مقالاتِ مسعود

یہ تحریر 2508 مرتبہ دیکھی گئی

          فنِ موسیقی پر فارسی زبان میں پچاسوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ہندُستانی موسیقی پر فارسی میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد بیسیوں ہے۔ میراخیال ہے کہ منجملہ فنونِ لطیفہ میں سے فنِ موسیقی پر ہندُستان میں سب سے زیادہ فارسی کتابیں تحریر کی گئیں۔ اس فن پر ہندُستان میں جو فارسی کُتب منظرِ عام پر آئیں، اُن کا زمانہ تحریر ایک اندازے کے مطابق تیرھویں صدی عیسوی سے لے کر اُنّیسویں صدی عیسوی تک کا ہے۔

          فنِ موسیقی پر فارسی میں لکھی جانے والی کتابوں کی تحقیق، تجزیے اور تعارف پر گذشتہ کم و بیش سو سال کے عرصے میں بیسیوں اُردو کتابیں اور دیگر تحریریں منظرِ عام پر آچکی ہیں جو اس موضوع کی اہمیّت پر دالّ ہیں۔ زیرِ نطر کتاب بھی ایسی ہی ۱۲ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے مصنّف ڈاکٹر محمد اطہر مسعودہیں اور اسے اورینٹل پبلی کیشنز، لاہور نے ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۰۱۴ء میں شائع کیا۔

          کتاب ہٰذا میں شامل بارہ میں سے سات مقالات کا تعلّق فنِ موسیقی پر قدیم اُردو (ہندی) کی ایک اور فارسی کی چار تصانیف کے تعارف اور تجزیے سے ہے۔ ان میں سے تین مقالات ”اُصول النغمات“ سے متعلّق ہیں۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی ترتیب و حواشی پر مصنّف کو پی ایچ ڈی کی سَنَد عطا کی گئی۔ یہ تینوں مقالات ایک طرح سے اُن کے سَنَدی تحقیقی مقالے کے توسیعی مباحث پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ ”رسالہ راگ مالا ہندی“ (از ٹھاکر داس)، ”مفرح القلوب“ (از حسن علی عزّتؔ)، ”رسالہئ ذکرِ مغنیانِ ہندوستان بہشت نشان“ (از عنایت خاں راسخؔ اکبر آبادی) اور ”نغمہئ قُدسی“ (از امیر احمد امیرؔ مینائی) کے تعارف و تجزیے پر ایک ایک مقالہ شاملِ کتاب ہے۔

          ”مفرح القلوب“ دراصل ٹیپو سُلطان کے علمی ذوق اور فنِ موسیقی سے اُن کی دل دادگی کی یادگار ہے۔ اس کتاب میں فوجی نغمے اور ترانے جمع کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی اُن کے راگوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اس کے مصنّف حسن علی عزّتؔ اُردوے قدیم (دکھنی / دکنی) کے جانے پہچانے شاعر ہیں۔ ”نغمہئ قُدسی“ اُردو کے ایک اَور نام وَر شاعر اور لُغت نگار امیرؔ مینائی کی غیر معروف تصنیف ہے۔ اس غیر مطبوعہ کتاب کی ایک اَور اہمیّت یہ ہے کہ یہ شاہِ اَوَدھ واجد علی شاہ کی فنِ موسیقی پر ایک اُردو تصنیف ”صوت المبارک“ کے ایک باب کی فارسی میں شرح ہے۔ راسخؔ اکبر آبادی کے رسالے پر مضمون میں پہلے تو اس رسالے کا تفصیلی تعارف درج ہے، پھر اس کی مرتّبہ جدید اشاعت کا مختصر تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

          کتاب کے دیگر پانچ مقالات میں سے دو کا تعلّق اپنے موضوع کے کتابیاتی جائزے اور دو کا موضوعی شخصیات سے ہے، جب کہ ایک مقالہ ایک کتاب کے موضوعی مواد کے جُزوی مطالعے پر ہے۔ کتاب کا پہلا مقالہ ”ہند فارسی اَدب میں کلاسیکی موسیقی پر لکھی گئی کُتب (چند تاریخی اور تکنیکی پہلُو)“ فرانسیسی مستشرق فرانکوئز نالینی ویلووی کے ایک انگریزی مقالے کا ترجمہ ہے، جب کہ آخری سے پہلا مضمون ”ستار نواز ولایت حسین خان“ صاحبِ موضوع کے ایک انگریزی مکالمے (انٹرویو) سے ماخوذ ہے۔ باقی تمام تحریریں مصنّف کی طبع زاد ہیں۔

