غزل

یہ تحریر 663 مرتبہ دیکھی گئی

وہی ہوں میں وہی میری ازل کی حیرانی
وہی ہے تو وہی تیرا جمالِ لاثانی

میں عشق پیشہ، خمارِ وفا سے سرگشتہ
نگاہ کرنے کو نکلا ہوں حسنِ لافانی

ملی ہے مجھ کو طلب کی کمال تشنہ لبی
جو میری پیاس بجھائے، ملا نہ وہ پانی

یہ درد زارِ محبت، یہ شعلہ گاہِ جنوں
ہے اہلِ دل کے لیے جلوہ گاہِ فارانی

فروغِ رنگ سے ہے اعتبارِ خندہئ گل
وفورِ شوق سے نظّارے کی فراوانی

مرے خمیر میں شامل ہے مشکبوئے جنوں
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ چاک دامانی

میں لوحِ وقت پہ لکھتا ہوں درد کی تصویر
عطا ہوئی مجھے اندوہ کی فراوانی

میں جان دے کے بھی لے لوں اگر ملے مجھ کو
اس ایک شعلہ شمایل کی جلوہ سامانی

میں سینت سینت کے رکھتا ہوں اپنی سانسوں کو
مرے وجود میں ہے اس کی مشک افشانی

کبھی تو اترے یہاں بھی جلوسِ سبزہ و گل
زمینِ دل پہ کبھی بھیج ابرِ بارانی

جمالِ یار سے ہے کاروبارِ ہوش و جنوں
امیدِ وصل پہ موقوف درد سامانی

وفورِ لذتِ سجدہ نے کر دیا بے تاب
کہ فرشِ خاک پہ رکھ دی ہے میں نے پیشانی

ترا خیال ہے خوشبو نصیب، عنبر بیز
ہے تیرا ذکر بھی بادِ بہار بستانی

کس آفتاب شمایل کی آمد آمد ہے
سلام کرنے کو آیا ہے ماہِ کنعانی

فلک پہ حوریں ستارے لٹاتی جاتی ہیں
فضا میں سایہ فگن ایک ابرِ نورانی

غبارِ نور میں کس کی سواری آتی ہے
فرشتے ساتھ ہیں کرتے ہوے حدی خوانی

خوشا کہ آئی ہے ساعت ظہورِ قدسی کی
کہ آیا پیکرِ خاکی میں نورِ یزدانی

خوشا قبول ہوئی آج التجائے خلیلؑ
کہ بزمِ ہستی میں آئے حبیبؐ سبحانی

ہے ایک جشن مسرت بپا دو عالم میں
کہ آج لاتے ہیں تشریف ظلِّ سبحانی

ہے ان کا اسم محمدؐ، ہیں ابنِ عبداللہ
کہ جن کی کرتے رہے انبیا ثنا خوانی

حضورؐ! میں بھی ہوں حاضر درِ رسالت پر
میں لے کے آیا ہوں یہ ہدیہئ سخن دانی

اگر ہو اذن تو بندہ بھی لب کشائی کرے
قبول کیجے مرا ہدیہئ ثنا خوانی

سخن طرازی کا یارا نہیں بہ پاسِ ادب
بڑے ہی عجز سے ہے پیش مطلعِ ثانی

مطلع ثانی

اے تاج دارِ رسالت حبیبِ سبحانی
نہ دیکھا چشمِ فلک نے کوئی ترا ثانی

ترے ہی نور سے ہے، اکتسابِ حسن و جمال
تری نگاہ کا پرتو ہے ماہِ کنعانی

سکوتِ ظلمتِ شب میں طلوعِ نورِ مبیں
ہوائے حرص و ہوس میں نویدِ رحمانی

تو بے مثال ہے تیری کوئی نظیر نہیں
لباس سادہ کے اندر وجودِ نورانی

ہے تاج دار تو لیکن تری فقیری کو
ادب سے دیکھتی ہے سطوتِ سلیمانی

ترے حضور میں لب بستہ دانشِ جبریلؑ
ترے غلاموں سے عاجز حدیثِ لقمانی

ترے فقیروں کے دامن میں ہیں یدِ بیضا
ترے گداؤں کی ٹھوکر میں تاجِ سلطانی

ترے حضور زمیں بوس اوجِ پرویزی
تری جناب میں ہے با ادب سلیمانی

ترے جمال سے روشن ضمیرِ کون و مکاں
ترے جلال میں ہے عکس خوئے یزدانی

ترے وجود سے ہے عرش و فرش کی زینت
ترے کرم سے ہے صدق و صفا کی ارزانی

ترے نفس کی مہک سے گلوں میں بوئے بہار
تری ضیائے جبیں سے گہر میں تابانی

ترے سخن میں ہے پوشیدہ حکمتوں کا سراغ
ترے کلام سے ہے فاش سرِّ پنہانی

تری عطا سے ہے میزانِ عدل کو اثبات
سکھائے تو نے ہی رسم و رہِ جہاں بانی

ترے ہی در سے ہوا ہے سخاوتوں کا فروغ
ترے ہی گھر سے چلی راہ و رسمِ قربانی

جو تیری بزم میں آئے وہ سرفراز ہوے
ہے تیرے قرب میں دونوں جہاں کی سلطانی

مٹائے تو نے سبھی امتیازِ پست و بلند
پھر آدمی کو دلایا وقارِ انسانی

میں ایک شاعرِ مدحت سرا، تو بندہ نواز
بنا کے لایا ہوں حرف و سخن کی یہ گانی

نہیں ہے زعم کوئی قادر الکلامی کا
نہیں ہے مجھ کو کوئی دعویِٰ زباں دانی

تو شاہِ کون و مکاں، میں حریصِ حرف و نوا
کشادہ کر دے مرے دل کی تنگ دامانی

میں ایک بندہء بے وصف تو شہِؐ لولاک
کوئی صفت نہیں مجھ میں بجز مسلمانی

بہت خجل ہوں میں اس اپنی بے حضوری پر
ہے جی کا روگ شب و روز کی پریشانی

نہیں ہوں جاہ طلب، حرصِ زر نہیں مجھ کو
خوش آئی مجھ کو بہت اپنی فقر سامانی

اک افتخار ہے لیکن تری محبت کا
یہ ایک خاص ہے مجھ پر عطائے ربانی

ہیں تیرے نور سے روشن مرے لہو میں چراغ
ہے تیرے عشق سے قلب و نظر میں تابانی

ہے اسمِ پاک ترا وردِ خاص میرے لیے
یہی وظیفہ یہی میرا سرِّ عرفانی

یہ تیرے اسم کا اعجاز ہے کہ مجھ کو بھی
عزیز رکھتے ہیں کچھ بندگانِ لاثانی

اس ایک اسم کی تابندگی سے روشن ہیں
شکوہِ عقل و خرد اور حدیثِ وجدانی

حضورِؐ حسن کی گر چاکری ملے مجھ کو
قسم خدا کی نہ لوں دو جہاں کی سلطانی

ہوں خالی ہاتھ، نہیں کچھ بھی جیب و داماں میں
دل و نظر میں نہیں کچھ بجز پشیمانی

بس اک امیدِ شفاعت ہے شافعِؐ محشر
اسی سے رہتی ہے بس جان و تن میں آسانی

ہزار مدح، ہزاراں ہزار حمد و سلام
تمھیؐ کو زیبا ہے آقا سلامِ ربّانی