من موہن تلخ کو بھلایا نہیں جا سکتا

یہ تحریر 352 مرتبہ دیکھی گئی

من موہن تلخ 2001 میں رخصت ہوئے اور یوں دیکھیں تو دہلی کے ادبی حلقے میں وقت کے ساتھ انھیں یاد کرنے کی کوئی اہم یا بڑی مثال سامنے نہیں آئی۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے چند اشعار لوگوں کو یاد ہیں اور ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جنھوں نے منموہن تلخ کو دیکھا ہے۔ فراموشی اور خود فراموشی دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خود فراموشی اگر اپنی ذات کی طرف سے غافل ہو جانا ہے تو ایسی غفلت اب اس دنیا میں بڑی مشکلوں سے ملے گی۔ ساری غفلت دوسروں کی طرف سے ہے یا دوسروں کے لیے ہے۔ منموہن تلخ کی غزل اپنے دور میں اتنی مختلف تھی کہ اس اسلوب کو دریافت کر لینا ہی ایک واقعہ تھا۔ لیکن خود انھیں اپنی ہنرمندی کا احساس اتنا نہیں تھا۔ جتنا کہ بے ہنری کے باوجود باہنر لوگوں کو ہو جاتا ہے۔ لیکن منموہن تلخ کو شمس الرحمن فاروقی، نثار احمد فاروقی، شمیم حنفی اور عتیق اللہ نے زندگی میں بھی یاد رکھا اور اس کے بعد بھی۔ وہ شب خون میں بطور خاص شائع ہوتے تھے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی غزلوں میں جو ابہام تھا وہ لہجے کے کھردرے پن اور صفائی کو لیے ہوئے تھا۔ تلخ کو دہلی میں بہت لوگوں نے جانا اور پہچانا مگر جو جان پہچان شمیم حنفی اور منموہن تلخ کی ایک دوسرے سے تھی اس کا میں کچھ گواہ ہوں۔ وہ شمیم حنفی کے گھر جب آتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے انھیں کوئی پناہ گاہ مل گئی ہو۔ گو کہ تلخ اور ان کی شاعری کو کسی نقاد کی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن شمیم حنفی نے نہ صرف ان پر مضمون لکھا بلکہ مستقل طور پر اپنی گفتگو میں شامل رکھا۔ مجھے تلخ کی شاعری میں جو تھوڑی دلچسپی پیدا ہوئی تو اس کی بڑی وجہ شمیم حنفی صاحب کی تلخ کی شاعری کے سلسلے میں پرجوش رویہ بھی تھا۔ تلخ کے بہت سے اشعار انھیں یاد تھے۔ کسی ادیب کی زندگی میں جب ایسے لمحات آجائیں کہ وہ اپنے خالص ادبی ذوق کی بنا پر شاعر کا کلام دوسروں کو سنانے لگے تو اسے واقعے کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ بڑی حد تک شہر دہلی سے یہ واقعہ شمیم حنفی کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
شمیم صاحب کی زبان سے میں نے تلخ کے جو اشعار سنے ان میں سے چند یہ ہیں:
حیران سے کیا میرا کھنڈر دیکھ رہے ہو
جس کا بھی جو پتھر ہے وہ لے جاے اٹھا کر

