غزل

یہ تحریر 671 مرتبہ دیکھی گئی

o

میں سو رہا تھا تو بیدار کون تھا مجھ میں
نہیں تھا ہوش تو ہشیار کون تھا مجھ میں

مگر میں محو تھا اس چشمِ نیم وا میں کہیں
نہیں تھا میں تو طلب گار کون تھا مجھ میں

مجھے جو کہتا تھا وہ میں وہی تو لکھتا تھا
قلم سے آگے وہ فن کار کون تھا مجھ میں

میں سیر کرتا تھا دریا میں جس طرف چاہے
میں موجِ آب تھا پتوار کون تھا مجھ میں

میں خود ہی روٹھتا تھا خود ہی مان جاتا تھا
چھپا ہوا مرا غم خوار کون تھا مجھ میں

میں پار کر نہ سکا اپنے ہی بدن کو کبھی
بدن مرا تھا تو دیوار کون تھا مجھ میں

کوئی تھی آتشِ سوزاں کہ شعلہئ پیچاں
یہ کچھ نہ تھا تو شرر بار کون تھا مجھ میں

میں اپنے آپ کو سنگسار کرتا رہتا تھا
نہیں تھا میں تو گنہ گار کون تھا مجھ میں