شمیم حنفی: جتنا میں نے جانا

یہ تحریر 1294 مرتبہ دیکھی گئی

یاد نہیں آتا کہ شمیم حنفی سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اس ملاقات کا اثر مجھ پر بہت خوشگوار ہوا تھا۔ نفیس اور نستعلیق لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ مجھے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے، سو شمیم حنفی سے مل کر بھی میں بہت خوش ہوا، سنبھلا اور سدھا ہوا لہجہ، آواز نہ اونچی نہ بہت نیچی، جملے بہت مرتب اور انداز بڑا مہذب۔ ایسی شائستہ کلامی لوگوں میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اور خوش پوشی اور جامہ زیبی ایسی کہ نگاہ میں سما جائے۔ شمیم حنفی کا باقاعدہ ذکر سب سے پہلے میں نے نیرمسعود کی زبان سے سنا تھا۔ نیرمسعود محمدحسین آزاد کی نثر کے بہت قائل تھے۔ جب بھی اچھی اور عمدہ نثر کا ذکر آتا وہ سب سے پہلے آزاد کا نام لیتے۔ اسی ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ڈی. فل کے مقالوں کے ممتحن کے طور پر میرے والد (مسعودحسن رضوی) کے پاس جو مقالے آتے تھے، اُن میں انہیں جو بہت زیادہ پسند آتے انہیں ابا کا جی چاہتا کہ واپس نہ کیا جائے۔ انہیں بہت زیادہ پسند آجانے والے مقالوں میں آزاد پر لکھا ہوا شمیم حنفی کا مقالہ بھی تھا۔ نیرمسعود بتاتے تھے کہ ابّا ہر آنے والے سے بڑی تعریفوں کے ساتھ اس مقالے کا ذکر کرتے اور یہ بھی کہتے کہ پی. ایچ. ڈی کا مقالہ اسی طرح لکھا جانا چاہئے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک بار نیرمسعود نے یہ مقالہ مجھے دکھایا بھی تھا۔ مقالہ شمیم حنفی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا (اس وقت اردو ٹائپنگ کی سہولت نہیں تھی) اور ان کی لکھاوٹ میں بھی وہی نفاست تھی جو ان کی شخصیت میں تھی۔

شمیم حنفی سے ملنے سے پہلے اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں ان کی تحریریں ’شب خون‘ میں برابر پڑھتا رہتا تھا۔ ’شب خون‘ کے ساتھ شمیم حنفی بلراج مین را کے ’شعور‘ اور محمودایاز کے ’سوغات-۲‘ میں بھی خوب لکھ رہے تھے۔ ’شعور‘ کی اشاعت اور اس کی تیاری میں تو شمیم حنفی عملاً شریک تھے۔ اس رسالے کی تزئین و ترتیب میں اُن کا جمالیاتی شعور بھی کارفرما تھا۔ ’شعور‘، ’سوغات‘ اور ’شب خون‘ کی اشاعت کے زمانے میں ادبی دنیا میں بڑی گہماگہمی تھی۔ ان تینوں رسالوں میں نہایت عمدہ مضامین شائع ہورہے تھے اور اعلیٰ پائے کی ادبی بحثیں چھڑی ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں شمیم حنفی کا قلم بہت رواں تھا۔ میں ان کی تحریریں پڑھ کر ایک بات محسوس کیے بغیر نہ رہ پاتا۔ وہ یہ کہ ان کی عبارت میں کہیں بھی کھانچا یا سکتہ نظر نہیں آتا تھا۔ ایسی لفظ بستہ عبارت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی بندھی ہوئی عبارت ان کی تحریر میں ایک اندرونی آہنگ پیدا کرتی ہے اور بسااوقات پڑھنے والا اسی آہنگ میں بہہ کر ان کے نفسِ موضوع کو بھلا بیٹھتا ہے۔

