مالکن

یہ تحریر 534 مرتبہ دیکھی گئی

“ارے منی دیکھنا ، لیاف لے آیا دھنیے سے رامو ………………..
بہت ٹھنڈ پڑنے والی ہے
دیکھنا کیسی مہاوٹیں لگیں گی جاڑے میں”
نرم لہجے والی ضعیف خاتون دلائ پاوں پر پھیلائے گاوء تکیے سے ٹیک لگائے تھیں ۔ وسیع مسہری پر منحنی سا وجود، چاندی سے بال اور میدہ سی سفید رنگت ، ناک میں پہنی لونگ ہلکی روشنی میں بھی دمک رہی تھی اور گلے میں سنہرے اور کالے موتیوں کی نفیس مالا تھی ۔ وہ اتنی نرم نازک تھیں ” نانی بڑھیا” سی کہ پھونک مارو تو جیسے رواں رواں ہوکر ہوا میں بکھر جائیں گی .
میں اس شاندار حویلی کی بھول بھلیوں میں گھومتی تیسری منزل کےکونے میں لہراتے جالی کے پردے سے جھانک رہی تھی ۔جب میں نے مالکن دادی کو پہلی بار دیکھا ، کریمن خالہ طشتری میں کھانے کے برتن رکھ رہی تھیں انہوں نے مجھے اندر ہی بلالیا اور اب وہ مجھ سے استفسار کررہی تھیں لحاف اور رامو کے بارے میں ۔
انہیں جواب نہی چاہیےء تھا کیونکہ سوال کے بعد آنکھیں موند کر لیٹ گئیں ۔ کریمن خالہ نے بتی بجھادی کمرے میں بہت ہلکی روشنی تھی . روشن دان کے رنگین شیشوں کا عکس دیوار پر رنگولی بنا رہا تھا اور وہاں مہک تھی بہت ہی بھینی بھینی ، صندل ،خس ، حنا ، عنبر ،اگر اور لوبان کی ملی جلی سی ، لیکن ذرا گہرا سانس لینے پر یہ سب آپس میں گڈ مڈ ہو کر ایک نئ ہی مہکار میں ڈھل رہی تھیں ۔
” یہ مالکن دادی ہیں ”
کریمن خالہ نے آہستہ سے کہا اور خالی برتن اٹھائے میرے ساتھ باہر نکل آئیں اور دروازہ بھیڑ دیا ۔
بسنت کی رات تھی اور ہم سب سہیلیاں کنگ ایڈورڈ کے سرد بلکہ سرد مہر ہاسٹل سے نکل کر اندرون شہر کی رونق دار بسنت دیکھنے مسجد وزیر خان کے قریب ثمن کے گھر جاپہنچی تھیں ۔ چھتوں سے چھتیں ملی تھیں اتنی پرانی عمارتیں لکڑی کی بد رنگ کھڑکیاں تنگ زینے تاریک کوٹھڑیاں سیلن مارے دالان اور بالکنیاں یوں جیسے جھک کر دیکھ رہی ہوں اور پوچھتی ہوں

“گلی سے آج کون گزرا۔”

پرشکوہ حویلیاں زمانوں اور موسموں کی سختیاں سہہ رہی تھیں ۔ کئ مکان تو بھوت پریت کے بسیرے لگتے ، کھنڈر نما حویلیوں میں کئ کئ کنبے آباد تھے ۔ ثمن کے نانا کی حویلی بہت تاریخی حیثیت رکھتی تھی یہاں اور خاصی اچھی حالت میں تھی ۔ پیتل کی میخیں جڑا لکڑی کا صدر دروازہ جس پر ہاتھی مور پھول پتیاں کھدے تھے ۔ دروازے کے دونوں طرف لال رنگ کے گول ستون تھے جن پر نقش ونگار تھے دائیں ہاتھ کے ستون پر سنگ مر مر کی تختی لگی تھی جس پر لکھے حروف مٹ چکے تھے ۔ پوری حویلی ہی گہرے رنگوں سے سجی تھی رنگین شیشے جڑے روشندان ۔ صحن کے درمیان فوارہ جس کے نیچے چھوٹے سے تالاب میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرتی پھر رہی تھیں ۔ تنگ زینہ جو تہہ خانے سمیت کئ منزلوں میں سانپ سیڑھی کی طرح رینگ رہا تھا ۔ کمروں کے سامنے پتلی سی راہ داری بھی اس سانپ سیڑھی کا حصہ تھی ۔ جہاں کبھی چراغ جلتے ہونگے ان طاقوں میں اب بر قی قمقمے روشن تھے ۔ پوری حویلی میں شطرنجی فرش بچھا تھا جس پر باریک لکیروں کا جالا سا بن گیا تھا جیسے صدیوں سے دعاوں میں پھیلی ہتھیلیوں پر ادھوری خواہشوں کا جال ۔
