سدابہار کہانیاں

یہ تحریر 4154 مرتبہ دیکھی گئی

مشرقی کہانیوں کے مجموعوں میں بالعموم التوا سے بڑا کام لیا جاتا ہے ۔ چین اور جاپان مین اس قسم کے مجموعوں میں بھی التوا  کو کوئی دخل ہوتاہے یہ مجھے سردست معلوم نہیں۔ “الف لیلہ و لیلہ” میں شہرزاد ایک ہزار ایک راتوں تک بادشاہ کو کہانیاں سناتی ہے اور آخرکار بادشاہ کے سر پر خوں ریزی کی جو ہڑک سوار تھی وہ اتر جاتی ہے۔ اسی طرح “طوطا کہانی” میں طوطا کہانیاں سنا کر ایک بیوی کو  بدکاری سے باز رکھتا ہے۔ “بیتال پچیسی” میں بیتال پچیس کہانیاں سناتا ہے اور راجا کی جان بچا لیتا ہے۔ “سنگھاسن بتیسی” میں تخت پر نصب بتیس پریوں جیسی پتلیاں بتیس کہانیاں سنا کر راجا بھوج کو سمجھاتی ہیں کہ وہ اس تخت پر بیٹھنے کے لائق نہیں۔ بتیس چونسٹھ کا نصف ہے۔ پرانے وقتوں میں چونسٹھ کے کوئی خاص معنی تھے جو اب ہمیں معلوم نہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ ہر صورت میں التوا کوئی اچھا مقصد پورا کرتا ہے۔ اس بات سے اس تصور کو بھی تقویت ملتی ہے کہ پچھلے وقتوں میں کہانیاں صرف دل بہلاوا نہیں تھیں۔ ان میں کوئی معنویت، کوئی مقصدیت چھپی ہوتی تھی۔ “باغ و بہار” کے قصوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو انھیں سنے گا شفا پائے گا۔ تیلیگو کے مشہور شاعر الاسانی پیدانا (جو 1520ء کے لگ بھگ سرگرمِ عمل تھا) اپنی طویل نظم “منو کی کہانی” میں کہا ہے کہ جو اس نظم کو سنے، نقل کرے یا پڑھے گا اسے صحت جیسی نعمت نصیب ہوگی۔

“بیتال پچیسی” اور “سنگھاسن بتیسی” کو اب بصیرہ عنبرین صاحبہ نے نئے انداز سے ترتیب دے کر شائع کر دیا ہے۔ اپنی کار گزاری کو انھوں نے تفہیم، تسہیل اور تحشیہ کا عنوان دیا ہے۔

“بیتال پچیسی” زیادہ تہ دار کتاب ہے۔ ایک جوگی نے راجا بکرم کے دربار میں آنا شروع کیا۔ وہ روز ایک پھل دے کر چلا جاتا۔ راجا اس تحفے میں کوئی دل چسپی ظاہر نہ کرتا اور بھنڈار میں پھنکوا دیتا۔ ایک بار جب جوگی پھل دینے آیا تو بادشاہ کے پالتو بندر نے اسے توڑ ڈالا۔ پھل کے اندر سے ایک بے بہا لعل نکلا۔ جب باقی پھلوں کو توڑا گیا تو ان میں سے بھی لعل برآمد ہوئے۔ راجا نے حیران ہو کر جوگی سے پوچھا کہ “تم اتنے قیمتی لعل، جن کو سلطنت بیچ کر بھی خریدا نہیں جا سکتا، کس لیے لا کر دیتے رہے؟” جوگی نے کہا کہ “میں ایک منتر سدھ کر رہا ہوں۔ کام یابی کے لیے ایک رات آپ کی موجودگی ضروری ہے۔ فلاں رات فلاں مرگھٹ میں آئیں تاکہ میں سرخرو ہوں۔”

