یگانہ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ : ڈاکٹر نجیب جمال

یہ تحریر 586 مرتبہ دیکھی گئی

یگانہ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ : ڈاکٹر نجیب جمال
(شمیم حنفی کی یاد میں)


ڈاکٹر نجیب جمال کی کتاب یگانہ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ شمیم حنفی صاحب نے عنایت کی تھی ۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کتاب میرے حوالے کی کہ دیکھو یگانہ پر کتنا اچھا کام ہوا ہے ۔ اسے دیکھو اور اس کے بارے میں کچھ لکھو ۔ وہ شام یگانہ کی تھی اور شمیم حنفی کی تھی اس کے بعد کتنی شامیں آئیں مگر یگانہ کی شخصیت اور شاعری پر مشتمل اس کتاب کی حصولیابی کی شام یگانہ ہی کی طرح اپنی انفرادیت پر اصرار کرتی رہی ۔ شمیم حنفی صاحب نے اس کتاب کو میرے لیے محفوظ کر رکھا تھا آج بھی بک شیلف سے ڈاکٹر نجیب جمال کی اس کتاب کو نکالنے کا وہ منظر یاد ہے ۔ شمیم حنفی یگانہ کے ہمیشہ مداح و طرف دار رہے ۔ یگانہ کے سلسلے میں وہ راہی معصوم رضا اور باقر مہدی کا ذکر بھی کرتے تھے ۔یگانہ کی شعری کلیات مشفق خواجہ نے مرتب کی ۔ ہندوستان میں اس کلیات کی اشاعت کے بعد یگانہ شناسی کا کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں ہوا ۔ یہ ضرور ہے کہ یگانہ کا سارا کلام ادب کے سنجیدہ قارئین تک پہونچ گیا ۔ ڈاکٹر نجیب جمال کی کتاب ایک ایسے وقت میں مجھے ملی جب یگانہ کے تعلق سے یہاں کوئی سرگرمی نہیں تھی ۔ یگانہ کا نام سبھی لیتے ہیں یگانہ کے اشعار پڑھتے بھی ہیں لیکن کسی ادارے نے باضابطہ یگانہ پر کسی سیمینار یا جلسے کا اہتمام نہیں کیا ۔ چند سال قبل اک ادارے نے یگانہ کو یاد کرنے کا منصوبہ بنایا تو کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی یعنی یگانہ کے اشعار کو پڑھا جائے انہیں پسند کیا جائے ان پر مضامین بھی لکھے جائیں مگر کوئی جلسہ نہ ہو ۔ یگانہ سے وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی بیزاری کہاں جا کر دم لے گی یہ کہنا مشکل ہے ۔ شمش الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب لفظ و معانی میں یگانہ کی غزل کو نئی آواز کے طور پر دیکھا تھا لیکن بعد کو ان‌ کی رائے تبدیل ہو گئی۔ مجموعی طور پر یگانہ کی شاعری سے زمانہ کبھی غافل نہیں رہا ۔ یگانہ کے انتقال کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور آج بھی یگانہ کی شخصیت اور شاعری آسودہ اذہان کو پریشان کرتی ہے ۔ آسودہ اذہان کی ترکیب ایک معنی میں شاعری کے ڈھلے ڈھلائے انداز اور اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے ۔
