مستنصر حسین تارڑ کے افسانے … (چند تاثرات)

یہ تحریر 3627 مرتبہ دیکھی گئی

پی ٹی وی کی صبح کی نشریات کے آغاز سے پہلے میں تارڑ صاحب کے ابتدائی سفرنامے پڑھ چکا تھا۔ نکلے تیری تلاش میں، اند لس میں اجنبی اور پیار کا پہلا شہر وغیرہ۔ ان کتابوں کے مطالعے کے بعد اُن سے آشنائی تو ہو گئی تھی لیکن میں ان کا پرستار نہیں بن سکاتھا۔ سفرناموں کے بعدتارڑصاحب تو ناولوں کی طرف مرجعات کرگئے مگر میرا ان کا ساتھ صبح کی نشریات اور ابتدائی سفرناموں تک رہا۔ ابھی انھوں نے ”بہاؤ“ جیسا ناول نہیں لکھا تھا یا شاید لکھ چکے تھے مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔

ایک روز تارڑصاحب ٹی وی پر نمودار ہوئے۔اس روزوہ کسی ادبی پروگرام کی میزبانی کر رہے تھے۔ ابتدائی کلمات میں ان کا استدال یہ تھا کہ ان کی پہلی محبت اور پہلی پہچان سفرنامہ نگار کے طور پر ہے بعدمیں انھیں ادیبوں میں شمارکیا جانا چاہیے۔ جب کہ پروگرام میں شامل دیگر سینئر مہمانانِ گرامی شاید جیلانی کامران یا کوئی اور انھیں بآور کروانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پہلے ان کی شناخت بطور ایک ادیب کے ہوتی ہے بعد میں وہ ایک سفرنامہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تارڑصاحب خود کو پہلے ادیب سمجھیں یا بعد میں؛ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اُردو سفرنامے کو جو وقار بخشا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔

صبح کی نشریات کو ہر دل عزیز اور مقبول بنانے میں تارڑصاحب کے سفرناموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب وہ ٹی وی پر اپنے سفرناموں کے دلچسپ واقعات دل نشیں انداز میں سنایا کرتے تو بہت سے نوجوان ان حسین وادیوں اور حسیناؤں کی تلاش میں گھروں سے نکل کھڑے ہوتے جن کا ذکر وہ اپنے سفر ناموں میں کیا کرتے تھے۔ البتہ ان نوجوانوں نے واپسی پر کبھی بتایا نہیں کہ اُن حسیناؤں سے ان کی ملاقات ہو پائی یا نہیں۔ اب رہی بات ناولوں کی تو تارڑ صاحب کے ناولوں کی موجودگی میں یہ الزام تو باطل ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ناول لکھے ہی نہیں جاتے۔ البتہ ناول کی ضخامت کو دیکھ کر اکثر قارئین بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، کیوں کہ موجود زمانے میں ٹالسٹائی،دوستوفیسکی اور میکسم گورکی کو پڑھنے والے تو دستیاب نہیں رہے اس لیے اب تو ہر ضخیم ناول قاری کو ”زٹل نامہ“ ہی دکھائی دیتا ہے جس کو پڑھنے کے واسطے آدمی کا کسرتی (ورزشی) ہونا بہت ضروری ہے۔

تارڑ صاحب کے ناول یقینا اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوں گے۔ اسے دعائیہ جملہ سمجھا جائے کیوں کہ میں نے ان کے ناول نہیں پڑھے۔ البتہ ایک بار میں نے اُن کا ناول ”مرگِ محبت“ ضرور خریدا تھا۔خریداری کے سلسلے میں ایک راز کی بات بتاتا چلوں کہ میں نے یہ ناول گنگارام ہسپتال کے قریب واقع ”صفاں والا چوک“سے خریدا تھا۔وہاں کتابوں کی بہت سی دکانیں ہیں اس راز کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہاں سے تارڑصاحب کی کتابیں %۳۳ پر بھی مل جاتی ہیں۔ جن دنوں میں نے یہ ناول خریدا اُ ن دنوں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی۔ پھر میں ناول دکان پر ساتھ لے جاتا یہی سوچ کر کہ اگر ناول دکان پر بیٹھ کر لکھے جا سکتے ہیں تو پڑھے کیوں نہیں جا سکتے۔ یہ دکان ہسپتال روڈ پر واقع تھی۔ میری دکان کے سامنے ایک جنرل سٹور تھا۔ میری دکان کا فرنٹ بہت کشادہ تھا۔ جس کا فائدہ جنرل سٹور والا یوں اُٹھا لیتا کہ گرمیوں کے موسم میں وہ اپنی مچھردانیاں میری دکان کی دیوار پر لٹکادیا کرتا اور ہر آتے جاتے گاہک کو مجھے یہ بتانا پڑتا تھا کہ یہ مال سامنے والے سٹو رکا ہے۔

