غزل

یہ تحریر 459 مرتبہ دیکھی گئی

o

وہ حسیں جو محوِ کلام ہے کوئی شعلہ رو سرِبام ہے
میں چلا ہوں اب اسے دیکھنے مجھے اس سے ہی کوئی کام ہے

کوئی ہلکی ہلکی سی چاندنی وہ کھڑی ہے اس میں بنی ٹھنی
وہ پھبن کہ ڈالی گلاب کی وہ بدن کہ نقرہئ خام ہے

خطِ نیل پر کوئی جھیل ہے وہاں ایک بنتِ نخیل ہے
مری رہ گزر ہے اسی طرف اسی سمت اس کا قیام ہے

کہیں آس پاس چھپی ہوئی مجھے خامشی سے ہے دیکھتی
وہ جو ہلکی ہلکی سی دھند میں مرے دل سے محوِ کلام ہے

یہ خیال ہے کہ یہ خواب ہے یہ عجیب طرزِ خطاب ہے
مرے لمبے لمبے سوال ہیں وہاں مختصر سا کلام ہے
مری سر پھروں میں بسر ہوئی مری دل زدوں میں گزر گئی
مری شیشہ سازوں سے دوستی مرا مے کدوں میں قیام ہے

مجھے سب ہیں یاد نشانیاں مرا عہد تجھ سے ہے جاوداں
ترا حسن حسنِ قدیم ہے مرا عشق عشقِ دوام ہے

وہی ہوش میں ہے، جنوں میں ہے، وہی موج زن رگِ خوں میں ہے
مری روح میں وہ مقیم ہے مرے دل میں محوِ خرام ہے