مغرب خیرخواہی کے بغیر

یہ تحریر 2592 مرتبہ دیکھی گئی

شیخ عبدالقادر کی کتاب “سیاحت نامہ یورپ” آج بھی دل چسپی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کا عنوان بدل دیا جا تا تو بہتر ہوتا کیوں کہ یورپ کے بہت سے ملکوں میں وہ گئے ہی نہیں۔ اردو ادب میں ان کا نام اس لیے زندہ رہے گا کہ 1901 میں انھوں نے “مخزن” کے نام سے ایک رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا جو ادب کے فروغ کے لیے وقف تھا۔ سیاسی اور مذہبی بحثوں سے اسے سروکار نہ تھا۔

1904ء میں شیخ صاحب قانون کی تعلیم حاصل کرنے انگلستان گئے اور 1907ء میں واپس آئے۔ “مخزن” چوں کہ ان کی معنوی اولاد تھا اس لیے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس سے تعلق کیسے قائم رکھا جائے۔ اس کا حل انھوں نے یہ سوچا کہ اپنے مشاہدات اشاعت کی غرض سے “مخزن” کو ارسال کرتے رہیں گے۔ انھیں مضامین کو محمد ہارون عثمانی صاحب نے کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔ “مخزن” سے انھیں جو لگاؤ ہے اور جس پائے کی واقفیت ہے اس کے پیش نظر انھیں عثمانی مخزنی بھی کہا جائے تو مضائقہ نہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی سلطنت کا دبدبہ تو قائم تھا لیکن اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خرابیاں بھی صاف نظر آنے لگی تھیں۔ مرعوبیت کا پہلا سا عالم نہ رہا تھا۔ شیخ صاحب نے انگلستان کی زندگی کے بعض پہلوؤں کو تحسین کی نطر سے دیکھا لیکن خرابیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی وہ انگلستان پہنچے بھی نہ تھے کہ فرانس کی بندرگاہ مارسیلز میں مفلس لوگوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ لکھتے ہیں: “عام تمول کے درمیان اس درجہ افلاس کا نظارہ، جو ہندوستان کے عام افلاس کی یاد تازہ کرتا تھا، دل خراش تھا۔” طبقاتی فرق کُھل کر سامنے آ گیا تھا۔ مغرب کا یہ آزادانہ اور طاقتور ملک بھی سماجی مساوات سے اتنا ہی دور تھا جتنا محکوم ہندوستان۔ انگلستان پہنچ کر ان تضادات کا اثر اور گہرا ہو گیا اور انھیں کہنا پڑا۔ “دولت اور جاہ و حشمت کا جو نظارہ لندن کے مغربی حصے میں نظر آتا ہے وہ بھی دو تین مغربی شہروں کے سوا کہیں دنیا بھر میں نظر نہیں آسکتا۔ لیکن تنگ دستی، افلاس اور بدقسمتی کی جو دل خراش تصویر لندن کا مشرقی حصہ پیش کرتا ہے اس کی بھی نظیر دنیا میں ملنا محال ہے۔ ہمارا ملک بہ حیثیت مجموعی بے شک مفلسی کا شکار ہے اور ہماری قوم دولت مند نہیں۔ مگر نہایت مال دار لوگوں کی ہم سائیگی میں اس درجے کی بے کسی اور بے بسی ہمارے ہاں نہیں اور اگر اس زمانے میں جاہ و ثروت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قوم کا ایک حصہ بالکل خوار خستہ ہو جائے تو ہم ایسی ثروت سے باز آئے۔”

مغربی دنیا کے سب سے متمول ملک پر، جسے دعویٰ تھا کہ اس کی وسیع و عریض شہنشاہی پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، اس طرح، اور بالکل بجا، فردِ جرم عائد کرنا شیخ صاحب کی بالغ نظری کی دلیل ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آزاد ہو کر بھی ہم امیری اور غریبی سے پیدا ہونے والی خرابیوں پر قابو نہیں پا سکے بلکہ اپنی نااہلی سے امارت اور غربت کے درمیان خلیج کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔

آگے چل کر شیخ صاحب طنز کرتے ہیں کہ لندن کو عروس البلاد کہا جاتا ہے حالاں کہ اس پر عجوز البلاد کی پھبتی زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے۔ “جدھر نظر جائے اونچی عمارتیں دھویں سے سیاہ، سڑکیں سیاہ، ہوا میں سیاہ ذرات۔ سانس لو تو یہ سیاہی حلق اور نتھنوں میں گھس جائے ۔۔۔۔۔ بعض عمارتیں جو نئی تھیں وہ بھی روسیاہی سے خالی نہیں تھیں۔ “گویا سو سال پہلے بھی فضائی آلودگی کا یہ عالم تھا۔ اس کا سبب بھی شیخ صاحب نے بیان کر دیا ہے۔ “بعد غور حقیقت یہ کھلی کہ لندن اس بارے میں معذور و مجبور ہے۔ اگر لندن کو لندن بننا تھا تو اسے عمارات کے ظاہری حسن سے بے پروا ہونا بھی لازم تھا۔ اس شہر کی بڑائی منحصر ہے اس کے ہزاروں لاکھوں چھوٹے بڑے انجن ہیں جو شب و روز چل رہے ہیں اور دھواں ان کی چمنیوں سے نکل کر ہوا میں مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ گھر گھر میں ایک دودکش ہے اور باورچی خانے یاانگیٹھی کا دھواں دودکش کے ذریعے اوپر جا رہا ہے۔” جس طرح کی ترقی کی طرف اب مغربی دنیا گام زن ہے اس سے رعب تو بہت پڑتا ہے لیکن اب یہ ہمیں بھی اور انھیں بھی پتا چلا ہے کہ اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔

ایک اور بات بھی شیخ صاحب کو نظر آگئی تھی اور وہ بھی  درحقیقت ترقی یافتہ ہونے کا خاصہ ہے۔ مراد تیز رفتاری سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ “جس شخص کو دیکھو دوڑا جا رہا ہے۔ سب تیز چلتے ہیں اور جو آہستہ چلنا چاہے اس کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ضرور دھکے کھائے گا۔” جو ہم ایک مدت سے کھا رہے ہیں۔ یہ محاورہ یوں ہی نہیں بنا تھا۔ “جلدی کا کام شیطان کا۔”

لندن کے ذیل میں رقم طراز ہیں۔ “چند بازار دنیا بھر کے بدمعاشوں کا مرجع ہیں۔” لندن کے ساتھ “جو آوارگی لگی ہوئی ہے اس کے باعث اسے ایک اصلی اور باعصمت عروس نہیں کہہ سکتے۔”

یہاں پہنچ کر شاید یہ گمان گزرے کہ شیخ صاحب کی نظر صرف برائیوں پر رہی۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ شیخ صاحب بنیادی طور پر حقیقت پسند ہیں۔ وہ مغرب سے خواہ مخواہ مرعوب نہیں ہوتے۔ ان کی نظر ان حقائق تک پہنچ جاتی ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کی خوش نمائی کی آڑ میں چھپے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کتنے ہی مشرقی اس ظاہری امارت اور زیبائش کے طلسم میں گرفتار ہو کر رہ گئے۔

انھوں نے ویسٹ منسٹر ایبے کی سیر بھی کی۔ اس پر تاسف کا اظہار کیا ہے کہ معروف  لوگوں کی قبریں اتنی قریب ہیں اور اس طرح بنی ہیں کہ ان کو روندتے ہوئے گزرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ انگریزوں کی خانگی زندگی کا کیا رنگ ڈھنگ ہے۔ سیرِ ساحل سے کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انگلستان میں گوشت کھائے بغیر چارہ نہیں ان کے مغالطے کو رفع کیا ہے۔ بتایا ہے کہ ویجی ٹیرین ریستوران ہر بڑے شہر میں موجود ہیں اور نباتاتی غذا کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ لندن میں جو برے ویجی ٹیرین ریستوراں ہیں وہاں دوپہر کو جگہ ملنی دشوار ہوتی ہے۔ انگلستان کے جپسیوں کا ذکر چھیڑا ہے جن کی بولی میں بعض لفظ، مثلاً پانی، چور، ماس، جیبھ، رکھ موجود تھے۔ کیمبرج یونیورسٹی اور ہیرو سکول کے بارے میں جو لکھا ہے اسے مجموعی طور پر تعریفی قرار دیا جا سکتا ہے گو یہ بھی کہا ہے کہ “انگلستان کے ان بڑے مدارس کے طریق تعلیم پر بعض اعتراضات بھی کیے جا سکتے ہیں مگر ان کے لیے علیحدہ مضمون درکار ہے۔”

