سہ ماہی “آبشار” کا ناول صدی نمبر

یہ تحریر 3866 مرتبہ دیکھی گئی

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ 2015ء میں پنجاب کے مردم خیز ضلع میاںوالی سے اُردو کا ایک قابلِ قدر ادبی جریدہ شروع ہوا۔ “آبشار” کے نام سے یہ سہ ماہی رسالہ محمد سلیم فواد کُندی نے جاری کیا تھا۔ اس سہ ماہی ادبی رسالے کے پانچ شمارے 2017ء کے نصب اول تک شائع ہوئے۔ اس کے بعد کچھ ذاتی اور کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر سلیم فواد کُندی کو یہ مفید ادبی رسالہ بند کرنا پڑا۔

یوں تو اس رسالے کے سبھی شمارے قابلِ مطالعہ اور قابلِ حوالہ مواد پر مشتمل ہیں لیکن ان میں سے اہم ترین اس کا “ناول صدی نمبر” ہے۔ یہ خصوصی شمارہ 2016ء کے نصف آخر میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ “آبشار” کا چوتھا مسلسل شمارہ تھا۔ محمد سلیم فواد کُندی اس خاص شمارے کے مدیر اعزازی اور شہناز رحمٰن؛ معاون مدیرہ ہیں۔ اس خاص شمارے کی اشاعت کا اہتمام اُردو سخن پاکستان، ضلع لیہ نے کیا۔

“آبشار” کا یہ خاص شمارہ جدید اردو ناول کی ایک صدی کا تنقیدی خزینہ ہے۔ 432 صفحات کے اس شمارے میں گذشتہ ایک صدی کے دوران اُردو میں لکھے گئے ناولوں، ناول نگاروں اور متعلقہ تنقیدی مباحث (موضوعات، فنی و فکری اور اُسلوبیاتی مطالعے، وغیرہ) پر بیش قیمت تحریریں یک جا پیش کرنے کی کام یاب سعی کی گئی ہے۔

مدیر و مرتب نے اس خاص نمبر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ پانچ معاصر ناول نگاروں کے “انٹرویوز” پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مستنصر حسین تارڑ، مشرف عالم ذوقی، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر وحید احمد اور محمد الیاس سے مدیران کی گفتگو اور ان ناول نگاروں کی اپنے اور ناول کے فن پر خیالات کی تفصیل ملتی ہے۔ گفت گو سے قبل مذکورہ ناول نگاروں کے ایک ایک ناول پر تنقیدی تحریریں درج کی گئی ہیں۔

دوسرا حصہ “ناولوں کے فنی و فکری تجزیات” پر ہے۔ اس حصے میں جن چودہ (14) جدید معاصر ناولوں پر تنقیدی و تجزیاتی مضامین ہیں، اُن کے نام درج ذیل ہیں: 1۔ “موم کی گلیاں” (از بانوقدسیہ)، 2۔ “صدیوں کی زنجیر” (از رضیہ فصیح احمد)، 3۔ “کاغذی گھاٹ” (از خالدہ حسین)، 4۔ “کئی چاند تھے سرِ آسماں” (از شمس الرحمٰن فاروقی)، 5۔ “قرطبہ” (از مصطفی کریم)، 6۔ “لے سانس بھی آہستہ” (از مشرف عالم ذوقی)، 7۔ “خوشبو کی ہجرت” (از شیخ صلاح الدین عادل)، 8۔ “غلام باغ” (از مرزا اطہر بیگ)، 9۔ “اُجالوں کی سیاہی” (از عبدالصمد)، 10۔ “خلیج” (از خالد فتح محمد)، 11۔ “آخری سواریاں” (از سید محمد اشرف)، 12۔ “بالوں کا گچھا” (از خالد طور)، 13۔ “دائرہ” (از محمد عاصم بٹ)، 14۔ “بیلہ” (از آغا گل)، 14۔ “مٹی آدمی کھاتی ہے” (از محمد حمید شاہد)۔