راجا نے بات مان لی اور مقررہ رات کو مرگھٹ پہنچ گیا۔ جوگی نے کہا کہ “یہاں سے کچھ دوری پر ایک درخت سے مردہ لٹک رہا ہے۔ اسے اتا ر کر میرے پاس لے آؤ۔” راجا گیا اور لاش کو کندھے پر ڈال کر چل دیا۔ لاش میں ایک بیتال سمایا ہوا تھا۔ اس نے راجا سے کہا کہ “راستہ لمبا ہے۔ میں تمھیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ آخر میں تمھیں میرے سوال کا جواب دینا ہوگا۔ اگر تم سے جواب نہ بن پڑا تو تمھاری جان جائے گی۔” معما نما کہانی سنائی گئی۔ راجا نے اس کا صحیح حل تجویز کیا جسے سنتے ہی لاش واپس جا کر درخت سے جا لٹکی۔ چوبیس کہانیاں سنی جا چکیں۔ لیکن پچیسویں کہانی میں اٹھائے گئے سوال کا جواب راجا کو نہ سوجھا۔ لیکن سزا کے بجائے جزا اس کا مقدر بن گئی۔ بیتال اس کا نجات دہندہ ثابت ہوا اور مکار جوگی مارا گیا۔

“بیتال پچیسی” میں درج کہانیاں دل چسپ ہیں اگرچہ تہ داری کے لحاظ سے مساوی نہیں۔ ان میں سے ایک “بدلے ہوئے سر” بہت مشہور ہو چکی ہے اور نامور جرمن مصنف ٹامس من نے اس پر The Transposed heads کے نام سے جو ناولٹ لکھا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ کہانی ایسا معما ہے جس کا کوئی تسلی بخش جواب ممکن نہیں۔ ان کہانیوں کو یہ سوچ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ ہر دن گویا ایک عطیہ قدرت ہے جس میں لعل بے بہا پنہاں ہے اور ہم غفلت سے اسے نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ جس دن ہمیں پتا چلے گا کہ زندگی کے ہم سے کیا تقاضے ہیں اسی وقت سے ہماری آزمائشوں کا آغاز ہوگا اور ہم خود کو ہست و بود کے جوہر کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے دیکھیں گے۔

“سنگھاسن بتیس” میں شامل کہانیاں بھی دل چسپ ہیں لیکن شاید پُراسرار معنویت کی حامل نہیں۔ راجا بھوج کو اتفاق سے راجا بکرماجیت کا تخت مل گیا جس میں بتیس پتلیاں جڑی ہوئی تھیں۔ اس نے جب بھی تخت پر بیٹھنا چاہا تو کوئی نہ کوئی پتلی اسے راجا بکرماجیت کی سخاوت اور شجاعت کی کہانی سنا کر کہتی کہ تم اس تخت پر بیٹھنے کے لائق نہیں۔ آخر میں راجا بھوج تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ کسی لحاظ سے راجا بکرماجیت کا ہم پلہ نہیں۔

“سنگھاسن بتیسی” کی طباعت نہاید عمدہ ہے۔ دونوں کتابوں کے پروف احتیاط سے پڑھے گئے ہیں۔ حواشی، جو بہت سے ہیں، مفید ہیں۔ میرا اختلاف صرف تسہیل سے ہے۔ ایک دقت تو یہی ہے کہ جو کوئی بھی ان کتابوں پر کچھ لکھنا چاہے گا اسے اقتباسات کے لیے پرانے متن ہی سے رجوع کرنا پڑے گا۔ دوسرے یہ کہ یہ متون دوسو سال پرانے ہیں اور آج بھی کسی باذوق قاری کو دشوار معلوم نہ ہونے چاہییں۔ علاوہ ازیں حواشی تسلی بخش ہیں اور مزید آسانی کے لیے حواشی میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ 1947ء کے بعد ہم، دانستہ یا نادانستہ طور پر، ہندو اساطیر اور تلمیحات سے بے خبر ہو چکے ہیں (بلکہ اب تو شاید قدیم ایرانی اساطیر اور تلمیحات سے بھی کم آشنا ہیں)۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ان دونوں کتابوں کا اصل متن اجنبی معلوم ہونے لگا ہو۔ قارئین کو ہپّا نہ کھلائیں۔ کل کو وہ تقاضا کریں گے کہ “باغ و بہار” ، “فسانہ عجائب” اور سرشار اور نذیر احمد کی زبان کو بھی آسان بنا دیں۔ کچھ محنت پڑھنے والوں کو بھی کرنی چاہیے۔

بیتال پچیسی، صفحات 176؛ سنگھاسن بتیسی، صفحات

240 دونوں کتابیں دارالنوادر، لاہور نے شائع کی ہیں۔ قیمت درج نہیں۔