اگر میری دکان آڑھت منڈ ی میں ہوتی اور اس کے پیچھے آفس نما ایک کمرہ ہوتا تو مجھے ناول پڑھنے میں بڑی سہولت رہتی مگر ایسا نہیں تھا۔ آڑھت منڈی سے یاد آیا کہ اسی عنوان سے مجھے اشفاق احمد کا ایک یادگار افسانہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اس افسانے کی گہرئی اور رسائی ”کفن“ کے مقابلے میں کہیں زیادہ دور تک مار کرتی ہے مگر افسوس کہ اس زمانے میں کفن کی ستائش کرنے والے دستیاب نہیں تو اشفاق صاحب کے افسانے”آڑھت منڈی“ کو کس نے پوچھنا تھا۔ میری دکان پر شیخوپورہ سے ایک سیل مین آیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ آیا تو اس نے ناول میرے ہاتھ میں دیکھا ;جس کے میں نے ابھی ابتدائی چند صفحات ہی پڑھے تھے اور میں دکانداری کی مصروفیت کے باعث باربار ان ہی صفحات کو دہراتا رہتا تھا۔ وہ سیل مین بڑی لجاجت سے کہنے لگا؛”مجھے تارڑ صاحب کے ناول پڑھنے کا بہت شوق ہے، وہ میرے پسندیدہ مصنف ہیں؛اُن کے اس ناول کو پڑھنے کی مجھے بڑی تمنا تھی؛ کیا میں اسے پڑھ سکتا ہوں؟“۔۔۔ادب نوازی کا ایک نرم گوشہ دل میں رکھنے کی بنا پر میں یہ سوچنے پر مائل ہوا کہ یہ بندہ اس قدر اشتیاق ظاہر کر رہا ہے تو شاید اس ناول کو پہلے پڑھنے کا یہ حق دار ہے؛ میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ یہ سوچ کر میں نے ”مرگِ محبت“ اس سیل مین کو پیش کر دیااور پھر جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔۔۔۔۔ میں اس ناول کی واپسی کا برسوں سے منتظر ہوں۔

موضوعِ سخن کیوں کہ افسانے ہیں اس لیے ان پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ یہاں مستنصرحسین تارڑصاحب کے دو افسانوں کا خاص طور پر ذکر نا چاہوں گا۔ ان دونوں میں بالترتیب میں نے جو افسانہ پہلے پڑھا اس کا نام تھا ”یہ کہانی کون لکھ رہا ہے“ اور دوسرے افسانے کا نام تھا ”میں ایک شہر سے گزرا“ میری نظر میں دونوں شاہکار افسانے ہیں۔ افسانے کے سفر میں اگلا قدم، نیاسنگ میل یا ہو سکتا ہے اُردو افسانہ کی کوئی اگلی منزل یا نئی جہت وغیرہ۔ میں کس لحاظ سے ان افسانوں کو شاہکار کا درجہ دیتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ اندازِ نگارش، اسلوب اور کرافت؛ بل کہ دوسرے افسانے کی نثر تو مجھے نثری نظم کے قریب پہنچی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ شاعری ایک خاص موڈ کے تحت وارد ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح نثر کا بھی ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ میں نثر کا موازنہ شاعری سے کیوں کر کر رہا ہوں شاید اس کی وضاحت کرنے میں کامیاب ہو سکوں۔۔۔۔۔مثلاً مجھے موڈ کے لحاظ سے محترم احمد جاوید کی نظمیں بے حدپسند ہیں۔ میں ان کی نظموں کا شیدائی ہوں۔یہاں صرف ایک نظم کے دو مصرعے پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ آگے تھوڑے کو زیادہ جاننا آپ کا کام ہے۔نظم کے مصرعے ملاحظہ ہوں:

