غرض کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

یہ تحریر 2752 مرتبہ دیکھی گئی

جب سے انٹرنیٹ کو عروج حاصل ہوا ہے اخباروں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ خبروں کے لیے انھیں کم پڑھا جاتا ہے۔ کالموں کے مطالعے میں زیادہ دل چسپی  ظاہر کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اردو اخبارات کے صفحات پر بہت سے کالم نگار سامنے آ گئے ہیں اور ان میں سے بیشتر کی تحریریں پڑھ کر کہنا پڑھتا ہے کہ اگر  یہ حضرات کالموں کا سر پھوڑنے کے بجائے معاشرے میں کوئی مفید کام انجام دیتے تو بہتر ہوتا۔ ٹی وی چینلوں پر بھی یہی حال ہے۔ بیشتر اینکر (یا لنگر)، جنھیں بگڑے کالم نگار کہنا مناسب ہوگا، زیادہ باتیں خود ہی کرتے رہتے ہیں۔

میں اتفاق سے اب کوئی انگریزی یا اردو اخبار نہیں خریدتا۔ ان میں بالعموم اول تا آخر جو فضولیات چھپتی ہے اس کی ہر ماہ اتنی بھاری قیمت ادا کرنا بے عقلی ہے۔محض اتفاق سے میرے نوجوان کرم فرما، ساجد صدیق نظامی، شاہد ملک کے کالموں کا مجموعہ، جس کا عنوان “خوش کلامی” ہے، مجھے پہنچا گئے۔ میں ان کا ممنون ہوں ورنہ میں شاہد صاحب سے واقف نہیں تھا اور مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کسی اردو روزنامے میں باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ خدا کرے ابھی بھی لکھ رہے ہوں۔ “خوش کلامی” میں جو کالم یکجا کیے گئے ہیں وہ دو برسوں یعنی 2011ء اور 2013ء میں لکھے گئے تھے۔

ان کالموں کو پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اردو میں آج بھی چند اچھے کالم نگار موجود ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ نہ کچھ علم ہے۔ اب شاہد صاحب کو بھی ان کالم نگاروں کی صف میں جگہ دینی چاہیے جنھیں حقیقی معنی میں کالم لکھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ خیال ہے کہ وہ ایک مدت بی بی سی سے وابستہ رہے ہیں اور وہاں کا تجربہ ان کے بہت کام آیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بہت سے کالم نگاروں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے۔ کالم کا سرپیر نہیں ہوتا۔ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اور قلابازیاں کھاتی ہوئی کہیں پہنچ جاتی ہے۔ رہی شگفتگی، تو ان میں سے اکثر کو زبان پر اتنا عبور نہیں ہوتا کہ موقع محل کی مناسبت سے پھلجھڑیاں چھوڑتے جائیں۔ سرکہ جبینوں کو مزاج سے کیا نسبت۔

خواجہ زکریا نے اپنے تعارف میں صحیح لکھا کہ یہ کالم سے زیادہ انشائیے ہیں۔ کالم میں جو مضمون چھیڑا جائے اسے آخر تک نبھانا بڑی خوبی ہے۔ شاہد صاحب ادھر ادھر جھانک تو لیتے ہیں لیکن بات کے جس سرے کو تھامتے ہیں اسے آخر تک چھوڑتے نہیں۔ یکسوئی سے متانت ظہور میں آتی ہے اور جھانک تاک سے شگفتہ بیانی۔

پچھلے بیس برس میں دنیا بڑی تیزی سے بدلی ہے اور خود کو سنبھالے رکھنا مشکل ہو چلا ہے۔ اس تیز رفتاری میں عجیب اڑنگا نووارد وبا نے لگایا ہے۔ کیا دنیا کا نقشہ اور بدل جائے گا؟ کون جانے۔ بات بدلتی دنیا کی ہو رہی ہے اور ان کالموں میں اسی مضمون کو چھیڑا گیا ہے۔ ہمارے رویے کس طرح بدلے ہیں، ہمارا مزاج کیا سے کیا ہوا جاتا ہے۔ شاہد صاحب کی تحریروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے پچھلے بیس پچیس برس میں جو کھویا ہے وہ کئی لحاظ سے بیش بہا تھا اور اس کے بدلے میں جو حاصل کیا ہے اس کا قوام، چمک دمک کے باوجود، کچھ بگڑا بگڑا نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کالم تاسفانہ معلوم ہوئے ہیں لیکن اظہار کا پیرایہ اتنا سلیس اور ستھرا ہے کہ اپنے تمام المیوں میں کھٹ مٹھاپن شامل ہو گیا ہے۔ خاص بات یہ کہ شاہد صاحب اپنا مافی الضمیر صفائی سے ادا کرنے پر قادر ہیں۔ علاوہ ازیں، کبھی کبھی وہ نیا لفظ بھی گھڑ لیتے ہیں، جیسے ان لوگوں کی گفتگو کو، جو سر سر کی تکرار سے باز نہیں آتے، سرسراہٹ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کالموں کو پڑھتے ہوئے کیا کیا یاد آیا، کن لوگوں کی طرف خیال گیا۔ وہ افراد جن سے لاہور بلکہ پاکستان میں رونق تھی کیا ہوئے۔

اگر کالموں کے علاوہ شاہد صاحب فکشن بھی لکھتے توکیا خوب ہوتا۔ فکشن کی عمر کالموں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ فکشن نگاری کے لیے پوری طرح لیس ہیں۔ تجربہ ہے، زبان پر عبور ہے، طنز کرنا بھی جانتے ہیں۔ لطیف انداز میں چھیڑ چھاڑ بھی کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتِ حال کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں افسانے یا ناول لکھنے کا معقول تو کیا واجبی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ دوسرے یہ کہ اگر آپ صحیح معنی میں کوئی اورجنل ناول لکھ دیں تو شاید اسے قبولِ عام حاصل نہ ہو۔ ذہنی طور پر ہم پوپلے ہو گئے ہیں۔ مصنوعی دانتوں سے بعض چیزیں ہضم نہیں ہوتیں۔

خوش کلامی از شاہد ملک

ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

ص: 246؛ سات سو پچاس روپے