے میں اس علاقہ میں بھیجاگیاتھا۔اس لغت میں وہ ماکیاؤ الفاظ کو جمع کرتاہے اور وہ ان الفاظ کی روشنی میں ناول کو لکھتاہے۔مقامی رسم و رواج اور دیگر ثقافتی حقائق اور میلانات تک وہ ان الفاظ کی روشنی میں پہنچناچاہتاہے۔جو اندراجات ہیں انہیں انگریزی میں ترجمہ کیاگیاہے اور انہیں حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب نہیں کیاگیا۔ناول کو داستانی انداز سے سمجھنے کے لیے ایک نوٹ کااضافہ کیاگیاہے۔ہر اندراج کسی اصطلاح کی بحث سے شروع ہوتاہے جس میں پہلالفظ دریاہے۔کمال یہ ہے کہ ہر ترجمہ کے ساتھ قوسین میں چینی حروف اور نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔یہ ناول ایک مخصوص خطے اور صورت حال کو جس طرح سامنے لاتاہے اس میں بنیادی کردار الفاظ اور علامات کاہے۔الفاظ کے معنی کس طرح کسی تہذیبی معاشرے میں بدل جاتے ہیں اور معاشرہ مشکل وقت میں کس طرح اپنی ثقافت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتاہے وہ اس ناو ل سے ظاہرہے۔یہاں الفاظ تہذیب کاچہرا بن گئے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ الفاظ سے معنی کارشتہ من ماناہوتاہے۔یہ ناول چینی سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیاہے پھر بھی بڑی حد تک ماکیاؤ کی تہذیبی زندگی سے ہم آشناہوسکتے ہیں۔
نرمل ورمانے اپنے ایک مضمون ناول کی موت اور اس کی نئی زندگی میں جو سوالات قائم کیے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ناول کو اصطلاحوں کی روشنی میں دیکھاضرور مگر ناول کو ایک سیکولر صنف قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ہر طرح کی آزادی پر زور دیا۔گو اس بات پر وہ دکھ کااظہار کرتے ہیں کہ ناول اتنی کثرت سے لکھاجارہاہے اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ ناول مر رہاہے۔لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ناول اتنی آسانی سے مرے گانہیں۔انہیں یہ شبہ ہے کہ کہیں ایساتو نہیں کہ ناول مر گیاہو؟۔جس ناول کو ہم ڈیکینس،فلوبیر،ٹالسٹائے دوستو وسکی وغیر ہ کے حوالے سے جانتے ہیں وہ ہمارے وقت تک آتے آتے ایک اندھی گلی میں کھو گیاہے۔نرمل ورماناول میں تجربہ کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کلاسیکی ناولوں کی قیمت پر نہ نئے ناولوں کی وکالت کی اور نہ نئے ناولوں کو نظرانداز کیا۔البتہ ان کا دکھ یہ ہے کہ ناول جس وسیع وعریض دنیاکو پہچانتاہے یااسے پہچانناچاہیے وہ ذات اساس بن کر ایک سمٹی ہوئی دنیا کاپتہ دینے لگاہے۔وہ فرد واحد کی روح اور اس کی الجھن کو ایک بڑے سیاق میں دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک بڑاسیاق ذاتی دکھ کاعلامیہ بن جاتاہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
”دیکھاجائے تو ناول ہمیشہ سے تکلیف میں تھا اور جتنازیادہ وہ پھلتاپھولتاگیااس کے اندر کی نہ دکھائی دینے والی تکلیف بھی بڑھتی گئی۔“
یہ جو ناول کے اندر کی تکلیف ہے اسی سے ناول کے مشکل وقت کی طرف ذہن منتقل ہو جاتاہے۔
02/05/2023