زینب اور دوسری بچیوں کے لیے

یہ تحریر 1352 مرتبہ دیکھی گئی

زینب اور دوسری ریپ ہونے والی بچیوں کے بارے میں

لوگ کچھ بھی کہنے سے ڈرتے ہیں

کیوں کہ وہ سب مذہبی ہیں

زینب اور دوسری بچیوں کا موضوع اس قدر حساس ہے

کہ لوگوں کو خطرہ ہے اگر اُنھوں نے کچھ کہا

تو ملحد ہوجائیں گے

میں بھی مذہبی اور خدا پرست ہوں

مگر میں مذہبی عناصر کو نہیں مانتا

حالاں کہ وہ اتنے ہی طاقت ور ہیں جتنے کہ یہودی

زینب اور دوسری بچیاں تو قتل کردی گئیں

اگر وہ زندہ ہوتیں تو بھی اُن کو کچھ بتایا نہیں جا سکتا تھا

کچھ سمجھایا نہیں جا سکتا تھا

وہ تو بہت چھوٹی اور معصوم تھیں

البتہ کسی بڑی عمر کی ریپ ہونے والی عورت کو

بتایا جا سکتا ہے

سمجھایا جا سکتا ہے

اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمھارے ساتھ پیش آنے والا واقعہ

انفرادی ہے، تو یہ غلط ہے۔

تم سمجھ سکتی ہو اور تمھیں سمجھنا ہوگا

کہ تم جس معاشرے کا جس قوم کا حصہ ہو

وہاں ریپ ہونا انفرادی نہیں بل کہ اجتماعی مسئلہ ہے

ساری دنیا میں قحبہ خانوں کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے

 کہ تمام قحبہ خانے تو بھڑوے چلاتے ہیں

 بھڑوں کے لیے دھندا کرنے والی عورتیں،

انڈا دینے والی مرغیاں ہوتی ہیں

آج تک کبھی کسی مرغی نے اپنے انڈے کا ریٹ خود طے نہیں کیا

وہ تو ہمیشہ بھڑوے طے کرتے آئے ہیں

البتہ بھڑوے اپنی مرغیوں کو وی آئی پی سہولتیں دیتے ہیں

مہنگا لباس، قیمتی میک اپ، فائیوسٹار کھانااور رہائش

تم سمجھ رہی ہوکہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟

تم سمجھتی ہونا کہ دھندا کسے کہتے ہیں؟

اپنا ریٹ خود طے کرنا دھندا کہلاتا ہے

جب دوسرے تمھاری قیمت مقرر کریں تو اسے ریپ کہتے ہیں

بالکل اسی طرح

دنیا کے تمام غریب ملکوں کی معیشت بھڑوں کے ہاتھ میں ہے

یہ بھڑوے عوام کی ہڈیوں میں سے گودا تک نچوڑ لیتے ہیں

لیکن بدلے میں اُنھیں کچھ نہیں دیتے۔

میں تمھیں نہایت سادہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں

اُمید ہے تم سمجھ جاؤ گی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں

تو لو اب سنو!

ارون دھتی رائے کہتی ہے کہ

انڈین فوج، حکومت کی آلت ہے

جس سے وہ باغی عوام کی مارنے کا کام لیتی ہے

بالکل اسی طرح غریب ملکوں کے بھڑوے

ڈالر کو استعمال کرتے ہیں

وہ اپنے ملکوں میں چیزوں کی قیمت کا تعین

ڈالر کے ریٹ سے طے کرتے ہیں

جب کہ مزدور کی اجرت مقامی کرنسی میں دی جاتی ہے

تمھیں سمجھنا ہو گا کہ ایسا کرنے سے

 غریب ملکوں کے عوام کی قوت خرید

ایک تین سالہ بچی کی قوت مدافعت کے برابر رہ جاتی ہے

اور ڈالر کا سائز گدھے کے عضوتناسل کے برابر ہوتا ہے

جس سے عوام کو روزانہ کی بنیاد پر ریپ کیا جاتا ہے

اب آگے تمھاری اپنی بصیرت ہے

تم بھڑووں کو الزام دیتی ہو یا ڈالر کو

ڈالر جتنی قوت سے غیرملکوں کے عوام کو ریپ کرتا ہے

اس سے زیاد شدت سے وہ بھڑوں کو سپوٹ کرے گا

وہ کبھی نہیں چاہے کا کہ اس کی دکانداری بند ہو جائے

تم اکیلی نہیں ہو

غریب ملکوں کے سارے عوام

تمھارے ساتھ کھڑے ہیں

روزانہ کی بنیاد پر

ریپ ہونے کے لیے

خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا

٭٭٭٭