تو ان کی نثر کی اسی کشش نے ہمیں ان کی طرف مائل کررکھا تھا اور پھر وہ ساعت بھی آئی جب ہماری ان سے ملاقات ہوگئی۔ جاے ملاقات، بتایا جاچکا ہے، ٹھیک سے یاد نہیں۔ لیکن ملتے ہی پہلا احساس یہ ہوا کہ ہم ایک سچے ادیب سے مل رہے ہیں۔ سچا ادیب میں نے اس لیے کہا کہ ہمارے یہاں ادیبوں کے بہت سے قبیلے ہیں۔ ایک قبیلہ وہ ہے جو صرف حصولِ شہرت کے لیے لکھتا ہے۔ دوسرا قبیلہ وہ ہے جو دوسروں پر اپنے علم کی دھاک جمانے کے لیے قلم اٹھاتا ہے۔ اس قبیلے کے لوگ خودستائی میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ ایک بڑا سا ”میں“ ان کی تحریر میں ہر جگہ موجود رہتا ہے۔ اورتیسرا قبیلہ وہ ہے جو مسرت اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتا ہے۔ شمیم حنفی کا تعلق اسی تیسرے قبیلے سے تھا۔ وہ پڑھتے تھے، سوچتے تھے اور لکھتے تھے۔ پڑھنے اور دلجمعی کے ساتھ پڑھنے کی روایت تو اب ہمارے یہاں سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے زمانے کے ادیب صرف لکھتے ہیں اور پڑھتے اسی وقت ہیں جب لکھنے کے لیے انہیں پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض ادیب تو ایسے ہیں جو لکھنے کے لیے بھی پوری طرح نہیں پڑھتے اور پورا مضمون حوالوں کی نذر کردیتے ہیں۔ دانش گاہوں کا عالم یہ ہے کہ وہاں مصنوعی لیاقت پنپ رہی ہے۔ بہت کم ایسے اساتذہ ہیں جو پوری دلچسپی اور دیانت داری کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے کام میں مصروف ہوں۔ تو پڑھنا اب ہمارے شوق میں شامل نہیں ہے اور کہا جاچکا ہے کہ لکھنا نہ ہو تو ہم شاید اتنا بھی نہ پڑھیں جتنا لکھنے کے لیے ضروری ہے۔

شمیم حنفی اسکول کے زمانے ہی سے مطالعے کے بہت شوقین تھے۔ بڑے ہوتے ہوتے انہوں نے بہت کچھ پڑھ ڈالا تھا۔ اللہ نے انہیں حافظہ بھی لائقِ رشک عطا کیا تھا۔ جو پڑھتے تھے اسے اچھی طرح یاد رکھتے تھے۔ میرا اور ان کا دو یا تین بار پاکستان ایک ساتھ جانا ہوا۔ وہاں کے جلسوں میں جب وہ ناصرکاظمی، مجیدامجد یا منیرنیازی کی پوری کی پوری غزلیں اور نظمیں سنانے لگتے تو مجمع ان کے حافظے پر عش عش کرنے لگتا۔ تو پڑھنا اور اپنی روح کو روشن کرنے کے لیے پڑھنا شمیم حنفی کے واجبات میں شامل تھا۔ اور سمجھ لیجیے کہ جب روح روشن ہوتی ہے یعنی باطن میں ایک شعلہ سا لپکتا ہے تو ذہن میں سرشاری پیدا ہوتی ہے۔ شمیم حنفی کو ادب کے مطالعے میں یہی سرشاری عزیز تھی۔ انہوں نے اگرچہ بہت لکھا لیکن اتنا لکھنے کے باوجود ان کا پڑھنا ان کے لکھنے پر غالب رہا۔ ہماری ادبی دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے پڑھا زیادہ اور لکھا کم۔

o

شمیم حنفی سے ملنے اور ان کے ساتھ دیر دیر تک بیٹھنے کے بعد میں نے جانا کہ ان کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نیرمسعود کی طرح انہوں نے بھی اپنے آپ کو صرف ادب تک محدود نہیں کررکھا تھا۔ ہر لطیف فن سے ان کی خاطرخواہ واقفیت تھی۔ شاعر اور مصور تو وہ خود بھی تھے، رقص، موسیقی اور مجسمہ سازی سے بھی ان کو خاصا شغف تھا۔ اُن سے جب بھی اِن فنون پر گفتگو ہوتی، وہ ان میں ڈوب جایا کرتے اور بہت دور نکل جاتے۔ ایسے موقعوں پر وہ اپنے بولے ہوئے ایک ایک لفظ سے محظوظ ہوتے۔ ان فنون سے ان کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر کبھی کبھی یوں لگتا کہ وہ ان فنون سے حظ اٹھانے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔

نیرمسعود اور شمیم حنفی کے یہاں فنونِ لطیفہ سے شدید دلچسپی کا پہلو تو مشترک تھا ہی اس کے علاوہ دونوں کو پھولوں، پرندوں اور درختوں سے بھی ایک سی محبت تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ شمیم حنفی باہر نکل کر مناظرِ قدرت کا عملاً نظارہ کرتے تھے اور نیرمسعود گھر کے اندر رہ کر ہی ان منظروں سے محظوظ ہولیتے۔ پھولوں اور پودوں سے شمیم حنفی کی شدید رغبت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب وہ چھت پر مجھے اپنا باغ دکھانے لے گئے۔ اس چھوٹے سے ہرے بھرے باغ کو دکھاتے وقت جب انہوں نے پھولوں اور پودوں کی قسمیں بیان کرنا شروع کیں تب میں باغ کے متعلقات سے متعلق ان کے معلومات پر حیران رہ گیا۔ مناظرِ قدرت سے شمیم حنفی کے محظوظ ہونے کا عالم میں نے ماریشس کی عالمی اردو کانفرنس میں اس وقت دیکھا جب ڈوبتے ہوئے سورج کی لالی میں سمندر کی آتی جاتی لہروں کو دیکھ کر ان پر وجدانی کیفیت طاری ہونے لگی۔

o

ادب خوانی اور ادب فہمی دونوں کے عمل میں شمیم حنفی کا زاویہ خالص ناقدانہ (تجزیاتی) نہیں تھا۔ وہ فن پارے کے مجموعی تاثر کو اہم جانتے تھے۔ (اُن کے اس ادبی رویے پر موقع ملا تو الگ سے ایک مضمون پر گفتگو کی جائے گی۔) یعنی وہ یہ دیکھتے تھے کہ کسی تخلیق نے مجموعی طور پر ان کے ذہن پر کیا اثر مرتب کیا ہے نیز کسی تخلیق کا مطالعہ کرتے ہوئے انہیں کتنا حظ (مسرت) حاصل ہوا اور اس نے ان کی ذکاوت میں کتنا اضافہ کیا۔ شمیم حنفی نے اگرچہ اپنی ایک اہم کتاب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ کی تصنیف کے وقت کم و بیش سارے نئے نظریوں اور فلسفوں کا مطالعہ کرلیا تھا لیکن وہ اُن ناقدین کے شاکی ہمیشہ رہے جو فن پارے کی تعبیر میں ان فلسفوں اور نظریوں پر فن پارے کو قربان کردیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان فلسفوں اور نظریوں کے بغیر بھی ہم فن پارے کی تحسین کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ اس کا ایک سبب میری نگاہ میں یہ ہے کہ شمیم حنفی نے کلاسیکی ادب کا بغور اور بالتفصیل مطالعہ کیا تھا۔ اسی مطالعے نے ان کے اس اعلا ذوق کی تربیت کی تھی جو کسی فن پارے کے مطالعے میں جمالیاتی حظ کے حصول کو اوّلین شرط قرار دیتا ہے۔ اپنی تقریروں اور تحریروں میں انہوں نے بارہا اس پہلو کی طرف اشارے کیے ہیں کہ فن پارے کی تعیینِ قدر میں علم ذوق پر حاوی ہونے لگا ہے۔ شمیم حنفی کا ایسا سمجھنا غلط نہیں تھا بالخصوص ایسے زمانے میں جب بیشتر نقادوں نے تنقید کے میدان میں اپنا سفر بیچ سے شروع کردیا ہے۔ یعنی وہ جڑوں کو جانے بغیر پتوں کی صفتیں بیان کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ (جواں سال) ادیب اور نقاد مغربی فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے اقوال اتنے اعتماد کے ساتھ نقل کرتے ہیں گویا انہوں نے ان عالموں اور دانشوروں کو حرفاً حرفاً پڑھ رکھا ہو۔ مزید یہ کہ اب معنی یاب نقادوں کے بجائے معنی ساز نقاد پیدا ہورہے ہیں۔ فرار کی صورت اختیار کرنے کی غرض سے ایسے نقاد فن پارے کے اندر موجود معنی کو پانے کے بجائے اپنی طرف سے معنی بناکر اس کے اندر رکھ دینے کا کام کررہے ہیں۔ یہ بات جب میں نے شمیم حنفی سے کہی تو انہوں نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا۔

