لبِ لرزاں

یہ تحریر 2278 مرتبہ دیکھی گئی

یہ مجموعہ دو حصوں میں منقسم ہے اور یہ تقسیم رسمی ہوتے ہوئے بھی رسمی نہیں، کہ شاعر کا تخلیقی رویہ خود دو دائروں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ دائرے ایک دوسرے کو چھوتے تو ہیں مگر ایک دوسرے میں در نہیں آتے۔

حصہ نظم کو سرسری طور پر دیکھنے سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ یہ پندرہ بیس نظموں پر مشتمل ہے’ لیکن حقیقتاً اس ظاہری تنوع کے باوجود پورے حصے میں (ایک نعت کو چھوڑ کر) بس ایک ہی نظم ہے، یعنی اوّل تا آخر ایک ہی صورتِ احوال سے واسطہ ہے جسے مختلف اوقات میں، مختلف محل ہائے نظر سے، مختلف کیفیتوں کے زیر اثر مجمتع کیا گیا ہے۔ ناظر اپنے حسنِ خیال کا اسیر ہے۔ اس طلسم زدہ کے مانند جسے شام کو منزل پر پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ ہر پھر کر وہیں لوٹ آیا ہے جہاں سے صُبح دم چلا تھا وہ ایک ہی منظر سے بار بار گزرتا ہے اور بے لطف نہیں ہوتا۔ کسی جانے پہچانے تناظر کو اپنے پر طاری کر لینے اور کریدتے چلے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بڑے سے بڑے فنکار بھی بیشتر وقت ایک ہی کیفیت کو چھانتے پھٹکتے اور ایک ہی صورتِ حال کو طبق در طبق کھنگالتے نظر آتے ہیں۔ یہ تخیل یا فہم کا عجز نہیں بلکہ نفسیاتی وحدت کی دلیل ہے۔

ان نظموں میں یا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ اس نظم میں جس خیال یا تجربے کی تکرار ہے وہ سفر کے رُوپ میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ یہ سفر ظاہری کم اور باطنی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر کی منظرکشی جہاں بھی ہے سرسری اور سپاٹ ہے۔ دراصل خارج کو اس طرح دکھانا کہ اس کی رنگارنگی پڑھنے والے کو چونکا سکے شاعر کا مقصود ہی نہیں۔ وہ احساس یا عرفان کے کسی مرکز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور کشمکش  میں ظواہر کی حیثیت تکیہء نظر سے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بے خودی طاری کرنے کے لیے بعض اوقات کسی چیز کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جاتا ہے مگر اس کا ادراک کرنا، اس سے لطف اٹھانا، قطعاً مقصود نہیں ہوتا۔

یہ تمام کیفیت متصوفانہ مہم جوئی سے مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن شاعر ابھی سفر کی پہلی منزل میں ہے جہاں شست و شو سے بہت واسطہ ہے۔ بہت سے داغ اور آلودگیاں دھلنی ہیں، بہت سی راہ کھوٹی کرنے والی ترغیبوں سے مُنہ موڑنا ہے، کتنے ہی خونوں کو دھونا اور نچوڑنا ہے۔ یہ مرحلہ بہت سخت ہے۔ شعر و ادب کے اعلیٰ مدارج کی طلب ہو یا نایافت کی تلاش، بہر صورت شوب کا یہ عمل غالباً ناگزیر ہے اور اسے آشوب میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ بعض لوگ اسی مرحلے کی اکھاڑ پچھاڑ کے لیے وقف ہو کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ کوئی کوئی ادیب ایسا بھی ہوا ہے جس نے شوب کے اس عمل کو شعر و ادب میں بدلا ہے اور خود اپنی ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بیچ بازار دھو کر دکھائی ہے لیکن اس کی قیمت بہت ادا کی ہے۔

تابشؔ کا اس طرح رسوا ہونے اور رسوا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر اپنے ارد گرد کی بدنمائی اور خرابی اسے اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔ خوفِ خواب اور عرصہء گناہ سے رہائی کی طلب جیسی بظاہر نجی کیفیت اور شہر کو سایہء شر سے نکلتے دیکھنے کی اجتماعی آرزو اس نظم میں جا بجا ملتی ہے؛ گو یہ صورتِ حال بھی نسبتاً مقطر اور کہیں زیادہ شاعرانہ صورت میں غزلوں  میں موجود ہے، جیسے:

ایک خوفِ خواب کا منظر نگاہوں میں رواں

شہر والوں کے لیے میری دُعا اپنی جگہ

بہر کیف، یہ ایسا منظر ہے جس میں کہیں کہیں رنگ اور روشنی کے چھینٹے تو نظر آتے ہیں مگر اجاڑ پن کا پلڑا بھاری ہے۔ بعض مقالات میں روشنی تو کیا اُمید کا بھی گزر نہیں:

