عزیزِ جہاں

یہ تحریر 2417 مرتبہ دیکھی گئی

یارِ عزیز، ندیم عزیز اللہ کو عزیز ہو گئے۔ وہ عزیزِ جہاں تھے، مالکِ دو جہاں کو بھی عزیز ہو گئے۔ وہ دادو ستد کے کھرے تھے، ملک الموت نے جوں ہی تقاضا کیا، انہوں نے نذرانہئ جاں پیش کر دیا۔ ان سے طے تو یہی ہوا تھا کہ میں ان کی ریٹائرمنٹ پر ان کا خاکہ تحریر کروں گا اور الوداعی تقریب میں پیش کروں گا، جہاں وہ خود بھی موجود ہوں گے، ہنستے مسکراتے ہوئے اور رجسٹر کے بغیر۔ رجسٹر گویا ان کے وجود کا حصہ تھا۔وہ رجسٹر کو ایک مقدس صحیفے کی طرح سینے سے لگائے پھرتے تھے۔ سینے کے داغوں کو پنہاں رکھنے کا انہوں نے خوب بہانہ بنا رکھا تھا۔ وہ ایک مکمل استاد تھے۔ وقت کے پابند، اپنے مضمون پر عبور، لہجے میں تاثیر، دل کش اندازِ تدریس اور سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے دردِ دل۔ آج ہماری جامعات میں باقی سب کچھ موجود ہے لیکن ہائے وہ دردِ دل۔ ندیم عزیز کے رخصت ہوتے ہی یہ گوہر بھی نایاب ہو گیا۔ وہ خود بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔ آخر وہ کب تک دل کے درد کو برداشت کرتے، دل تھا، کوئی سنگ وخشت نہیں تھا، آخر غم سے یہ پیمانہ بھر ہی گیا۔ دیکھا اس بیماریئ دل نے آخر کام تمام کیا!

دس برس قبل ندیم عزیز کا ایک شعری مجموعہ شائع ہوا جس کا نام ”درونِ دل“ تھا۔ یوں لگتا ہے کہ درونِ دل جو ہنگامہ برپا تھا، اس کی انہیں خبر ہو چکی تھی اور خانہئ دل کی جو دیوار گری تھی، وہ اس کا شور سن چکے تھے۔ اس مجموعے میں ایک نظم ”بائیس جون“ کے عنوان سے ہے۔ یہ نظم انہوں نے اپنے والدِ مرحوم کی یاد میں لکھی تھی۔ آج یہی مرثیہ ندیم عزیز کے بیٹے کے لبوں پر ہے:

بائیس جون

برگد جو مرے سر پہ گھنا تھا وہ گرا ہے

یہ وقتِ دعا مالکِ جاں مجھ پہ کڑا ہے

دل ٹوٹ کے روتا نہیں رکھتا ہے بہت ضبط

رستا ہے جہاں خون وہاں زخم بڑا ہے

برسات میں چھت سب کے سروں پر نہیں ہوتی

مالک میں سرِ خم ہوں کہ یہ تیری رضا ہے

یہ رات بسر ہو گی فقط تھام کے یادیں

یادوں کے سوا میرا یہاں کون بچا ہے

ممکن ہے سحر ہونے کو جلتی رہیں آنکھیں

دیپک جو بہت دیر جلا تھا وہ بجھا ہے

وہ ابر تھا چپ چاپ دیئے جاتا تھا چھاؤں

اب دھوپ کا نیزہ لئے ہر شخص کھڑا ہے

وہ ایک مقبول اور ہر دل عزیز استاد تھے۔ وہ ان خوش قسمت اساتذہ میں شمار ہوتے تھے جن کو پیشہئ تدریس میں قدردانی اور نیک نامی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے قابلِ قدر اساتذہ کی بدولت ہی تدریس کو پیشہئ پیغمبری کہا جاتا ہے۔ جب وہ حیات تھے تو میں اکثر ان سے کہا کرتا تھا کہ میں آپ کی مقبولیت سے حسد کرتا ہوں۔ وہ میری بات سن کر ہنس دیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ حسد کی صرف یہی ایک صورت جائز ہے۔ اسی کا نام رشک ہے۔