o

شمیم حنفی سے ہم نے دکنی شعراء کے اشعار بھی سنے، میر و سودا کی غزلیں بھی سنیں، انیس کا مرثیہ اور نظیر کی نظمیں بھی انہیں حفظ تھیں اور اقبال، جوش اور فیض کے سخن پارے بھی ان کو نوکِ زباں تھے۔ ان کا امتیاز یہ تھا کہ جتنی تعداد میں انہیں پرانے شاعروں کا کلام یاد تھا اسی کثرت سے نئے شعرا کے اشعار بھی ان کی زبان پر آتے رہتے تھے۔ یہی امتیاز انہیں نثر کے مطالعے میں بھی حاصل تھا۔ ’آرائش محفل‘ سے لے کر نیرمسعود کی نثر اور فکشن کے نئے لکھنے والوں کی تخلیقات تک انہوں نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا اور اپنے وجدان و بصیرت کی سطح پر اسے اچھی طرح انگیز بھی کیا تھا۔ فکشن کے رموز تک بھی وہ اپنے وجدان ہی کی راہ سے پہنچتے تھے اور وہاں سے بہت سے موتی نکال لاتے تھے۔ آج اپنی ذکاوتوں کی دنیا میں ادب سے اس نوع کی وجدانی اور جمالیاتی مسرت و بصیرت حاصل کرنے والے ادیب کہاں ہیں۔

ایک بات اور عرض کرتا چلوں نیرمسعود کہا کرتے تھے کہ ادب کے مطالعے اور اس کی تحسین کا حق بجاطور پر ادا کرنے کے لیے اردو کے علاوہ کم سے کم دو اور زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ اور وہ ہیں انگریزی اور فارسی۔ آج ہمارے بیشتر ادیب اور نقاد اس شرط کو پورا نہیں کرتے۔ ایسے ادیب آپ کو بہت کم ملیں گے جن کی ان تینوں زبانوں سے بخوبی شناسائی ہو۔ اور بعض ادیب اور نقاد تو ایسے ہیں جو اردو بھی، کہنا اچھا نہیں لگ رہا ہے، اچھی طرح نہیں جانتے۔ شمیم حنفی کی فارسی اور انگریزی دونوں زبانوں سے خاطر خواہ واقفیت تھی۔ ان کی تحریروں کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ظاہر ہوجاتی ہے۔علاوہ بریں ایک افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ اچھے خاصے نقاد طبع کی موزونی سے بھی محروم ہیں۔ شاعری کی تنقید کے لیے نقاد کا موزوں طبع ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس کی طبیعت میں موزونیت نہیں ہے تو وہ نہ تو بہ اعتبارِ وزن شعر کی قرأت کرسکے گا نہ بہ اعتبارِ لہجہ۔ اگر اس نے شعر کے مطلوبہ آہنگ کے بغیر کسی طرح شعر کو پڑھ بھی لیا تو لہجے کے اعتبار سے شعر کا پڑھنا اس کے لیے مشکل ہوگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایک شعر میں کئی لہجے ہوتے ہیں اور ہر لہجے میں معنی کی ایک نئی جہت ہوتی ہے۔ نئے کیا ہمارے پرانے اور بزرگ نقادوں میں بھی ایسے کئی حضرات تھے جو اپنی ناموزووں خوانی کے لیے مشہور تھے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اس کمی کے باوجود وہ شاعری کے نقاد کے منصب پر فائز رہے۔ شاعر ہونے کی وجہ سے شمیم حنفی شعر کی قرأت نہ صرف اس کے مطلوبہ آہنگ کے تحت کرتے تھے بلکہ شعر پڑھتے وقت اس کے اندر پوشیدہ لہجوں کو بھی نمایاں کردیتے تھے۔ اس طرح ادب کی تحسین کا حق بطریقِ اولیٰ ادا کرنے کے لیے جن ممکنہ تقاضوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب اُن کے اندر پوری طرح موجود تھے۔ خیر! شمیم حنفی کے تنقیدی نقطہئ نظر اور طریقہئ کار پر، عرض کیا جاچکا ہے کسی اور مضمون میں گفتگو کی جائے گی۔