تعطیلات کے دوران وہ فرانس میں گھومے پھرے، انھوں نے سوئٹزر لینڈ دیکھا، اٹلی کے شمالی علاقوں کی سیر کی۔ سوئٹزر لینڈ کے مناظر سے بہت محظوظ ہوئے۔ دو ماہ استنبول میں گزارے۔ تعجب اس پر آتا ہے ہے کہ سپین نہیں گئے۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ پیرس کی رنگارنگی، رعنائی اور خوش باشی کی داد دی ہے۔ بقول شیخ صاحب “اسے دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ شہر ہے یا پری۔” پری فرانسیسی تلفظ سے قریب ہے اور شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اردو میں اگر صحیح تلفظ مروج ہو جائے تو زیادہ مناسب  ہے کیوں کہ انگریزوں کی تقلید تو ہم پر لازم نہیں ہے۔ پیرس کا ذکر کرتے ہوئے شیخ صاحب نے چند پرلطف جملے لکھے ہیں۔ “پارسی اسے کس طرح نہیں کہہ سکتے۔ پارسی کا کام ہے تانبے کو سونا بنا دینا۔ پیرس کے لیے سونے کو تانبا کر دکھانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔” غرض پیرس پہنچ کر خریدار حیرت سے دم بخود رہ جاتا ہے اور اگر کوئی متمول آدمی شہر کو دل دے بیٹھے تو اس کا دیوالیا ہونا یقینی ہے۔

معروف مستشرق، ویمبری، سے بوڈایسٹ میں ملاقات کا احوال خواندنی ہے۔ شیخ صاحب جزائر برطانیہ کے شیخ الاسلام شیخ عبداللہ کوئیلم سے ملنے اور پول بھی گئے۔ ایک سوال اور اس کا جواب سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ شیخ صاحب نے دریافت کیا کہ “جب آپ اشاعتِ اسلام کرتے ہیں یا فرائض اسلام ادا   کرتے ہیں تو اب بھی لوگ آپ پر اینٹ پتھر پھینکتے ہیں؟” جواب ملا کہ  “اب وہ نوبت نہیں، پھر بھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔” یہ تھا اس معاشرے کی رواداری اور آزادیِ اظہار کا حال جو بزعمِ غود ایشیا اور افریقہ کے غیر مہذب لوگوں کو تہذیب کا درس دینے کا دعوے دار بنا رہا۔

یورپی ملکوں کی نیت کو بھی شیخ صاحب نے بخوبی بھانپ لیا۔ لکھتے ہیں۔ “صلحِ عام کی تحریک سے مدبرینِ یورپ کا مقصود اصلی فقط اس قدر ہے کہ یورپ کی عیسائی سلطنتوں میں صلح رہے اور وہ سب مل کر باقی دنیا پر اپنا غلبہ اور اقتدار قائم رکھیں۔ لیکن حقیقی صلح ممکن نہیں، جب تک دولِ یورپ اور ان کے مدبروں کے دماغ سے اپنے املاک کی توسیع کی ہوس اور ایشیائی ممالک اور اقوام و مذاہب کی حقارت کا خیال نکل نہ جائے کیوں کہ یہی دو خیال سب فسادات کی بنا اور جنگ و جدال کی جڑ ہیں ۔۔۔۔ یورپ کی ذہانت اور علوم و فنون کی ترقی ایسی ایجادات کے کام آ رہی ہے کہ وقتِ جنگ زیادہ سے زیادہ انسان تھوڑے سے تھوڑے وقت میں کس طرح بے جان کیے جا سکتے ہیں اور زمین سے گولے مارنے کی بجائے آسمان پر چڑھ کر کس طرح آہن و آتش کی بوچھاڑ ہو سکتی ہے۔” یہ بات سو سال پہلے جتنی درست تھی آج بھی اتنی ہی درست ہے۔

شیخ صاحب مغرب میں تین سال کے قیام کے بعد 1907ء میں وطن لوٹے۔ انھوں نے یورپ کو اپنے عروج پر دیکھا۔ اس کی خوش حالی، خود اعتمادی، غرور، طنطنہ اور روزافزوں ترقی بالکل ظاہر و باہر تھی۔ لیکن یہ پُرامن  اور پُرطمانیت سرسبزی کا آخری دور تھا۔ صرف سات سال بعد ایسی خوف ناک جنگ چھڑی جس نے یورپ کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا اور انسان دوستی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ہارون عثمانی صاحب کی کاوش سے ہمیں ایک بصیرت افروز کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ افسوس کہ پروف کی غلطیاں بہت ہیں۔ عثمانی صاحب نے شاید ناشر پر ضرورت سے زیادہ تکیہ کیا۔

سر شیخ عبدالقادر کا سیاحت نامہ یورپ؛ تدوین و ترتیب، ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی: معاون، محمد فیصل شہزاد

ناشر : عکس پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 240؛ چھ سو روپیے