غزل

یہ تحریر 773 مرتبہ دیکھی گئی

ملا نہ مجھ سے نہ پوچھا کسی سے حال کبھی
گیا تو آیا نہ اس کو مرا خیال کبھی
غروب ہو گیا میرا بھی آفتاب آخر
میں سوچتا تھا نہ ہوگا اسے زوال کبھی
گئے تو بزم میں ہم اس کی بارہا لیکن
ہوا نہ زینتِ پہلو وہ خوش جمال کبھی
ہوا کے ساتھ جو رَم کررہے ہیں صحرا میں
شکار ہوں گے کسی سے نہ وہ غزال کبھی
بتوں کی چاہ میں جن کو خراب ہونا ہے
وہ سوچتے ہیں کہاں عشق کا مآل کبھی
بنا دے اپنے قلم سے مری بھی اک تصویر
مجھے بھی اپنے ہنر کا دکھا کمال کبھی
بہت ہے خوف تری خوبیِ بدن کا مجھے
نہ ہو خدارا میسر ترا وصال کبھی
ابھی ہے صورتِ شبنم ابھی ہے مثلِ شرر
نہ آیا اس کی طبیعت میں اعتدال کبھی
بہت سے آئینہ خانوں میں ہم گئے لیکن
نہ تیرے جیسے نظر آئے خد و خال کبھی
جو ایک بار یہ عہدہ چھنا تو پھر نہ ملا
ہوا نہ عشق کے منصب پہ میں بحال کبھی
دیا ہوا ہے یہ اُس کا تو ہے یہ جاں سے عزیز
نہ میرے زخم کا یارب ہو اندمال کبھی
یہ کون ہے کہ جو مجھ میں چمکتا رہتا ہے
کبھی ستارہ صفت ماہ کی مثال کبھی
انیس کو جو شب و روز یاد آتے ہیں
اب آئیں گے نہ پلٹ کر وہ ماہ و سال کبھی