o

میری خوش بختی یہ رہی کہ مجھے ایسی شخصیتوں کی صحبتوں میں بیٹھنے کے مواقع حاصل رہے جن سے علم و ادب کے علاوہ کسی اور موضوع پر گفتگو ہوتی ہی نہیں تھی۔ اِن میں ایک تو میرے استادِ محترم پروفیسر شبیہ الحسن تھے، دوسرے نیرمسعود اور تیسرے فاروقی، شاگرد ہونے کی وجہ سے پروفیسر شبیہ الحسن کے یہاں مسلسل حاضری رہتی۔ نیرمسعود کا معاملہ یہ تھا کہ استادِ محترم کے یہاں سے اٹھے اور سیدھے نیرمسعود کے یہاں پہنچے اور رات کا پہلا پہر انہیں کی قیام گاہ پر گزارا۔ فاروقی اپنی ملازمت کے سلسلے میں لکھنؤ میں بہت دن رہے اس لیے ان کے ساتھ خوب اٹھنا بیٹھنا رہا۔ شمیم حنفی سے دیر سے ملاقات ہوئی لیکن جب ہوئی تو ان کا ساتھ اچھا خاصا رہا۔ جلسوں اور سیمیناروں میں تو ان سے آمنا سامنا ہوتا ہی رہتا تھا، لیکن جب وہ لکھنؤ آتے تو ’ادبستان‘ میں ان کے ساتھ دیر تک محفل جمتی اور دیر تک ادبی معاملات و مسائل پر گفتگو ہوتی۔ جب میں نے شعبے کی صدارت کا عہدہ سنبھالا تو بہانے بہانے سے میں انہیں لکھنؤ آنے کی دعوت دینے لگا۔ ایم. اے کا زبانی امتحان لینے کے لیے تو میرے کہنے سے وہ کئی بار شعبے میں آئے۔ لکھنؤ سے کوئی بھی دعوت نامہ (بشرطیکہ وہ ان کے ادبی مرتبے کے مطابق ہو) ملنے پر شمیم حنفی دولوگوں سے ملنے کی وجہ سے اسے ٹالتے نہیں تھے۔ ایک تو نیرمسعود، دوسرے ان کے سمدھی ماجد علی صدیقی جن کی رہائش لکھنؤ ہی میں تھی۔ اور سچ پوچھیے تو لکھنؤ ان کے آنے کا اصل سبب نیرمسعود ہی تھے۔

لکھنؤ میں شمیم حنفی کا قیام اپنے سمدھی کے یہاں رہتا۔ اگر وہ شعبے کی دعوت پر آتے تو میں وہاں سے انہیں اپنے شعبے میں لاتا، شعبے کے مصروفیات ختم ہوجانے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے میرے گھر آتے اور میری اہلیہ اور بچوں سے مل کر خوش ہوتے۔ شام کو ہماری نشست نیرمسعود کے یہاں ہوتی۔ وہاں عرفان صدیقی اور کچھ اور لوگ آجاتے اور پھر یہ خالص ادبی صحبت بہت دیر تک جاری رہتی۔ اس نشست میں ادب اور صرف ادب پر گفتگو ہوتی۔ کہیں سے بھولے بھٹکے اگر ادبی دنیا کی سیاست کا ذکر نکل آتا تو اسے وہیں روک دیا جاتا۔

لکھنؤ میں تو شمیم حنفی کے قیام کے دوران میرا ان کا ساتھ رہتا ہی تھا لیکن میں جب بھی دہلی جاتا شمیم حنفی کے یہاں ضرورجاتا اور ایک دو گھنٹے سے کم نہ بیٹھتا اور کبھی کبھی تو شمیم حنفی کی مہمان نوازی، شگفتہ رو اور خوش سلیقہ شریکِ حیات صبا شمیم کھانا کھائے بغیر نہ آنے دیتیں۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ یہ بھی بتادوں کہ بیویوں کے معاملے میں میں نے بہت کم ادیبوں کو شمیم حنفی کا سا خوش قسمت پایا۔ ان کی اہلیہ نے انہیں نہ صرف خانہ داری کی ہر فکر سے آزاد رکھا بلکہ ان کے ادبی معاملات میں بھی وہ ہمہ وقت ان کی معاون رہیں۔ انہوں نے شمیم حنفی کے ساتھ باہر کے سفر بھی خوب کیے اور ان کے ساتھ رہ کر سفر کی صعوبتوں کو آسان کیا۔ یہاں شمیم حنفی کی اہلیہ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر اس لیے ضروری ہے کہ میں نے کبھی انہیں شمیم حنفی کی طرف سے غافل نہیں پایا۔ خانہ داری کے امور انجام دینے کے ساتھ ساتھ وہ شمیم حنفی کے فونوں کو بھی اٹھاتیں، ان کے ای-میل بھی دیکھتیں۔ سفر پر نکلتے وقت سامانِ سفر کی تیاری میں ایک ایک چیز کا خیال رکھتیں، علاوہ بریں گھر آنے والوں کا دروازہ کھولتے ہی خندہ پیشانی سے اُن کا استقبال کرتیں۔ بیگم حنفی، شمیم حنفی کے سارے دوستوں سے نہ صرف اچھی طرح واقف تھیں بلکہ ان کی مزاج آشنا بھی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ انتظارحسین کو سنترے بہت پسند ہیں اس لیے ان کے قیام کے دوران شمیم حنفی کے یہاں سنترے وافر مقدار میں موجود رہتے۔ اسی طرح چودھری نعیم کی بیسن کی روٹی اور لہسن کی چٹنی کی فرمائش بھی فوراً پوری کی جاتی۔ یوں بیگم حنفی نے شمیم حنفی کے شریکِ سفر ہونے کا حق پوری طرح ادا کیا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شمیم حنفی کو شمیم حنفی بنانے میں انہوں نے اہم کردار نبھایا۔

