شہرِ افسوس

یہ تحریر 4237 مرتبہ دیکھی گئی

افسانے خواہ کسی کے ہوں، مجموعے کی صورت میں شائع ہونے پر تھوڑی بہت ناقدری کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں افسانہ ادب کی مقبول ترین صنف ہے اور قاری اگر یہ سمجھے کہ مجموعے میں شامل ہر افسانہ پہلے ہی کسی نہ کسی رسالے میں نظر سے گزر چکا ہے تو حق بجانب ہے۔ اس بنا پر کتاب کی جاذبیت میں فرق آنا لازمی سی بات ہے۔

پھر یہ کہ بہت سے افسانے اس قابل ہوتے بھی نہیں کہ انھیں دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا کی جائے۔ شاید پہلی بار پڑھ کر بھی پشیمانی ہوئی ہو۔ تاہم ہمارے اچھے افسانہ نویسوں کی تخلیقات ہم سے کم از کم اتنا تقاضا تو کر سکتی ہیں کہ انھیں بار بار پڑھا اور پرکھا جائے۔ اگر کسی افسانہ نویس کے مزاج، نہج اور حیثیت کا منصفانہ اندازہ لگانا مقصود ہو تو اس کے بہت سے افسانوں کو یک مشت بلکہ بیک نشست یا دو تین دن کے اندر اندر پڑھ ڈالنا ضروری ہے۔ ادبی رسالوں میں، جو بالعموم نہایت بے قاعدگی سے شائع ہوتے ہیں، کبھی کبھار افسانے پڑھ لینے سے پوری تصویر سامنے نہیں آتی۔

انتظار حسین ہمارے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ہیں جن کے افسانے خود کو اپنے اندر سے سیراب رکھنے کا ایسا  گُر جانتے ہیں کہ ان کی ترو تازگی میں کمی نہیں آنے پاتی۔ یہ معاملہ نہیں کہ افسانوں کے سر پر دو چار نقاد ہزارے لیے کھڑے ہیں، پتّا پتّا دھل رہا ہے، جڑوں میں بورے بھر بھر کر مصنوعی کھاد ڈالی جا رہی ہے اور پڑھنے والوں کا پھر بھی بھلا نہیں ہوتا۔ انتظار حسین کے افسانوں کا نیا مجموعہ “شہرِ افسوس” نہ صرف بہت خواندنی ہے بلکہ بڑی شد و مد سے یہ جتاتا ہے کہ ہمارے گرد و پیش کی بگڑی بگڑی کیفیت کس مرض کی غماز ہے۔

انتظار حسین کے پچھلے مجموعے میں زیادہ ہم خیالی موجود تھی۔ وہاں موضوعات آپس میں پیوست تھے جیسے ہاتھ  میں ہاتھ دیے دائرہ بنا کر کھڑے ہوں۔ نثر جیسے بیل بوٹے کٹ چھنٹ کر ہلکے اور رام، جیسے کوئی تصویر یک رو، اور ساتھ میں گرسنگی کا پہلو سا گویا لفظ دھوپ کھا کھا کر بھوک پیاس سے بے رنگ ہوئے جا رہے ہوں۔ جب ملکوں میں بھوک بڑھتی  ہے تو وہ انسانوں کے چہروں ہی سے نہیں، عبارتوں کے حلیے سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ وہ مجموعہ کلی طور پر طبیعت کے اس پھیکے پن کے اسباب کا بے کم و کاست جھرمٹ تھا جو انسانوں کی تخلیق کی اپج کو گُھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ پڑھنے والے  کی طبیعت اس بیان سے اِبا کرے نہ کرے، طریقِ کار کے موثر ہونے میں شبہ نہیں۔ بہرحال، نئے مجموعے میں کوئی ڈھب ایسا نہیں جو ناہمواریوں کو لیپ پوت کر برابر کر دے۔ اس میں بیچوں بیچ تیڑ آئی ہوئی ہے۔ تجربے اور مشاہدے کے دو غیر مشابہ علاقے ایک دوسرے میں ٹانک دیے گئے ہیں مگر وہ آپس میں حل ہونے سے انکاری ہیں۔