ندیم عزیز مجسمہئ شرافت تھے۔ اگلی شرافت کا نمونہ تھے۔ ان کے ہاتھ اور زبان سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ دشنام طرازی ان کا شیوہ نہیں تھا۔ وہ کبھی نامناسب اور غیر اخلاقی بات نہیں کرتے تھے۔ لغو لطائف سے وہ گریز کرتے تھے۔ لطیف طبع تھے اور لطیف بات ہی پسند کرتے تھے۔ قدرے تفصیل پسند تھے اور بات کو جزئیات کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ حکایت لذیذ ہو یا بے لذت، وہ ہر صورت میں قصے کو دراز کر دیا کرتے تھے۔انہیں شاید یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اور پھر یہ سازِ ہستی بے صدا ہو جائے گا:

ثروت تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو

جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہیں ہوگا

مسٹر چپس قیدِ نصاب سے آزاد ہوئے اور ندیم عزیز قیدِٖحیات سے۔ ندیم عزیز، مسٹر چپس سے کم تو نہ تھے مگر انہیں کوئی ناول نگار نصیب نہ ہوا جو ان کے کردار کو زندہئ جاوید کر دیتا۔ ہمارے عہد کا یہ کتنا بڑا ادبی المیہ ہے کہ کردار بھی موجود ہے، کہانی بھی دل چسپ ہے لیکن ان کو بیان کرنے والا موجود نہیں۔ناول نگار میسر نہیں تو کیا ہوا، ندیم عزیز کا افسانوی کردار اپنے دوستوں اور شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ندیم عزیز ایک سادہ اور معصوم انسان تھے۔ جنت سادہ اور معصوم انسان کا مسرت کدہ ہے۔ جنت چالاکوں کی بستی نہیں، مکاروں کی نگری نہیں۔ ندیم عزیز اپنے ایک عزیز کا واقعہ ادائے معصومیت سے سنایا کرتے تھے۔ ان کا ایک عزیز تھا جو خود کو ایک ماہر نشانے باز خیال کرتا تھا اور اپنی اس مہارت پر فخر کا اظہار کرتا تھا۔ ایک بارندیم عزیز کے سامنے اس نے چڑیا کا نشانہ باندھا لیکن نشانہ خطا ہو گیا اور چڑیا اڑ گئی۔ اس پر اس عزیز نے کھسیانا ہو کر کہا کہ ”چھرا“چڑیا کو لگ چکا ہے، اب یہ اپنے گھر جائے گی، پانی پیے گی اور پھر مر جائے گی___ندیم عزیز خاص خاص موقعوں پر یہ لطیفہ سنایا کرتے تھے۔ وہ حاکم وقت کے سامنے کلمہئ حق کہنے کی جرأت رکھتے تھے۔ وہ حق گوئی زیادہ تر براہِ راست کرتے تھے مگر کبھی کبھی حکمت اور مصلحت کے تحت بالواسطہ بھی یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔ وہ حاکمِ وقت کے کسی خاص غلام کے سامنے کوئی سچی بات کہتے جس میں پوشیدہ دھمکی بھی ہوتی تھی اور پھرجب وہ غلام رخصت ہو جاتا تو کہتے تھے ”چھرا“ چڑیا کو لگ چکا ہے، اب یہ اپنے گھر جائے گی، پانی پیے گی اور پھر مر جائے گی۔“

ندیم عزیز معصومیت، مصلحت، جرأت اور حکمت کا مرقع تھے۔ ملازمت کا تمام عرصہ انہوں نے اسی انداز میں بسر کیا۔ ندیم عزیز کا باطن بھی خوب صورت تھا اور ظاہر بھی۔ وہ ایک خوش لباس انسان تھے۔ میں نے انہیں کبھی لباس عام میں نہیں دیکھا۔ روزانہ شیو بناتے تھے۔ نماز جنازہ سے قبل میں نے آخری بار انہیں دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح شیو بنی ہوئی، تروتازہ چہرہ۔ پہلی بار ان کے آنکھوں پر چشمہ نہیں تھا۔ آنکھیں بند تھیں، گہری نیند سورہے تھے اور ان کے سرہانے ان کا ایک نابینا طالب علم آنسو بہا رہاتھا۔