ملکہ برطانیہ

یہ تحریر 1049 مرتبہ دیکھی گئی

(افسانہ)
عزیز دوست!
اُمید ہے تم خیروعافیت سے ہو گے۔ یہ خط میں تمھیں اپنے تازہ افسانے سے متعلق لکھ رہا ہوں کہ میں نے اس افسانے کی تیاری کس طرح کی ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں ایک جوتشی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ملکہ برطانیہ سے مطلق یا اس کے نام سے ایک افسانہ لکھوں جو کہ میری شہرت کے لیے بڑا مفید اور موزوں ثابت ہو گا۔ ہم لوگ عام زندگی میں ایک دوسرے کو اس قدر پُراعتماد انداز سے مشورے دیتے ہیں جیسے ہمیں ہر بات کا گیان حاصل ہو چکا ہے۔ ہم خود کو مہان گیانی ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جس جگہ سے مجھے یہ مشورہ ملا تھا عین ممکن ہے کہ میں وہاں اس بات کا رونا روتے ہوئے پایا گیا ہوں کہ مجھے مجیدامجد کی موت بالکل پسند نہیں ہے۔ مفلسی اور اوپر سے گمنامی بھی۔ ان دونوں میں کیوں کہ ایک سرکاری کالج میں پروفیسر ہوں اس لیے مفلسی میرا مسئلہ نہیں رہی البتہ گمنامی سے میں بڑا خوف کھاتا ہوں۔ اس سلسلے میں ، میں نے لاہور کے ایک مشہور ٹاؤٹ سے رابطہ بل کہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش بھی کی تاکہ وہ میرا تبادلہ لاہور جیسے بڑے شہر میں کروانے میں میری مدد کرے؛ کیوں کہ کسی چھوٹے شہر کی نسبت ایک بڑے شہر میں مجھے شہرت کے حصول کے لیے بہتر مواقع میسر آسکتے تھے۔ اگرچہ اس ٹاؤٹ کاتعلق براہِ راست اس جماعت سے تھا جس نے حکومت میں آنے کی باری بل کہ باریاں رکھی ہوئی تھیں وہ ہر بار کسی نہ کسی باری سے حکومت میں آجاتی تھی ، کبھی وفاق میں تو کبھی صوبے میں۔ کیوں کہ اس ٹاؤٹ کا تعلق ایک بڑی سیاسی جماعت کے علاوہ ایک بڑے اخبار سے بھی تھا اس لیے وہ مجھے چکمہ دے گیا۔ زمانہ قدیم میں عوام الناس کو چکمہ دینے کے لیے مولویوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جدید دور میں میں یہی کام صحافی اپنے اخبار کے ذریعے کرتے ہیں۔ٹاؤٹ کسی زمانے میں ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی لکھتا رہا تھا اس لیے اس کے اداکاراوں سے اچھے اور قریب مراسم استوار ہو گئے تھے۔ ان ادکاراؤں کی سیڑھی کو استعمال کرتے ہوئے وہ سیاسی جماعت میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جب اس ٹاؤٹ نے مجھے چکمہ دیا تب مجھے اندازہ ہوا کہ اگر میں نے ٹاؤٹ کی بجائے کسی ٹی وی اداکارہ سے تعلقات بنائے ہوتے اور پھر ضرورت پڑھنے پر میں اس اداکارہ سے ایک فون کال کرواتا تو اس ٹاؤٹ نے فوراً میرا تبادلہ کروادینا تھا۔ مگر میرے ضمیر نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اپنی شہرت کی بھوک مٹانے کے لیے کسی اداکارہ کا سہارا لوں البتہ ایک غلام قوم کا فرد ہونے کی حیثیت سے سابقہ ملکہ کے نام کو شہرت کے لیے استعمال کرنا کوئی اتنی غیر مناسب حرکت نہیں ہو گی۔
عزیزم! جیسا کہ تم جانتے ہو میرا ریڈیو، ٹی وی اور اخبار یعنی صحافت کے کسی شعبے سے تعلق نہیں ، اس لیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ ملکہ برطانیہ سے متعلق کہانی کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ صحافتی شعبے میں کہانی بل کہ کہانیاں خود چل کے آپ کے پاس آتی رہتی ہیں۔ مگر عام زندگی میں کہانی کو کھوجنا پڑتا ہے، جو کہ خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسے میں قدرت آپ کا ساتھ دے تو کام بہت آسان بھی ہو جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا قدرت بہت ساتھ دیتی ہے مثال کے طور پر بابااشفاق احمد۔ انھوں نے ریاضی کے ایک پروفیسر پر افسانہ لکھا تھا جس کا تعلق بہاول نگر سے تھا۔ اس افسانے کا نام تھا “چھے چھیکا بتیس”سارے افسانے میں پروفیسر صاحب اپنی تھیوری کو ثابت کرتے رہتے ہیں کہ چھ چھیکا بتیس ہوتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنی انفرادی سوچ رکھتا ہے حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اس بنا پر حکومت اس پروفیسر کو جیل میں ڈال دیتی ہے۔