اپنے پچھلے مجموعے کی اکڈال ہیئت کے مدِنظر انتظار حسین نے اس میں بعض افسانے شامل نہیں کیے تھے۔ ان پس ماندگان کو “شہرِ افسوس” میں کھپایا گیا ہے۔ مگر یہ افسانے مدتوں پہلے لکھے گئے تھے، ایک اور مزاج کا  عکس ہیں اور ان کی نثر میں بھی ایک مخصوص رکھ رکھاؤ ہے جو اب انتظار حسین کے نقطہء نظر اور اسلوب سے میل نہیں کھاتا۔ اس لیے یہ نیا مجموعہ ایسا نظر آتا ہے جیسے دو کتابوں کو ایک دوسرے میں تہ کرکے ایک جلد کی شکل دے دی گئی ہو۔

ایک ہی قالب میں دو کتابیں، تجربے کے دو متضاد احاطے، موجود اور مختلط: ایک تو گُھنّی دقیانوسی دنیا، ارمان بھری، مگر جس میں اتنا دم خم نہیں کہ رسوم و قیود کی ان بیڑیوں کو، جو پشت ہا پشت کی میراثِ مسلسل ہیں، توڑ کر پھینک دے؛ دوسری نئی دنیا، جو کچھ کم گُھنّی نہیں، جرائم پرور، ناگہانی اور تشنج زدہ۔ ان افسانوں میں کوئی مقام ایسا نہیں آتا جہاں  یہ دو دنیائیں دھیرج سے ایک دوسرے کو چھوتی ہوں بلکہ پرانے وقتوں کی گھریلو زندگی کے مناظر پر نئی اور پُرہول شبیہوں کی  چھدری تہ اس طرح چڑھتی جا رہی ہے کہ پہچان میں کچھ نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف بیس تیس برس ہی کی مدت میں ہر شے فوکس سے قطعاً باہر ہو چکی ہے۔

وہ افسانے، جن کے معاملات کا تعلق ایک پرانے نظام سے ہے جس میں ٹھیراؤ اور ربط تھا، بظاہر، ایک اعتبار سے، امتیازی حیثیت کے مالک نظر آتے ہیں، گو اس کا سبب صرف یہی نہیں کہ وہ نئے افسانوں سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے۔ ان افسانوں میں وہ بالخصوص عمدہ ہیں۔ “کٹا ہوا ڈبا” جو مختلف کرداروں کی آپ بیتیوں کی انمل بے جوڑ ترتیب ہے جس کی معنویت اسی بے ترتیبی میں نمایاں ہے۔ ان میں سے ایک کردار کی آپ بیتی کا یہی مقصد ہے کہ آخر تک مکدر رہے۔ یہ دروں بینی کا مطالعہ ہی نہیں بلکہ اس میں تخلیقی عمل کے مضمرات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ افسانے کی مدد سے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے کہ بعض تجربات کا ابلاغ یا رہائی اسی صورت میں ممکن ہے جب آدمی کسی تخلیقی سطح پر ان کی کایا پلٹ کر چکا ہو۔ “سیڑھیاں” میں بڑی نفاست  اور چمک دمک سے بیان کیا گیا ہے کہ آس پاس والوں کی بات چیت سے ایک سامع کی بچپن کی یادوں پر کیسی رنگا رنگ چھوٹ پڑتی ہے۔