ان حویلیوں ، مکانوں میں کئ نانیاں دادیاں ، خالائیں چچا پھپھا بھی رہتے تھے گھر کےمعز ز ترین بزرگوں کی طرح ۔ گھر کے مرد باہر جاتے ہوئے دعا لیکر اور واپسی پر سلام کرنے سب سے پہلے انہی بزرگوں کے پاس جاتے ۔ اور گھر کی عورتیں ان کی خدمت بوجھ یا ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ فرض جان کر کرتیں ۔
چھت پر بو کاٹا کی آوازیں فلمی گانوں کے بے تحاشا شور اور بھونپو کی پھٹی پھٹی آوازوں نے مل کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا برقی روشنیوں سےرات میں بھی دن کا سماں تھا ۔ فروری کا وسط تھا لیکن ابھی موسم میں خنکی تھی ۔
اس رنگوں سے اور محبتوں سے بھری حویلی نے محبت کی ان دیکھی ڈوریوں سے باندھ لیا اور پھر ہر دوسرا تیسرا ہفتہ وہیں گزرنے لگا ۔ مالکن دادی کا کمرہ اکثر بند رہتا بس کریمن خالہ یا نانی جی کی وہاں آمد روفت رہتی ۔ کئ دفعہ میں فرمائش کرکے جاتی مالکن دادی سے ملنے ، سلام کے جواب میں بہت پیاری دعا ملتی
” سکھی رہو منی ”
اور پھر ایک ہی سوال لحاف بھرکر آگئے دھنیے سے۔ رامو کہاں رہ گیا ہے ۔
شاید وہ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ تھی ۔ بہت شاندار طریقے سے جشن آزادی منایا گیا ۔ حسب معمول میں ثمن کی مہمان تھی ۔ اس دن مالکن دادی کی طبیعت بہت خراب تھی ۔ محلے کا ڈاکٹر ان کو دیکھ کر گیا تھا ۔ گھر میں سب چپ چپ تھے ۔ نانا جی اور نانی جی بہت پریشان سے تھے ۔ باہر آتش بازی ہورہی تھی اور گھر میں سناٹا چھایا تھا ۔ رات گئے مالکن دادی کی طبیعت کچھ سنبھلی . ثمن اور مجھے کریمن خالہ کے ساتھ وہیں کمرے میں رات گزارنی تھی کیونکہ ہم ڈاکٹری پڑھ رہی تھیں سو معتبر تھیں ۔ مالکن دادی کی عمر اسّی برس سے متجاوز ہوگی اور یوں تو انہیں کوئ مرض نہ تھا لیکن بڑھاپا بجائے خود ہزار امراض پر بھاری ہے ۔
میں مالکن دادی کی شخصیت کے سحر میں جکڑی رہتی تھی ان کے سامنے جاکر ،پھر کسی اور طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا ۔ اس رات مالکن دادی کے کمرے میں سامنے دیوار پر ایک غلافی آنکھوں مہاراجوں کی سی چھب والے بارعب آدمی کی تصویر لگی دیکھی جو مالک دادا تھے ۔ پگڑی کا طرا اور کمر میں بندھے پٹکے میں خاندانی تلوار انہیں اور بھی با رعب بنارہی تھی تصویر میں بھاری نتھ ، ماتھا پٹی ، گلوبند پہنے کرن لگا دوپٹہ اوڑھے جھکی جھکی نگاہوں والی مالکن دادی تھیں ۔
رات کا آخری پہر بھی گزر چکا تھا پو پھٹ رہی تھی کمرے میں ملگجا سا اندھیرا تھا جب میری آنکھ کھل گئ ۔بہت تیز مہک تھی جس سے سر بھاری سا ہورہا تھا ، کریمن خالہ مصلہ بچھائے رکوع وسجود میں مصروف تھیں دوسری طرف کروٹ بدلی تو مالکن دادی کونے میں کرسی پرسرجھکائے بیٹھی دکھائ دیں ۔ خوشبو کی دبیز تہوں میں ڈوبتی ابھرتی جانے کب میں پھر سے گہری نیند میں ڈوب گئ ۔
خزاں کے اداس کردینے والے دن تھے لیکن صبح سے موسم بہت اچھا تھاہوا کے جھونکوں کے ساتھ زرد پتے اڑتے پھر رہے تھے ۔ بادل گھر گھر کر آرہے تھے ۔ ساون بھادوں اس دفعہ کم ہی برسے تھے ۔ ثمن نے کچھ ایسے ایسے پکوانوں اور بارش کا نقشہ کھینچا کہ سب چھوڑ چھاڑ ساتھ ہولی ۔ بارش شروع ہوچکی تھی سوکھی مٹی پر برستی بوندوں سے سوندھی سوندھی مہک پھوٹ رہی تھی ۔