”یہ  پگڑ  باز  دھڑیل  سنڈیاں

جنھوں نے ڈاٹ لگا رکھی تھی

جدیدیت کے مقدس کموڈ میں“

ان نظموں سے ملتی جلتی اور قریب تر فضا ہے تارڑصاحب کے مذکورہ افسانوں کی۔ پی ٹی وی کی تاریخ کو انھوں نے جس رنگ ڈھنگ سے پیش کیا ہے اس نے میرے اندر کرکٹر اور فلم سٹاروالے پرستار کو جگانے کی ممکنا حد تک کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں مجھے ان افسانوں سے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنے کا موقع فراہم کیاہے۔ اب آخری بات؛ اُن دنوں آغاگل کے افسانوں کا مجموعہ”سونے پر اُگی بھوک“ شائع ہوا تھا۔ اس میں شامل ایک افسانے کا نام تھا”عظیم ناول“ تارڑصاحب کا افسانہ ”یہ کہانی کون لکھ رہا ہے“ ان دونوں افسانوں میں سب سے پہلے میں آغاگل کا افسانہ ”عظیم ناول“ پڑھا تھا۔ کتاب سے پہلے یہ افسانہ کسی پرچے میں شائع ہو چکا تھا، پرچے کا نام اب یاد نہیں رہا۔ افسانہ اچھا تھا بل کہ بہت اچھا تھا مگر کچھ عرصے بعد یاد سے محو ہو گیاجون ایلیا کے اس شعر کی طرح:

کیا مشکل ہے کہ اب تیری صورت

غور   کرنے    پر   یاد   آتی   ہے

یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کتنی مدت پہلے پڑھا تھا شاید ایک برس پہلے۔ پھر بعد میں تارڑصاحب کا افسانہ ”یہ کہانی کون لکھ رہا ہے“ نظر سے گزرا۔ افسانے کے ابتدائی حصے میں تارڑصاحب نے جس بولڈانداز میں پی ٹی وی کی تاریخ رقم کی ہے وہ انھی کا خاصا ہے۔ اسی افسانے کا کلائمکس پڑھ کر جو بات بڑی شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ یہ کہ ایسا انجام اشیائی مصنفین سے لگّا نہیں کھاتا۔میں نے سوچا کہ اس افسانے کے کلائمکس نے جو ابہام پیدا کیا ہے اس سے متعلق محمدسلیم الرحمن صاحب سے پوچھوں گا۔ ان سے ملاقات پر جب میں نے افسانے کا ذکر کیا تو پتہ چلا کہ تارڑصاحب کا افسانہ ان کی نظر سے نہیں گزرا یوں بات واضح نہیں ہو سکی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب آغاگل کے افسانوں کا مجموعہ ”سونے پر اُگی بھوک“ منظرعام پر آیا تو اس میں ان کا افسانہ ”عظیم ناول“ بھی شامل تھا۔ یہ افسانہ میں بھول چکا تھا مگر اس افسانے کے منفردنام کے باعث یہ دوبارہ مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یعنی اگر اس افسانے کا نام ”عظیم ناول“ نہ ہوتا تو شاید میں اس افسانے کو دوبارہ نہ پڑھ پاتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی تحریر کا عنوان اس کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب میں نے ”عظیم ناول“ دوبارہ پڑھا تو تارڑصاحب کے افسانے ”یہ کہانی کون لکھ رہا ہے“ کی یاد ذہن میں ابھی تازہ تھی۔ اس لیے بآسانی اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ دونوں افسانوں کا کلائی مکس ایک جیسا نہیں بل کہ باکل ایک ہی ہے۔ آغاصاحب نے کلائی مکس والی اُلجھی ہوئی گتھی کو بھی سلجھا دیا ہے وہ یوں کہ انھوں نے اپنے افسانے ”عظیم ناول“ کے آخر میں یہ الفاظ درج کر دیے ہیں (مرکزی خیال؛ انگریزی ادب سے ماخذ)

میر ا موقف یہ کہ اگرچہ ترجمہ نگاری بہت مشکل فن ہے چاہے اردو سے پنجابی میں ہی کیوں نہ کرنا ہو۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ مرکزی خیال کو بنیادبنا کر شاہکار افسانہ تخلیق کرنا ترجمہ نگار ی سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ اس لیے شاہکار افسانے تخلیق کرنے پر مستنصر حسین تارڑ اور آغاگل مبارک باد کے مستحق ہیں امید کرتا ہوں کہ وہ اسی طرح یادگار افسانے تخلیق کرتے رہیں گے اور ادب کے متوالوں کی ادبی پیاس بجھانے کے واسطے پینے پیلانے کا سامان مہیاکرتے رہیں گے۔ ریڈنگ بک شاپ پر تارڑ صاحب کبھی کبھار تشریف لایا کرتے ہیں۔ کاش! میں ان کے ساتھ ایک سلفی بنا سکتا۔ میری خواہش ہے کہ اب اگر تارڑ صاحب کا افسانوی مجموعہ شائع ہو جو کہ ضرور ہو گا اور اس میں مذکورہ افسانے بھی شامل ہوں تو میں اس مجموعے کے ساتھ ریڈنگ بکس پر کرکٹر یا فلم سٹار کے پرستار کی طرح ان کے آٹوگراف لینے کے لیے ان کا منتظر رہوں۔