حصہ دوم “کچھ نئے ناول” میں اکیسویں صدی کے سولہ جدید الاشاعت ناولوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں ذیل کے ناول شامل ہیں: 1۔ “نادیدہ بہاروں کی تلاش” (از شائستہ فاخری)، 2۔ “کھوج” (از نجم الدین احمد)، 3۔ “عزازیل” (از یعقوب یاور)، 4۔ “دہشت زادی” (از نعیمہ احمد مہجور)، 5۔ “نعمت خانہ” (از خالد جاوید)، 6۔ “مُشک پوری کی ملکہ” (از عاطف علیم)، 7۔ “جاگے ہیں خواب میں” (از اختر رضا سلیمی)، 8۔ “میر واہ کی راتیں” (از رفاقت حیات)، 9۔ “ایک بُوند اُجالا” (از احمد صغیر)، 10۔ “نیم بیوہ” (از شفیع احمد)، 11۔ “خواب گزیدہ” (از رضوانہ علی سید)، 12۔ “تُخمِ خوں” (از صغیر رحمانی)، 13۔ “روحزن” (از رحمٰن عباس)، 14۔ “آشوب گاہ” (از محمد حامد سراج)، 15۔ “لِفٹ” (از ڈاکٹر نسترن فتیحی)، 16۔ “جس دن سے۔۔۔۔” (از صادقہ نواب سحر)۔

اس خاص نمبر کے حصہء چہارم میں “ناول پر مضامین” کے تحت سات (7) تحریریں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک تحریر مبین مرزا کی انتظار حسین کے مطالعہ فن سے متعلق ہے۔ آخری اور پانچویں حصہ “زیرِ طبع ناولوں کے ابواب” پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں “نیلی بار” (از طاہرہ اقبال) اور “تکون کی چوتھی جہت” (از اقبال خورشید) سے ایک ایک باب اور ان ناولوں سے متعلق مختصر تعارفی و تاثراتی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ آخر میں “آبشار” پر بھارتی تبصرہ نگاروں کے دو تبصرے درج ہیں۔

اس خاص شمارے میں اہم قلم کاروں کی اہم موضوعات پر اہم تحریریں جمع کر دی گئی ہیں جن اہم لکھاریوں کے مضامین اس خاص شمارے میں موجود ہیں، اُن کے نام درجِ ذیل ہیں: حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ، اقبال خورشید، مبین مرزا، طاہرہ اقبال، مشرف عالم ذوقی، ممتاز احمد خاں، منشایاد، نجم الدین احمد، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، خالد اقبال یاسر، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر منظر اعجاز، خالد فتح محمد، ڈاکٹر ابوبکر عباد، معیدی رشیدی، قدوس جاوید، حمید قیصر، ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر صلاح الدین درویش، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، توصیف خاں، جمیل عدیل، رفاقت حیات، قاسم یعقوب، سائرہ غلام نبی، روبینہ تبسم، اکرم پرویز، ڈاکٹر ریاض توحیدی، محمد غالب نشتر۔ “آبشار” سہ ماہی کا یہ خاص شمارہ ایک حوالہ جاتی اور مفید دستاویز ہے۔ اسے جدید اردو ناول کی تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے۔ مدیر و مرتب نے بڑی محنت سے اہم مصنفین و ناقدین سے قابلِ قدر تحریریں حاصل کرکے پیش کی ہیں۔ جدید اردو ناول کے مطالعے پر یہ دستاویز بنیادی یا معاون تحریری ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر کسی بھی اچھے مطالعے میں اس خاص شمارے کو صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سَنَدی اور غیر سَنَدی سطح پر آج کل اردو ناول (خصوصاً جدید اردو ناول پر تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی تحریریں خاص تعداد میں منظر عام پر آ رہی ہیں)، ایسے میں “آبشار” کا یہ شمارہءخاص طلبا سے تحقیق اور علمائے ادب کے لیے یک ساں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مفید خاص شمارے کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے تاکہ اس کی دست یابی سہل الحصول ہو۔