بات کرنے کا بھی دکھ بات نہ کرنے کا بھی دکھ
کچھ عجب سانحۂ جذبہ و آواز رہا

میں انتشار ہی میں رہ سکا مکمل تلخ
وہ سلسلہ ہو جو جڑنے میں ٹوٹ جاتا ہوں

تلخ کو یگانہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ ایک شعری نشست میں میرے ذمّہ نظامت تھی اور صدارت تلخ صاحب کی تھی۔ غالب اکیڈمی میں دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے اس نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پہلی بار تلخ صاحب کو دیکھا تھا۔ سب سے اخیر میں انھیں بلاتے ہؤے کچھ باتیں کہنے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ “تلخ صاحب کو یگانہ سے تعلق رہا ہے” انھوں نے فوراً ٹوکا اور زور دے کر یہ بات کہی کہ “میں یگانہ کا شاگرد ہوں”. یہ ایسا موقع تھا جسے میں بھول نہیں سکا۔ انھوں نے مجھے اپنے تمام مجموعے جے این یو کے پتے پر بھیجے تھے۔ وہ اپنا کلام اطمینان سے پڑھتے۔ کوئی شور نہیں ہوتا تھا۔ البتہ جب انھوں نے کہا تھا کہ میں یگانہ کا شاگرد ہوں تو یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اور اس کا اثر کلام سناتے وقت بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ یگانہ کی شخصیت جیسے کہ ان میں حلول کر گئی ہو۔ وہ گردن اٹھا کر شعر تو نہیں پڑھ رہے تھے لیکن ایک للکار کی کیفیت ان کے یہاں موجود تھی۔ چہرے سے غصے کے آثار ظاہر تھے۔ کیا یگانہ کا شاگرد ہونا اتنا اہم واقعہ ہے۔ یگانہ سے اپنی ملاقات میں تلخ نے نئے سرے سے اپنی شاعری کے آغاز کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا اور اپنی بیاض گومتی ندی میں پھینک دی تھی۔ یہ جرأت یگانہ کی ملاقات کا نتیجہ تھی۔ پتہ نہیں گومتی ندی میں پھینکی گئی یہ بیاض کدھر کو گئی۔ گومتی ندی کی روانی وقت کے ساتھ کچھ بڑھی یا گھٹی مگر ہمیشہ کے لیے وہ ایک انوکھے شاعر کی بیاض کی بے پناہی کی گواہ بن گئی۔ اس میں کچھ کہیں کہیں رونے کی حقیقت بھی ہوگی، جو گومتی ندی کے پانی سے مل کر افسانے میں تبدیل ہو گئی۔ شمیم حنفی صاحب نے اس واقعے کو سناتے ہوئے کہا تھا: ذرا تصور کرو تلخ نے کس کیفیت میں بیاض پھینکی ہوگی۔ لوگ اپنی بیاض کو تلاش کرتے ہیں اور اسے محفوظ رکھنے کے کتنے جتن کرتے ہیں۔
تلخ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے مجھے بھی چند برس ہو گئے۔ یہ برس فراموشی یا خود فراموشی کے ہیں میں ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتا۔ دوسروں کو یاد رکھنے کے لیے خود کو بھلانا بھی پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ منسوبہ بندی کا نتیجہ نہیں۔ کب نگار صبا کدھر سے آئی اور کہاں چلی گئی اس کی خبر چراغ رہ کو کیوں ہو اور کیوں کر ہو؟ ویسے تلخ کو کس نے کہاں اور کتنا یاد رکھا۔ یہ فراموشی کس قدر حوصلہ شکن ہے۔ اکا دکا مثالوں سے قطع نظر پڑھنے پڑھانے کا سارا سلسلہ جمود کا شکار ہے۔ اور حرکت وہاں ہے جہاں فوری طور پر کچھ حاصل ہو جائے۔
اگر آج تلخ ہوتے تو میں انھیں یگانہ پر ڈاکٹر نجیب جمال کی کتاب”یگانہ: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ” دکھاتا۔ یہ کتاب اس وقت میرے سامنے ہے۔ یگانہ پر اس سے اچھی کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔ شمیم حنفی صاحب نے یہ کتاب عنایت کی تھی اور اس پر کچھ لکھنے کا حکم دیا تھا۔ کتاب کی تیسری قرأت کے بعد اب کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس تحریر کو بطور تمہید دیکھنا چاہیے۔
منموہن تلخ کی شاعری پر ہمارے یہاں کوئی تحقیقی یا تنقیدی کام نہیں ہوا۔ میں خود بھی کچھ نہیں کر سکا۔ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے بہت خوشی کا احساس ہو رہا ہے کہ میرے شاگرد عزیز فیضان الحق، جنھوں نے انور عظیم کے ایک افسانوی مجموعے پر ایم فل کا مقالہ لکھا ہے اور جن کی پی ایچ ڈی کا موضوع ضمیر الدین احمد کی افسانہ نگاری ہے، انھوں نے میری تحریک پر تلخ کے حوالے سے ایک کتاب مکمل کر لی ہے۔ جو عنقریب شائع ہو جائے گی۔
31/03/2023