بیوی کی طرح بیٹیوں کے معاملے میں بھی شمیم حنفی کی خوش بختی لائقِ رشک تھی۔ انہوں نے اپنی خوش شکل اور باصلاحیت بیٹیوں کی تربیت ایک مشفق اور مہربان باپ کی طرح کی اور بیٹیاں بھی خدمت گزار اور سعادت مند نکلیں۔ حال ہی میں شمیم حنفی کی ایک بیٹی غزالہ شمیم کا اپنے باپ سے متعلق لکھا ہوا مضمون بعنوان ”جادو تھا سپنا تھا کیا تھا“ ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون شمیم حنفی کی شخصی خوبیوں اور اہلِ خانہ سے ان کے گہرے اور والہانہ تعلق کو بخوبی ظاہر کرتا ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ شمیم حنفی کی سہی قامت اور خوبرو نواسیاں بھی ان کی بہت دلاری تھیں اور وہ اپنی بیٹیوں ہی کی طرح اُن سے بھی گھلے ملے رہتے۔

o

ڈاکٹر علی جاوید جب اردو کونسل کے ڈائرکٹر ہوئے تو انہوں نے اس کی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کی غرض سے مختلف ریاستوں میں ادبی تقریبوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا۔ ان میں سے ہر سیمینار میں میں نے اور شمیم حنفی نے شرکت کی اور وہاں کے مہمان خانوں میں ہم ایک ہی کمرے میں ٹھہرے بھی۔ ان تقریبوں میں شمیم حنفی سے ناشتے کی میز پر، دن اور رات کے کھانے پر اور قیام والے کمرے میں دیر دیر تک گفتگو ہوتی۔ ان لمبی صحبتوں اور دیر دیر تک ہونے والی گفتگوؤں میں شمیم حنفی کی ادبی اور عمومی زندگی کے بہت سے رخ روشن ہوئے۔ انہیں صحبتوں میں میں نے اچھی طرح جانا کہ شمیم حنفی نے کیا اور کتنا پڑھا ہے، کتنا اسے اپنے حافظے کا جز بنایا ہے اور کس حد تک اسے اپنی بصیرت میں حل کیا ہے۔

ایک چیز جو شمیم حنفی کے ساتھ ہونے والی صحبتوں اور ملاقاتوں میں میں نے محسوس کی وہ یہ کہ وہ ادب پر تو بے تحاشا گفتگو کرتے تھے لیکن ادبی سیاست پر گفتگو کرنے سے ہمیشہ بچتے رہتے تھے۔ کوئی اگر ان کے سامنے یہ موضوع چھیڑتا بھی تو وہ خاموشی اختیار کرلیتے۔ اسی طرح دوسروں کی تضحیک و تنقیص کو بھی انہوں نے کبھی (کم سے کم میرے سامنے) اپنی گفتگو کا حصہ نہیں بنایا۔ ایک اور بات یہ کہ اپنی تمام ملاقاتوں اور صحبتوں میں دو موقعوں کے سوا میں نے کبھی شمیم حنفی کو غصے میں نہیں دیکھا اگرچہ کہ ایسے مواقع بہت آئے جب وہ بجاطور پر اپنے غصے اور ناراضی کا اظہار کرسکتے تھے۔ ایک موقع تو مجھے اچھی طرح یاد ہے جب قومی کونسل کے منی پور والے میر سیمینار میں ناشتے کے وقت ادیبوں کا ایک جتھا گزشتہ روز پڑھے جانے والے شمیم حنفی کے مقالے کو استہزائیہ لب و لہجے میں بہ آواز بلند ہدفِ تنقید بنائے ہوئے تھا۔ یہ جتھا تھوڑے سے فاصلے پر شمیم حنفی کی پشت پر تھا اور اسے نہیں معلوم تھا کہ قریب ہی شمیم حنفی بیٹھے ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو پلٹ کر اس جتھے سے لب و لہجے کی شکایت ضرور کرتا۔ ایسے موقعوں پر شمیم حنفی درگذر کرنے اور طرح دینے والے رویے کو روا رکھتے تھے۔