ڈاکٹر نجیب جمال نے یگانہ کی شخصیت اور شاعری کو جس طرح دریافت کیا ہے وہ یگانہ شناسی کا اولین حوالہ ہے ۔ تحقیقی نقطۂ نظر سے اور تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ فہرست مشمولات میں جو تفصیلات اور عنوانات ہیں انہیں دیکھ کر مصنف کی تحقیقی و تنقیدی نظر کی معروضیت اور شفافیت دونوں کا اظہار ہوتا ہے ۔ باب اول یگانہ کا عہد ہے باب دوم یگانہ کی زندگی باب سوم یگانہ کی سیرت باب چہارم یگانہ کے ادبی معرکے باب پنجم یگانہ کی مطبوعہ تصنیفات و تالیفات باب ششم یگانہ کی متفرق شعری تخلیقات اور نثری تحریریں باب ہفتم یگانہ کا غیر مدون کلام باب ہشتم یگانہ کا فن باب نہم یگانہ کی غزل باب دہم یگانہ کی رباعی باب یازدہم یگانہ کی شعری زبان باب دو از دہم یگانہ اور ذہن جدید ۔ ان ابواب کی تفصیلات پر نگاہ ٹھہرتی نہیں ہے ۔ انہیں قائم کرنے کے لئے مصنف نے کتنا پڑھا سوچا اور غور کیا ہوگا ۔ زندگی ، شخصیت اور شاعری یہ تین الگ الگ عنوانات اور حوالے ہیں مگر یہاں یہ ایک دوسرے کو داخلی سطح پر تقویت پہونچاتے ہیں ۔ ڈاکٹر نجیب جمال نے یگانہ کی زندگی کے ساتھ قصہ کتاب عمر کا ٹکڑا یگانہ کے ایک شعر سے لیا ہے ۔
قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا
رخ داستان غم کا ادھر سے ادھر ہوا
تحقیقی معاملات تخلیقی متن کے ساتھ کس طرح سفر کرتے ہیں وہ اس کتاب سے ظاہر ہے مصنف نے مختلف حوالوں کے اندراج کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی حوالے کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے اس معاملے میں انہوں نے قاضی عبدالودود کے تحقیقی طریقہ کار کو رہنما بنایا ۔ یگانہ کی زندگی کے اضطراب اور تخلیقی اضطراب دونوں کے داخلی رشتے کو سمجھنے کے لیے گہری نظر اور بصیرت کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر نجیب جمال کے یہاں مختلف حوالوں کے تجزیے کے بعد کچھ ایسے جملے مل جاتے ہیں جو اسی گہری نظر اور بصیرت کا پتہ دیتے ہیں ۔مثلا یہ ”اس بحر اضطراب میں جسے دنیا کہتے ہیں یگانہ کا سفینہ حیات ہمیشہ دھارے پر رہا جسے گرداب مٹا نہ سکا مگر جسے ساحل بھی نصیب نہ ہو سکا”۔ اس باب میں کئی مقام پر عظیم آباد کے تاریخی محلے مغل پورہ کا ذکر آیا ہے اور خود کو میں نے وہاں موجود پایا ۔ ڈاکٹر نجیب جمال کی نظر سے شاید ہی کوئی حوالہ رہ گیا ہو ۔ کئی حوالے یگانہ کی بڑی صاحبزادی بلند اقبال بیگم کی زبانی گفتگو پر مشتمل ہیں ۔ یگانہ کے آخری ایام جس مشکل میں گذرے ان کا تجزیہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر نجیب جمال نے یگانہ کے تعلق سے خطوط کا سلسلہ اگر قائم نہ کیا ہوتا تو کچھ اہم باتیں سامنے نہ آ پاتیں مثلاً مالک رام نے خط کے جواب میں جو کچھ لکھا وہ یگانہ کی ذہنی کیفیت سے بطور خاص تعلق رکھتا ہے ۔ یگانہ کی مذہب سے بیزاری ہمیشہ یگانہ کی شاعری کے لیے خطرہ بنی رہی یعنی یگانہ کو نہ پڑھا جائے یا یگانہ کو اس طرح پسند نہ کیا جائے تاکہ یگانہ کی مذہب بیزاری کو نمایاں کیا جا سکے ۔ شخصی زندگی کے بعض اہم حوالے شاعری کی تفہیم اور تجزیے کے عمل کو محدود کرتے ہیں یہ تو شاعری اور شخصیت کے معاملات ہیں اور اس میں مذہب بیزاری کا کوئی معاملہ شامل نہیں ہے لیکن جب یگانہ کے کسی قول یا تحریر کو بنیاد بنا کر شاعری کو رد کیا جائے تو زیادہ افسوس ناک صورتحال سامنے آ جاتی ہے ۔

قسط اول
29/05/2023