اشفاق احمد کی طرح قدرت نے میرا ساتھ بھی دیا اور مجھے بہاول نگر جانے کا موقع ملا۔ ہوا یوں کہ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں فیصل آباد سے بہاول نگر آئے تھے اور پھر انھوں نے وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کی غرض سے اپنا مکان بھی تعمیر کرلیا تھا۔ والد صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد اس آبائی مکان کو فروخت کرنے کے سلسلے میں میرا بہاول نگر آنا جانا لگا رہتا تھا۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بہاول نگر سے مجھے ملکہ برطانیہ سے متعلق کہانی مل جائے گی۔ دراصل کسی بھی معاملے کی حقیقت اک دم سے ننگی ہو کر ہمارے سامنے نہیں آتی؛ کیوں کہ بعض دفعہ حقیقت اپنا لباس مرحلہ وار اُتارتی ہے۔ اکثر اوقات حقیقت کی یہ مرحلہ واری اس قدر سست رفتار ہوتی ہے کہ سارا جوش ہی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں پُرامید ہو کر مکان فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر بات نہ بن سکی دوسرے مرحلے تک پہنچنے میں بڑا عرصہ لگا پھر معلوم ہوا کہ جائیداد خریدنے والے بروکر اور مکان کے دوسرے حصے دارمل کر مکان کی فروخت میں رکاوٹ بن رہے ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں عام طور پر وراثت کے معاملات کچھ اس طرح انجام پاتے ہیں جیسے بھیڑیوں کے کسی گروہ کو جب بھوک لگتی ہے اور شکار کا دور دور تک کوئی نام ونشان تک نظر نہیں آتا تو وہ دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ ان میں سے جب کسی کو اونگھ آتی ہے تو باقی سارے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں بالکل اسی طرح بروکر اور مکان کے باقی حصہ دار دائرہ بنا کر بیٹھ گئے تھے اور وہ سب میرے اونگھنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اب کیوں میں کمزور اور بوڑھا ہوچکا ہوں اس لیے ہو سکتا ہے کہ مجھے جلدی اونگھ آ جائے۔
بروکروں کو تو میں نہیں جانتا البتہ مکان کے دوسرے حصہ دار یعنی میرے بہن بھائیوں کے ساتھ میری شناسائی کس قدر ہے اس کے متعلق سوچتے ہوئے مجھے وہ مکان یاد آجاتا ہے جہاں مجھے اپنے بچوں کے ساتھ رہنا پڑا تھا۔وہ ایک ریٹائرڈ جسٹس کا مکان تھا۔ اس نے مجھے رہنے کے لیے ایک کمراہ دے دیا تھا جو اس کی کوٹھی کے گیٹ کے ساتھ ہی تھا۔ میرے بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ کچھ چلنے لگے تھے اور کچھ زمین پر بیٹھے ہی کھیلتے رہتے تھے۔ جسٹس نے ایک کتا پالاہوا تھا جو کالے رنگ کا تھا اور اس کا قد چار فٹ اونچا ہو گا۔ وہ بڑے خوفناک انداز سے بھونکتا تھا۔ وہ جب بھی بھونکتا تو میں اور میرے بچے سہم جاتے تھے۔ ایک روز مجھے ڈرتا دیکھ کر جسٹس نے کہا کہ میرا کتا نسلی ہے، یہ بندوں کی بڑی پہچان رکھتا ہے لحاظہ تمھیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ پھر واقعی ایسا ہی ہوا صرف دوچار دن میں میرے بچے اس خوفناک کتے کے ساتھ اس قدر مانوس ہو گئے کہ اس کے پاس کھیلتے رہتے تھے اور وہ ان کے اردگرد پھرتا رہتا تھا جب کہ میرے وہ بہن بھائی جن کے ساتھ میں نے زندگی کا بڑا حصہ گزارا تھا وہ میرے ساتھ اس قدر بھی مانوس نہ ہو سکے تھے جنتا کہ جسٹس کا وہ کتا میرے بچوں کے ساتھ مانوس ہو گیا تھا۔
مکان تو فروخت نہیں ہو سکا البتہ ملکہ برطانیہ سے متعلق کہانی مجھے مل گئی تھی۔ میں نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ اگر کسی طرح ملکہ کو یہ بتادیا جائے کہ پاکستان میں بہاول نگر نام کا ایک شہر بھی ہے تو پھر اس پر کہانی لکھنا نسبتاً آسان ہو جائے گا مگر ملکہ کو اس بے چارے شہر سے متعلق کیسے آگاہ کیا جائے اور کیسے بتایا جائے؟ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس بات کا گیان بھی مجھے بہاول نگر سے ہی ملنے والا تھا۔