داس کلچے لونگ چڑے ، امرتسری ہریسہ ، نہاری ، جلیبیاں ، پٹھورے اور کشمیری چائے خوب مزے کی چیزیں تھیں کھانے پر ۔ پھر بادل گرجنے اور بجلی تڑپنے لگی اور چھاجوں مینہہ برسنے لگا ۔ رات ہوگئ تھی اور بارش کی رفتار میں کمی نہی آئ تھی ۔ ۔۔۔۔ رات گزر گئ اگلی صبح تک تہہ خانہ اور پہلی منزل پانی میں ڈوب چکے تھے اور صحن میں پانی لہریں لیتا کھلے دروازے سے اندر باہر آزادانہ پھر رہا تھا ۔ بارش کا زور وہیں تھا ۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ اس حویلی میں رہائش دوسری ، تیسری منزل اور چوتھی منزل پر سہ دری تک کیوں ہے نیچے کے کمرے خالی پڑے تھے اور ان کے دروازے بند تھے کریمن خالہ نے بتایا تھا کہ ان میں چونا بھرا تھا ۔ شاید ہر دفعہ بارش سے یہی ہوتا ہو ۔ موٹی موٹی بوندیں گدلے پانی سے بھرے صحن میں بے تحاشا برس رہی تھیں ۔ پرنالے کان پھاڑ آواز سے رواں تھے یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہی دیر میں پانی کا ریلا دوسری منزل تک پہنچ جائے گا ۔ آج پہلی دفعہ یہاں آکر بہت پچھتارہی تھی فون اوربجلی بھی بند ہوچکے تھے ۔
” اس دن بھی یونہی برکھا برسی تھی ۔ جل تھل کردیا تھا ۔ بھور سمے تک بادل نہ چھٹے ۔ ایسا کڑا وقت تھا پہلے ہی گاندھی اور جناح کی وجہ سے لوگ آپس میں بھڑ گئے تھے ۔ سرکار بہت غصہ میں تھی ۔کنور جی کو کہا بھی ضلع پر مت جائیں ۔ رک نہی سکے حکم آگیا تھا وائسراے کا ۔ وہ چلے گئے، پھر اتنی تنگی ہوئ راشن بند ہوگیا۔ رامو جاتا تھا کچھ خبریں لے آتا تھا ۔ وہ تار بھیج دیتے تھے خیریت کا اپنی ، پھر اعلان کردیا ریڈیو نے، ملک توڑ دیا ،ہمارا ہندوستان توڑ دیا ۔ رات ہی آگئے کنور جی ۔ رائے بہادر ، چنی لال ، چیٹر جی سب کے سب آگئے۔ محلے کے دروازے بند کردیےء ۔ بس جو کوئ چھپے چھپاتے جاتا یہی بتاتا چھرا مار رہے ہیں ہر کسی کو گھر لوٹ رہے ہیں ۔ پھر کرنل رام کمار آگئے موٹر لے کر کہنے لگے نکلو جلدی ٹرین جارہی ہے ۔ دھنیے کو لیاف بھیجے تھے رامو کے ہاتھ ۔ وہ بھی واپس نہیں آیا تھا ۔۔۔کنور جی کے دوست شاہ کریم بھی آگئے تھے وہ تو دلی سے ہی ہمارے ساتھ آئے تھے نا ۔ جلدی کرو جلدی کرو کہے گئے ۔ ہم سوار ہوگئے موٹروں میں ۔ یہ جو کونے والا پیپل ہے نا وہیں تک تو گئے تھے ابھی ، تو وہ لوگ آگئے ۔ تلواریں اور چھرے لے کر ۔ موٹر واپس موڑ لائے ۔ کنور جی نے مجھے کہا
” چھپ جاو باہر نہ آنا جب تک میں نہ آواز دوں ، قسم دے دی اپنی ڈیوڑھی کا دروازہ بندکردیا ۔شاہ کریم دروازے کے آگے کھڑے ہوگئے تھے اور اذان دینے لگے ۔ یہاں سے چلے گئے وہ سب تلواروں والے ۔ شاہ کریم نے دروازہ پر کالی چادر لگادی عربی لکھ کر ۔ کنور جی نہیں آئے پھر ۔ آواز ہی نہیں دی ”
نیلی کنی والی سرمئ ساڑھی باندھے منحنی سی مالکن دادی ننگےپاوں کھڑی جیسے آدھی صدی پرانے ایسے ہی کسی دیوانے ساون کی یادیں دہرارہی تھیں ۔
