دھنک کو پیروں میں اور سر پہ کہکشاں رکھیں
پھر اس کے دیکھنے کو ہفت آسماں رکھیں
بہت سنبھال کے رکھنا ہے اس کے چہرے کو
سجائیں دل میں کہ آنکھوں کے درمیاں رکھیں
جو ٹھان لی ہے کہ اس شعلہ رُو کو دیکھیں گے
تو دل میں کس لیے اندیشہئ زیاں رکھیں
چھپا دیا ہے جو لکھا تھا اپنے بارے میں
لہو میں بھیگی ہوئی انگلیاں کہاں رکھیں
وہ بات سن کے ہماری کہے یا کچھ نہ کہے
ہم اپنے واسطے اک عشرتِ بیاں رکھیں
چلے تو آئے ہیں لو ہم سرِ دیارِ حبیب
حضورِ حسن میں یہ سر کہ اپنی جاں رکھیں
جو اپنے پاس تھا پیچھے ہی چھوڑ آئے ہیں
سفر طویل ہے بارِ گراں کہاں رکھیں