شمیم حنفی کے غصے میں آجانے والے دو موقعوں میں سے ایک موقع وہ تھا جب ایوانِ غالب کے انیس و دبیر سیمینار میں پروفیسر عقیل رضوی مرحوم نے مقالہ خوانی کے دوران اپنے موضوع سے ہٹ کر نیرمسعود پر برسنا شروع کردیا۔ شمیم حنفی اس اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اپنی صدارتی تقریر میں نام لیے بغیر انہوں نے عقیل رضوی کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں کہا: ”پہلے کوئی نیرمسعود کا سا ایک جملہ لکھ کر تو دکھائے پھر ان کی گرفت کرے۔“

غصے میں آجانے والا دوسرا واقعہ بہت اہم ہے جس کا براہِ راست تعلق اس خاکسار سے ہے۔ ہوا یوں کہ میرے شعبے میں پروفیسر شپ کی ایک جگہ مشتہر ہوئی۔ ریاستی حکومت میں وزیر کا عہدہ سنبھالنے والے میرے ہی شعبے میں لکچرر کے عہدے پر فائز ایک استاد نے بھی میرے ساتھ اس جگہ کے لیے درخواست دے دی۔ اس وقت مرکز اور ریاست دونوں جگہ ایک خصوصی جماعت کی حکومت تھی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا تعلق بھی اسی خصوصی جماعت سے تھا۔ ایسی صورت میں اِس عہدے کے لیے میرا منتخب کیا جانا ناممکن سا نظر آرہا تھا۔ ماہرین میں شمیم حنفی، پروفیسر نصیراحمد خاں اور کشمیر کے ایک پروفیسر تھے۔ وائس چانسلر پر ریاستی اور مرکزی حکومت کا زبردست دباؤ تھا کہ لکچرر استاد ہی کو پروفیسر بنایا جائے۔ چنانچہ انٹرویو میں وائس چانسلر نے لکچرر استاد کی پرزور وکالت شروع کردی۔ لیکن شمیم حنفی اور نصیراحمد خاں اس وکالت کے سامنے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ شمیم حنفی نے وائس چانسلر کو یہ کہہ کر شرمندہ کیا کہ ”آپ خود ایک پروفیسر ہیں، کیا آپ کا ضمیر گوارا کرے گا کہ ادبی دنیا میں اچھی طرح متعارف ایک بہت سینئر استاد کے مقابلے میں ایک لکچرر کو پروفیسر بنادیا جائے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو علمی اور ادبی دنیا میں غلط پیغام جائے گا۔ کم سے کم یہ کام میرے ہاتھوں سے تو نہیں ہوسکتا۔“ یہ کہتے وقت شمیم حنفی کا لہجہ بہت سخت تھا۔ شمیم حنفی اور نصیراحمد خاں کے تیور دیکھ کر وائس چانسلر نے اپنی وکالت واپس لے لی۔ انٹرویو کے بعد وائس چانسلر نے شمیم حنفی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ”آپ نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کردیا۔ سچ پوچھیے تو میں بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ ایک سینئر استاد کا حق مارا جائے۔“ وائس چانسلر کی یہ بات سن کر کشمیر کے پروفیسر ”آزردہ“ نظر آنے لگے کہ وہ بھی لکچرر استاد کے حق میں تھے۔

غصے میں تو میں نے شمیم حنفی کو ایک دو موقعوں پر دیکھ بھی لیا لیکن کھل کر ہنستے ہوئے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ ممکن ہے وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ یا اپنے ہم عمر احباب کی صحبت میں ٹھٹھے لگاتے ہوں لیکن میرے سامنے انہوں نے فاروقی اور نیرمسعود کی طرح قہقہے کبھی نہیں لگائے۔ ہنسی کے معاملے میں سچ کہوں تو ان کا اتنا محتاط رویہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ یہی شکایت مجھے عرفان صدیقی سے بھی تھی کہ وہ بھی عمدہ سے عمدہ لطیفے یا جملے پر صرف مسکرا کر رہ جاتے تھے۔

o

شمیم حنفی نے مختلف حیثیتوں سے ادب کے مختلف میدانوں میں اپنے آپ کو منوایا۔ ایک ہی شخص میں بیک وقت اتنے ادبی اور تخلیقی جہات کا جمع ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں جگہ انہیں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ پاکستان میں ان کی پذیرائی زیادہ تھی جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ادبی اور تخلیقی سروکاروں کے ساتھ ساتھ شمیم حنفی سیاسی معاملات میں بھی اتنے ہی حساس تھے۔ گزشتہ چھ۔ ساتھ برسوں کے اندوہناک واقعات کی وجہ سے ان کے ذہن پر مسلسل تازیانے لگ رہے تھے اور ان کی فکرمندیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ اس اذیت اور فکرمندی کا ذکر وہ اکثر کرتے رہتے تھے۔