کبھی دو تین جملوں سے زیادہ نہ بولنے والی مالکن دادی آج بولتی چلی جارہی تھیں بادل جھک کر ان کی نرم آواز سن رہے تھے ، بوندیں تھم گئ تھیں اور ہوائیں ساکت ہوگئ تھیں ۔ اتنا رنج اور اتنا دکھ تھا ان سادے سے لفظوں اور سادے سے لہجے میں جیسے دل مٹھی میں جکڑا گیا ۔ بادلوں کی برسات رک چکی تھی لیکن آنکھیں برس رہی تھیں ۔ مالکن دادی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی واپس اپنے کمرے میں جاچکی تھیں ۔
صبح تک سارا پانی بہہ کر بوڑھے راوی میں چلا گیا تباہی کی ان گنت کہانیاں چھوڑکر ۔
محلے کا ڈاکٹر مالکن دادی کو دیکھنے آیا ہوا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے سفید بستر پر نیم غنودگی میں تھیں ۔ مجھے بھی واپس جانا تھا ۔
کچھ دیر بعد۔۔۔۔
مالکن دادی کو الوداع کہنے گئ تو وہ کونے والی کرسی میں تکیوں کے سہارے بیٹھی تھیں ان کے سامنے مختصر سی چوبی الماری کھلی تھی ۔ وہاں اگر دان میں خوشبوسلگ رہی تھی ، وہی خوشبو جو صندل ، حنا ، خس ، عنبر , اگر اور لوبان سے مل جل کر نئ سی مہک دیتی تھی ۔جس نے ایک رات مجھے جگا دیاتھا ۔ چوبی خا نے میں مندر سجا تھا اور مالکن دا دی دیوتاوں اور دیویوں کی پوجا میں گم تھیں ۔
پھر چھٹیاں ہوگئیں امتحان کی تیاری کے لیے ۔ پہلا پرچہ دے کر سب سے پہلے ثمن سے مالکن دادی کا حال پوچھا تو بہت افسردہ ہوگئ کہنے لگی۔
“وہ تو اسی دن بولیں تھیں پچاس سال بعد ، پھر اسی رات بخار ہوا دماغ کی کوئ نس پھٹ گئ تھی کومہ میں رہیں اور پھر چند دن بعد چلی گئیں اپنے بھگوان کے پاس ۔ ان کا زیور، منگل سوتر اور خالص سونے کی مورتیاں مندر کو دے دیں ۔”
” اور حویلی ”
میں نے پوچھا
حویلی بھی مالکن کے دم سے تھی وہ نہ رہیں تو چند دن میں حویلی بھی ڈھے گئ ہم شادی میں گئے تھے اس لیےء بچ گئے ۔ اس برسات نے حویلی کی بنیادیں ہلادی تھیں ۔ ”
” اور رامو ”
“رامو کا کا تو بہت پہلے مرگئے تھے ۔ نانا اور مالک دادا اکٹھے ہی تبادلہ ہوکر لاہور آئے تھے ۔ رامو کاکا مالک اور مالکن کہتے تو ہم سب بھی انہیں مالکن دادی کہنے لگے یہ حویلی کنور جی کے ہی کسی بزرگ کی تھی ۔
نانی جی بتاتی ہیں مالکن چھپ گئیں تھیں بٹوارے کے وقت اور صدمے سے یادداشت کھوگئ ان کی ۔ بس رامو کاکا کو پہچانتی تھیں اسی کی آواز پر تہہ خانے سے باہر آئیں ۔ مالک بھی فسادات کی نظر ہوگئے تھے ، ان کے سب رشتے دار فساد میں مارے گئے تھے۔ اولاد نہیں تھی ۔ نانا جی نے اپنے دہلی والے گھر کے کلیم میں یہ حویلی لے لی ۔ہمارے خاندان نے کبھی کسی کو نہ بتایا مالکن دادی یہیں ہیں ورنہ جب ہندو اور مسلمان گم شدہ عورتوں کا تبادلہ ہوا تو ہندوستانی مالکن دادی کو بھی لے جاتے لیکن ایک دکھی اپنا آپ بھولی ہوئ عورت کو جس کا کوئ سگا نہ تھا لے جا کرکیا کرتے۔ بس محتاج خانے میں ڈال دیتے ۔ یہ کسی کو گوارا نہ تھا ۔رامو کاکا نے بھی جانے سے منع کردیا ۔ وہ مالکن تھیں اس حویلی کی اور آخیر دم تک مالکن ہی رہیں ۔ “
ہائے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کیسے وضع دار اور وفادار لوگ تھے وہ سب ۔اور مالکن دادی جو برسوں پہلے مکان اور مکانیت کی عرفیتوں سے بے نیاز ہوچکی تھیں ظالم وقت سب کچھ چھین کر بھی ان سے مالکن کا افتخار نہیں چھین سکا ۔
رہے نام اللہ کا ۔