لیکن یہ دفترِ خستہ ورق تو سمیٹا جا چکا۔ خواب و خیال کی اس رگ سے خون کی آخری بوند بھی نچڑ چکی۔ انتظار حسین کے تازہ افسانوں کو نمایاں طور پر ہمارے عہد کی جراحتوں اور سیاسی المیوں سے سروکارہے کہ انھی کی بدولت ہماری اقدار بے اثر ہوئی ہیں اور توانائی مکروہات کی بھینٹ چڑھی ہے۔ پچھلے دس بارہ برس کے واقعات سوکھی بالن کا انبار ہیں جنھیں جھونک جھونک کر انتظار حسین نے اپنی آگ بڑھکائے رکھنے کا سامان کیا ہے۔ ایوب خاں کی حکومت کے خلاف اندر ہی اندر سلگتی ہوئی بے اطمینانی، 1965ء کی جنگ کا تشویش خیز انجام، 1967ء میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی رسوائی، 1971ء میں مشرقی پاکستان میں دل دہلا دینے والا کشت و خون اور پھر مقطع کے طور پر دسمبر 1971ء کی فوجی ہزیمت __ یہ سب واقعات گویا ان تیرہ و تار افسانوں کے مضروب اور لہولہان بدن میں بڑی بڑی میخوں کی طرح یوں ٹھکے ہوئے ہیں کہ دم مارنے کی گنجائش بھی باقی نہیں، مخلصی کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی، یہ نصیب اپنی سب خوش فہمیوں سمیت ہانکے پکارے شکار ہوتے پھرتے ہیں۔ انھیں جڑوں سے اکھاڑ کر اوپر تلے اس طرح آگ دی جاتی ہے کہ پھر ان کے آثار میں مشتِ خاکستر ہے یا بادِ صرصر۔

یہ صورتِ حال پوری وضاحت سے انتظار کے دو تازہ افسانوں میں نظر آتی ہے: “وہ جو کھوئے گئے” میں، جہاں بے عملی، تذبذب اور نام نہاد سستاہٹ کے پس منظر میں کسی گزرے ہوئے طوفان کا عکس سا دکھائی دیتا ہے، اور “شہرِ افسوس” میں، جہاں اول تا آخر ایک ہیجانی کیفیت ہے۔ ان افسانوں کے کردار، اور تو خیر کیا، اپنے نام تک کھو چکے ہیں۔ ان دوزخی مناظر میں ہر کوئی جان بچانے کے لیے دوڑا دوڑا پھر رہا ہے، اور ڈراؤنی بات یہ ہے کہ تگ و دو کرنے والوں کو نجات کی مطلق امید نہیں۔ فضا میں دہشت زدگی، بدگمانی اور بے مقصدیت رچی ہوئی ہے اور تناسب، وقت اور مقام کا ہر احساس ریزہ ریزہ ہو کر مٹ رہا ہے، حتیٰ کہ جان بچا لینے کی خواہش بھی نیت یا جبلت سے بے تعلق سی دکھائی دیتی ہے، بالکل پادر ہوا! ان سب کوائف کو یکجا کرنے سے  بالآخر ان افسانوں کے باطن سے یہی ابھرتا ہے کہ صورتوں پر بے ننگ و نامی کی مہریں ثبت ہونے کی اس گھڑی میں یہ بے نام اور بے زبان ہجوم، جو تاریخ کی شاہراہ سے ہٹا ہوا، ادھر ادھر کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں پڑا گل سڑ اور مر رہا ہے، کسی آنے والے آشوب کی دلیل ہے یا نجات کے تمام دروازے تیغے کیے جانے کے بعد کسی چپچپی کال کوٹھری جیسی سرسامی ابتری میں نامرادانہ  زیست کرنے کا کوئی سبق ہے۔

انتظار حسین کے ان افسانوں میں دنیا تقریباً آخری دموں پر ہے۔ اس کے بعد کیا ہونا ہے؟ آتشیں کھمبیاں،  تاب کار باد و باراں، کون و مکاں کی تعمیر میں عدم کے گھپ اندھیرے شبکّے اور وہی “سرِ آبِ روانِ شہرِ بابل__”

(“سویرا”)