نمود و نمائش سے بے نیاز اپنی شرطوں کو اہم جاننے والے ایسے کھرے ادیب اور سچے دانشور بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔

o

اپریل اور مئی (۲۰۲۱ء) کے مہینے موت کے مہینے تھے۔ انہیں موت کے مہینوں میں ہسپتال میں داخل ہونے سے کوئی آٹھ- دس روز قبل میرے پاس شمیم حنفی کا فون آیا۔ میں فون پر اکثر ان کی خیریت معلوم کرتا رہتا تھا اور وہ بھی کبھی کبھی مجھے یاد کرلیا کرتے۔ ان فونوں میں عام طور پر تین- چار منٹ سے زیادہ بات نہ ہوتی۔ لیکن اس بار فون لمبا ہوگیا۔ میں نے نیرمسعود پر لکھی ہوئی اپنی کتاب ”ہمہ رنگ ہمہ داں“ انہیں بھیجی تھی۔ کتاب انہیں پسند آئی تھی اور انہوں نے فوراً پڑھ ڈالی تھی۔ یہ فون اسی کتاب کے سلسلے میں تھا۔ میری پہلی والی کتابوں پر انہوں نے اتنی دیر تک بات نہیں کی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ فون رکھنے کو ان کا جی نہ چاہ رہا ہو۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شمیم حنفی نے جان لیا تھا کہ موت ان سے بہت دور نہیں ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ کورونا کی زد میں آجانے کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور اس کے بعد خبر آئی کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اپنے شوہر کی موت کے صدمے سے بے حال بیگم حنفی سے فون پر تعزیت ادا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی، اس لیے دو-تین روز بعد ایک تعزیتی پیغام کے ذریعے میں نے اپنے دکھ کر اظہار کیا۔

اُدھر سے ایک ہی لفظ میں اس کاجواب آیا: ”شکریہ۔“ غم سے نڈھال بیگم حنفی اس سے زیادہ اور لکھ بھی کیا سکتی تھیں۔

o

۲/اپریل ۲۰۰۴ء کا وہ نامبارک دن مجھے آج بھی یاد ہے جب نیرمسعود، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور میں عرفان صدیقی کو دیکھنے ان کے گھر ”قندیل“ گئے تھے۔ عرفان صدیقی کی گویائی ختم ہوچکی تھی۔ وہ بستر پر لیٹے تھے اور اپنے ہاتھ پیر اس طرح ہلارہے تھے جیسے تکلیف سے تڑپ رہے ہوں۔ پتہ نہیں وہ ہمیں پہچان بھی پارہے تھے یا نہیں۔ ”قندیل“ کی روشنی مدھم پڑچکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی دم میں وہ بجھنے ہی والی ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کی طرف مغموم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اسی دیکھنے میں میں نے محسوس کیا کہ شمیم حنفی کی آنکھوں میں نمی ہے، ایسی نمی جو چاہ رہی ہو کہ عرفان صدیقی کو کسی طرح پنجہئ مرگ سے نجات مل جائے لیکن ایسا ہوا نہیں اور تیرہ دن بعد ”قندیل“ کی روشنی گل ہوگئی۔ عرفان صدیقی کے بعد نیرمسعود بھی اس دنیا سے اٹھ گئے۔ شمیم حنفی کی آنکھ دوسری بار نم ہوئی اور تیسری بار ان کی آنکھ اس وقت بھیگی جب فاروقی انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ فاروقی کے فوراً بعد شمیم حنفی بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایک کے بعد ایک ایسے روشن چراغوں کے خاموش ہوجانے سے ادبی دنیا میں اندھیرا چھا گیا ہے۔ اب انہیں کا جیسا کوئی اور چراغ کب روشن ہوگا نہیں کہا جاسکتا۔ کہا جاسکتا ہے تو بس اتناکہ ہر چراغ بالآخر بجھ جانے کے لیے روشن ہوتا ہے سو یہ چراغ بھی دور تک روشنی پھیلاکر خاموش ہوگئے لیکن:

غم نہ کر جوانِ چراغوں کی لویں خاموش ہیں

یہ بجھے ہیں ظلمتوں کو روشنی دینے کے بعد