اس وقت میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے سوچنے سے پہلے ہی ملکہ برطانیہ کو بہاول نگر سے متعلق آگاہ کیا جا چکا ہے۔ بہاول نگر سیاسی طور پر بہت بنجر شہر ہے۔ گویا سیاسی طور پر ایک چھوٹا سا پاکستان ہے ۔یہاں سے لوگ الیکٹ نہیں ہوتے بل کہ سلیکٹ ہوتے ہیں برادری کی بنیاد پر یا پھر کسی دوسرے عناصر اور عوامل کی وجہ سے۔ مثلا پنڈی کا رہنا والا کوئی شخص اگر آرئیں برادری سے تعلق رکھتا ہے تو بآسانی بہاول نگر سے الیکشن جیت سکتا ہے۔یہ شہر سیاسی طور پر جس قدر بنجر ہے ادبی لحاظ سے اسی قدر ذرخیز ہے۔
ہوا یوں کہ بہاول نگر سے ایک کتاب چھپی اور صاحب کتاب کو کسی بدھی مان نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی کتاب کو ملکہ برطانیہ کی خدمت میں ارسال کردے۔اس خطے میں اب بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو انگریز کی غلامی کا دم بھرتے اور یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ سڑکیں، پل اور ریلوے کا نظام انگریزوں کے خوب صورت تحفے ہیں۔ انگریز بہت ایماندار ہیں اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں ان سے متعلق بیان کی جاتی ہیں۔
قصہ مختصر کتاب ملکہ برطانیہ کو ارسال کر دی گئی اور خوش قسمتی سے وہ کتاب بخیر وعافیت وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سوچ کس قدر ررومان پرور ہے کہ بہاول نگر کی کتاب اور ملکہ برطانیہ کے ہاتھوں میں، وہ عظیم ہاتھ اگرچہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں مگر کبھی خوب صورت اور توانائیوں سے بھرپور رہے ہوں گے۔ ان ہاتھوں سے دنیا بھر کے سربراہان نے مصافہ کیا ہو گا۔ ایسے مہان ہاتھوں میں بہاول نگر کی کتاب ہونا کتنے بڑے اعزاز کی بات تھی۔
بہر حال ملکہ برطانیہ نے بہاول نگر سے موصول ہونے والی کتاب پڑھی اور نہایت فرض شناسی سے جواب کے طور پر ایک رسیدی قسم کا خط بھی ارسال کیا جس میں دوجملے تعریف کے بھی لکھ دیے گئے تھے۔ جیسا کہ عام طور پر کتابوں پر توصیفی قسم کے جملے لکھے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی جملے لکھے تھے ملکہ کے سٹینو نے بھی اور آخر میں ملکہ کے دستخط بھی موجود تھے۔
ملکہ برطانیہ کا یہ تاریخی خط صاحب کتاب کے گھر میں اس کے کسی بریف کیس کی پاکٹ میں یا کتابوں کی الماری کے کسی کونے میں پڑا رہنا تھا اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو جاتا مگر بھلا ہو اس بدھی مان کا جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی آنے والی کتاب پر ملکہ برطانیہ کے خط کو ٹائٹل یا بیک ٹائٹل کے طور پر لگا دے۔
کتاب میں خط شائع ہونے سے ایک جادو ہو گیا ۔ وہ یوں کہ ملکہ سے ہمارا تعلق تاریخ کے گوشوں سے نکل کر اچانک موجودہ زمانے میں آ گیا۔ ملکہ کے اس خط نے صدیوں کی مسافت کو ختم کر دیا ۔اب افسانہ لکھنے کے لیے مجھے ملکہ کے خط والی کتاب چاہیے ہو گی۔ کتاب کے مصنف سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ برسوں پہلے کی بات ہے جب مصنف مجھے سے ملنے آتا تھا تو ہم سارا شہر پیدل گھوما کرتے تھے۔ ریڈنگ بکس، گلبرک 3سے مسلم ٹاؤن موڑ تک اور وہاں سے سمن آباد تک پیدل چلتے رہتے۔ اگر کبھی محمدسلیم الرحمن صاحب کی طرف جانا ہوتا تو پھر رکشہ میں داروغہ والاتک جاتے تھے۔ مصنف کے ساتھ پیدل گھومتے ہوئے اور رکشے میں جاتے ہوئے مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ عنقریب یہ شخص گاڑی خرید لے گا اور پھر کبھی اس سے ملاقات نہیں ہو سکے گی۔کیوں کہ پیدل چلنے والے اور گاڑی میں بیٹھے ہوؤں کے درمیان فاصلے کتنے بڑھ جاتے ہیں کہ اتنی شناسائی باقی رہ جاتی ہے جس قدر میری اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تھی۔
ملکہ برطانیہ کے اس خط کی موجودگی میں اس پر لکھنا آسان ہو گیا ہے ۔ اب میں کسی ذریعے سے ملکہ کے خط والی کتاب حاصل کروں گا اور اس پر افسانہ ضرور لکھوں گا۔ جو میری شہرت کے لیے یقینا بڑا مفید ثابت ہو گا۔ جیسے ہی کہانی مکمل ہوئی میں تمھیں ارسال کردوں گا۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ “سویرا”تو اب سال میں ایک بار ہی شائع ہوتا ہے۔ اس لیے اب کے میں اپنا افسانہ سلیم الرحمن صاحب کی خدمت میں پیش نہیں کروں گا۔
تمھارا ۔سلطان