غزل

یہ تحریر 344 مرتبہ دیکھی گئی

دھنک کو پیروں میں اور سر پہ کہکشاں رکھیں
پھر اس کے دیکھنے کو ہفت آسماں رکھیں

بہت سنبھال کے رکھنا ہے اس کے چہرے کو
سجائیں دل میں کہ آنکھوں کے درمیاں رکھیں

جو ٹھان لی ہے کہ اس شعلہ رُو کو دیکھیں گے
تو دل میں کس لیے اندیشہئ زیاں رکھیں

چھپا دیا ہے جو لکھا تھا اپنے بارے میں
لہو میں بھیگی ہوئی انگلیاں کہاں رکھیں

وہ بات سن کے ہماری کہے یا کچھ نہ کہے
ہم اپنے واسطے اک عشرتِ بیاں رکھیں

چلے تو آئے ہیں لو ہم سرِ دیارِ حبیب
حضورِ حسن میں یہ سر کہ اپنی جاں رکھیں

جو اپنے پاس تھا پیچھے ہی چھوڑ آئے ہیں
سفر طویل ہے بارِ گراں کہاں رکھیں