کہیں ارض تاریک میں پا بہ زنجیر ، ایسی سیہ پوش روحوں کو دیکھا

جو سُوکھے لبوں پر زباں پھیرتی ہین

مگر ان تلک ایک حرفِ دُعا کو رسائی نہیں ہے۔

اضطراب آمیز ویرانی کا یہ تناظر شاعر کے لیے اہم سہی لیکن اس کی معنویت پوری طرح واضح نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نظم یا نظموں میں کچھ راز داری بھی برتی گئی ہے یعنی ان میں خوف، گناہ اور شر کی عمل داری تو نظر آتی ہے لیکن صحیح طور پر پتا نہیں چلتا کہ یہ کس نفسیاتی واردات کا پرتو ہیں۔ اس طرح ان کا تاثر کمزور پڑ گیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ گناہ گار ہے اور اپنے حق میں دُعا کرے۔  ہمارے  دل میں شاید صرف اتنا سُن کر اس کے لیے ہمدردی پیدا نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص اعترافِ خطا کرتے ہوئے یہ بھی بتائے کہ وہ یہ سب کچھ کرنے پر کیوں مجبور ہوا حتیٰ کہ خود ہم بھی کسی حد تک خود کو عاصی اور جابر محسوس کرنے لگیں تو شاید اس کی دُعا اور امید ہماری دُعا اور اُمید بن جائے۔ یہ صورت یہاں نظر نہیں آتی۔

دوسرے یہ کہ تابشؔ مزاجاً غزل کا آدمی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ نظم اس کے بس کی بات نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اگر غزل ایمائیت، ایجاز اور کفایت کا تقاضا کرتی ہے تو اچھی نظم کے لیے بھی یہ عناصر اتنے ہی لازمی ہیں۔ نظموں کو غزلوں کا خام مواد بن کر نہ رہ جانا چاہیے بلکہ انھیں بھی اپنی خود کفیل اور بلیغ انفرادیت کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے یعنی نظم نظم ہی ہو محض “ضرورتِ شعری” نظر نہ آئے۔

تابشؔ کی غزلوں کا جہان بالکل مختلف ہے۔ وہ بلند تر سطح پر واقع ہے جہاں تازہ ہوا اور کُھلی فضا کا احساس ہوتا ہے اور نظر دُور دُور تک جاتی ہے۔ جہاں تک گناہ اور خوف اور شر کا معاملہ ہے۔ اس کی کوئی لمِ غزل میں بھی نہیں ملتی۔ البتہ یہ دو ٹوک اعتراف موجود ہےکہ کچھ نہ کچھ چھپانا مقصود ہے۔ یہی نہیں بلکہ اخفا تلذذ سے خالی نہیں      ؎

خواہشوں کی بدنمائی کی سزا اپنی جگہ

اپنے شر کے بھید کا لیکن مزا اپنی جگہ

ایک اور شعر میں مذکور ہے کہ اس عصرِ خوف میں کوئی دعویٰ کرنا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ  دل کا بھید کھولا جائے۔ گویا راز فاش کرنا اور دعویٰ کرنا لازم و ملزوم ہیں۔ چھوٹے موٹے دعوؤں سے تو کام چلتا نہیں اور نعرہ انا الحق اور مہدیِ زماں ہونے کے دعوے کی تابشؔ سے توقع عبث ہے کہ اسے لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا شوق نہیں۔ شاید کبھی “مستند ہے میرا فرمایا ہوا” کی نوبت آ جائے۔ یہ دُور کی بات ہے۔ ابھی تو رہروِ طریقِ محبت زمین آسمان کی نقشین جدولوں سے حیرتوں کو جذب کرتا پھر رہا ہے۔ اس کا تجسس بیدار اور تلاش جاری ہے۔ ابھی شناسائی اور اتحاد کی منزل نہیں آئی۔ اور آ بھی جائے تو کیا۔ منزل کوئی سی ہو، ماندگی کا وقفہ ہی تو ہے۔

بہرحال، بات غزل کی ہو رہی تھی۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں سے انداز ہ ہوتا ہے کہ تابشؔ کی غزل روز بروز نکھرتی جا رہی ہے۔ ابتدائی غزلوں میں جو حشو تھا، جو تھوڑی بہت جذباتیت تھی، وہ چَھڑی جا چکی ہے۔  فوکس پہلے سے زیادہ دُرست ہو گیا ہے۔ لفظوں کے چناؤ، تراکیب کے حُسن اور طرزِ بیان کی شستگی سے جذبے کی وحدت کا سُراغ ملتا ہے۔ یہ کیفیت اس کی تازہ ترین غزل “طلوعِ ساعتِ صبحِ صدا کا منظر تھا” میں خاص طور پر نمایاں ہے۔

تصوف اور غزل میں جو ربطِ خفی و جلی ہے اس کے پیشِ نظر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تابشؔ کے سامنے امکانات کی ایک بے کراں فصل ہے جس کی مدد سے وہ مضامینِ نَو کے انبار لگا سکتا ہے۔ یہ بات اس کے بیشتر ہم عمر ہم عصروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی کہ ان کو اوّل تو تصوّف سے کوئی عملی لگاؤ نہیں، دُوسرے وہ عصری فیشنوں کو بہت آسانی سے خود پر حاوی ہو جانے دیتے ہیں۔

دُوسروں کی خامیاں اور خوبیاں اپنی جگہ۔ یہاں آدمی جتنا زیادہ دُوسروں کے ساتھ ہے اتنا ہی اکیلا بھی ہے۔ اپنا شعری رویہ، اپنا تخلیقی چلن شاعر کو خود متعین کرنا پڑتا ہے، اپنی محرومیوں اور اپنی کامرانیوں سے آپ نباہ کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ امکانات بہرصورت امکانات ہی ہوتے ہیں اور انھیں حقیقتوں میں بدلنے کا عمل طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ لیکن دنیا کو اپنے حوالے سے بدلنا اور تازہ معنویت عطا کرنا سب سے اہم انسانی وظیفہ ہے۔ بقولِ میرؔ:

آدمِ خاکی سے عالم کو جِلا ہے ورنہ

آئِنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا