غزل

یہ تحریر 1138 مرتبہ دیکھی گئی

عشرتِ دل غمِ الفت ہے تمھیں کیا معلوم
اس میں جو درد کی لزت ہے تمھیں کیا معلوم
ہجر ہی میں سے ابھر آئے خدوخالِ وصال
یہی عرفانِ محبت ہے تمھیں کیا معلوم
اب تو میرا دلِ پرُ زخم مری نظروں میں
ایک گلزارِ مسرت ہے تمھیں کیا معلوم
اس اندھیرے میں ہی جلتا ہے عقیدت کا چراغ
شبِ غم سایہء رحمت ہے تمھیں کیا معلوم
غم کی پتھریلی زمیں سے وہ ابلتا ہوا زخم
آج سر چشمہء راحت ہے تمھیں کیا معلوم
وصل کی ساعتِ شاداب سے بھی رنگیں تر
میرا ہر لمحہء فرقت ہے تمھیں کیا معلوم
ابرِ غم دیدہء نم سوزوگدازِ پیہم
ان فضاؤں میں جو فرحت ہے تمھیں کیا معلوم
در و دیوار سے جل اُٹھتے ہیں رحمت کے چراغ
سوزِ غم میں وہ کرامت ہے تمھیں کیا معلوم
وہ جو تھا یاس کا افسردہ سکوت آج وہی
گلشنِ حرف و حکایت ہے تمھیں کیا معلوم
وہ غمِ عشق کے صحرا کا سرابِ حسرت
آج تسنیمِ مسرت ہے تمھیں کیا معلوم
حسن کیا شے ہے مشیّت کو مسخر کر لے
جزبہء دل میں وہ قدرت ہے تمھیں کیا معلوم

بدری پرشاد شِنگلو کی دیگر تحریریں