ہو نہ سکی جب آشنا دل کے معاملات سے
عقل ہوئی کنارہ کش عشق کی کائنات سے
میرا مذاقِ رنگ و بو پیہم ابھارتا رہا
باغ و بہار کے نقوش رنج و غمِ حیات سے
عقلِ بشر ہے زشت بیں علم ہے ظلمت آفریں
حسن کے آفتاب ابھر بامِ تجلیات سے
آخرِ کار ہم کنار راہِ تغافلِ نگار
ہو گئی اک مقام پر منزلِ التفات سے
سبحہ بدست دیکھتے رہ گئے زاہدانِ خشک
جام بکف گزر گئے رند رہِ نجات سے
اے مرے سروِ خوش خرام اے بتِ آرمیدہ گام
بہرِ خدا کبھی گزر میری رہِ حیات سے
غزل
یہ تحریر 1810 مرتبہ دیکھی گئی