          کتابیاتی جائزے پر مشتمل مذکورہ بالا پہلے اور دوسرے مقالے (”برِّ صغیر کی کلاسیکی کُتبِ فنِ موسیقی“) میں کم و بیش چھے سو (۶۰۰) سال کے عرصے میں فنِ موسیقی پر لکھی گئی فارسی کُتب کا اچھا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ خصوصاً دوسرے مقالے میں، جو طبع زاد ہے اور فنِ موسیقی پر صرف برِّ صغیر کی فارسی کتابوں کے تفصیلی مطالعے سے متعلّق ہے؛ مصنّف نے زیرِ بحث موضوع کی مرتّبہ کتب کا تجزیاتی و فنی جائزہ بھی شامل کیا ہے۔

          شخصیاتی مضامین میں سے پہلا مضمون ولایت حسین خان ستار نواز پر ہے جو ۱۳ مارچ ۲۰۰۴ء کو ممبئی (بھارت) میں فوت ہوئے۔ مصنّف نے اُن کی زندگی اور فن کے نشیب و فراز پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔دوسرے  اور کتاب کے آخری مضمون ”رشید ملک: احوال و آثار“ میں فنِ موسیقی پر یادگار تحریری اُردو سرمایہ چھوڑ جانے والے پاکستانی عالم کے احوال اور علمی کام کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ایک مقالے میں عہدِ جہاں گیری کی فارسی تاریخی کتاب ”مجالسِ جہاں گیری“ کی مدد سے شہنشاہ جہاں گیر کے ذوقِ موسیقی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  

           یہ کتاب برِّ صغیر کی موسیقی پر مختلف علمی اور تاریخی فارسی مآخذ اور متعلّقہ موضوعات پر قابلِ قدر مباحث، تجزیات اورمعلومات کا بیش بہا خزینہ ہے۔ فنِ موسیقی پر اس طرح اور اس پاے کے تحقیقی و علمی مباحث کی اُردو اَدب کو بڑی ضرورت ہے۔                                                                              

          اس کتاب کی کتابت، طباعت، کاغذ اور ظاہری پیش کش اچھی ہے۔ یاد رہے کہ اس اشاعتی ادارے کے روح و رواں سیّد اویس علی سہروردی خود بھی ایک علمی شخصیت ہیں۔ اَدبی صحافت کے علاوہ تصوف، تاریخ، مخطوطات شناسی، وغیرہ میں اُن کی علمی کاوشوں سے اہلِ علم واقف ہیں۔ اُن کا علمی مزاج اُن کے اشاعتی ادارے کی مطبوعات میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کے مصنّف ڈاکٹر محمد اطہر مسعود فارسی زبان اور فنِ موسیقی کے ماہر ہیں۔ اُنھوں نے فارسی میں فنِ موسیقی پر ایک اہم کتاب ”اُصول النغمات“ کی ترتیب و حواشی کا مشکل علمی کام انجام دے کر فارسی زبان و اَدب میں ڈاکٹریٹ کی اعلا سَنَد حاصل کی ہے۔ ماضیِ قریب میں فنِ موسیقی پر اُردو میں علمی کام کرنے کے حوالے سے رشید ملک کا نام اَدبی حلقوں میں معروف اور سرِ فہرست تھا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے خلا کو ڈاکٹر طاہر مسعود نے بہ خوبی پُر کیا ہے، بل کہ رشید ملک سمیت اپنے آبا کی علمی میراث میں اضافہ کرنے میں بھی کام یاب ہوئے ہیں۔ سرسیّد احمد خاں اور علّامہ اقبال کو نوجوان نسل سے یہی شکایت رہی کہ نئی پود اپنے آبا کی علمی میراث میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر پائی، بل کہ اُس نے یہ میراث ضائع کر دی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود اور ان جیسے دیگر سنجیدہ  علماے تحقیق کی علمی کاوشیں دیکھ کر ایک گُونہ اطمینان ہوتا ہے کہ سرسیّد اور اقبال کی پّکار رائگاں نہیں گئی۔