لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی چاپ کیاکہتی تھی

یہ تحریر 330 مرتبہ دیکھی گئی

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی چاپ کیاکہتی تھی
(شفیع جاوید کی یاد میں)

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں میں کتناوقار تھا
وقار کی آہستگی اور دیر پائی
زندگی کاکتنابوجھ اٹھالیتی ہے
تیز قدم اس کاتصور نہیں کرسکتے
لڑکھڑاتے ہوئے قدم کو
اکھڑتے ہوئے قدم کہناکتنی حماقت ہے
قدموں کی چاپ عظیم آباد کی تھی
جو دہلی میں سنائی دیتی
اور الہ آباد میں بھی
اسی شہر میں ان گہری آنکھوں
اور لڑکھڑاتے قدموں کا شناسا اور رازداں تھا
جو علم و ادب کا شناور ہی نہیں آبرو بھی تھا
پھر یہ ہوا لڑکھڑاتے ہوئے قدم رک گئے
قدم تھک گئے تھے
نا ہموار زمینوں پہ چلتے ہوئے
رازداں نے کہا تھا
ان تھکے ہوۓ قدموں سے افسانے لپٹے ہوۓ ہیں
انہیں ایک لمبے سفر پہ روانہ ہونا ہے
رازداں نے جو کچھ کہا تھا اس کی تعبیر میں کتنا وقت لگ گیا
اور کیا عجب کہ کچھ لکھنے سے رہ گیا ہو بلکہ سننے سے بھی
اس شخصیت کو بھی لمبے سفر پر روانہ ہونا تھا
مجھ سے کہا تھا کہ تم ٹھیک کہتے ہو
میرے دوست نے یادداشت کا افسانہ لکھا ہے
مجھے خیال آیا کہ بورخیس نے ایک نظم میں یادوں کی فہرست بنائی تھی
جودراصل گمشدہ چیزوں کو بھول جانے کے لیے تھی
گویا افسانہ ہی یادداشت کابوجھ اٹھا سکتاہے
آواز میں کتنا دکھ تھا بچھڑنے کا
اور افسانے کی عامیانہ بلکہ غیر ذمہ دارانہ قرأت کا بھی
اب اس طرف سے پوری خاموشی تھی
جذبے کے ساتھ علم کی گہرائی دکھ کو جذباتی بھی بنا دیتی ہے اور علمی بھی
جذبے سے بھری ہوئ علمیت کی تشکیل میں شخصیت اور افسانے دونوں کی گہرائی نے حصہ لیا تھا
مگر یہ بات زمانے کو دیر سے سمجھ میں آتی ہے
اور کبھی سمجھ میں نہیں آتی ہے
”افسانے کی حمایت میں“ کے چند اوراق عظیم آباد کی یادگار ہیں
”پرندہ پکڑنے والی گاڑی“ تھوڑے فاصلے پر تھی
”بابالوگ“ کی کہانیاں نزدیک تھیں
”کلیاں اور کانٹے “آج بھی تروتازہ ہیں
“رات،شہر اور زندگی”کا رخ “رات،شہر اور میں” کی طرف تھا
اس انکشاف میں تھوڑا وقت لگا
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں نے سفر کاآغاز مٹی کے گھراور آنگن سے کیاتھا
اس کاایک رشتہ “حسرتِ تعمیر” سے بھی تھا
”کھلی جو آنکھ“ تو دھوپ بہت تیز ہوچکی تھی
”تعریف اس خداکی“کے افسانے
”افسانے کی حمایت میں“نہیں لکھے گیے
”بادبان کے ٹکڑے“مجھ تک آئے اور بہت دیر سے آیے
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی چاپ کیاکہتی تھی
مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر کیلے کاچھلکاتھا
پچھلے پہر ٹرین رکی
مسافر نے دیکھانہیں
یہ ایک لمبی چھلانگ نہیں تھی
پھسلن لڑکھڑاتے ہوئے قدم کی پہلی یابعد کی
منزل ہے
اس کاسراغ ”بادبان کے ٹکڑے “سے ملاتھا
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں میں پھسلن پوشیدہ ہوتی ہے
معلوم نہیں کیلے کاچھلکا۔۔۔۔۔۔
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی سرسراہٹ کیاکہتی تھی
افسانے توکچھ اور کہتے ہیں
افسانے کاراوی کہتاہے
“موت خود ہی زندگی کی حفاظت کرتی ہے”