ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم: اشفاق احمد کی یاد میں

یہ تحریر 3265 مرتبہ دیکھی گئی

                مجھے ساتھ والے گھر سے کسی لڑکی کی اُونچی اُنچی باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی۔ ہمارے ساتھ والا گھر ایک وکیل کا تھا۔ اُس کا نام تو ثمر تھا لیکن اُس کی بیوی کو ساری زندگی کوئی ثمر نہیں لگا۔ جب اُس کے ہاں کوئی بچہ ہی نہیں تھا تو پھر کسی لڑکی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

                دن کے وقت البتہ ایک لڑکی اُن کے ہاں آیا جایا کرتی تھی۔ وہ شاید اُن کی کوئی رشتہ دار تھی۔ اُس کے بال بوب کنگ میں تھے اوراس کے سامنے والے دانتوں میں اتنا خلا تھا جو دور سے بھی صاف دکھائی دیتا تھا۔ وہ اُس خلا پر مسلسل اپنی زبان پھیرتی رہتی تھی۔ دیکھنے والے کی نگاہ اس کے دانتوں کے خلا میں اس طرح پھنس کے رہ جاتی تھی جیسے امرود کھاتے ہوئے اکثر دانتوں میں اس کا کوئی بیج پھنس کے رہ جاتا ہے۔ پھر اسے بڑی جدوجہد کے ساتھ نکالنا پڑتا ہے اکثر کوئی پھانس نہیں بھی نکلتی اور بڑے دنوں تک تکلیف دیتی رہتی ہے۔

                اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔ یہ ۱۹۷۸ءکی ایک تاریک رات تھی۔ میں اپنے گھر اور وکیل صاحب کے مکان کی سانجھی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا اور مجھے لڑکی کے مکالموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی لیکن یہ اُس بوب کنگ والی لڑکی کی آواز بھی نہیں تھی۔ جب مجھے اندازوں سے یہ عقدہ حل ہوتا نظر نہ آیا تو میں نے دیوار کے اوپر سے دوسری جانب دیکھا تو وہاں گھر کے پچھلے برآمدے میں ایک تپائی پر چھوٹا سا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پڑا تھا اور اس میں ڈرامے کا سین چل رہا تھا جس میں ایک لڑکی باغ میں پرندوں کو اُڑاتی پھر رہی تھی اور پھر وہیں باغ میں لگے جھاکے سے مکالمے بولنے لگتی تھی۔ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ اشفاق احمد کا ڈرامہ تھا اور اس لڑکی کا نام روحی بانو تھا۔

 یہ میرا اشفاق احمد کی کسی ڈرامائی تحریر سے پہلا تعارف تھا۔ میری عمر اُس وقت آٹھ یا نوبرس کی تھی ۔ہمارے گھر ٹی وی نہیں تھا ہم پڑوس میں ایک شیخ صاحب کے گھر ٹی وی دیکھنے جایا کرتے تھے۔ہم ٹی وی پر کارٹون اور الف لیلہ دیکھا کرتے تھے۔ شیخ صاحب بازار میں برتنوں کی دکان کرتے تھے۔ اُن کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح گھر سے نکلتے وقت اپنی بیٹیوں کو پانچ پانچ روپے کا نوٹ دیتے تھے(اس زمانے میں پانچ روپے کا نوٹ ہوا کرتا تھا)شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ اللہ ہمیں بیٹیوں کے نصیب کا رزق دیتا ہے یہ دعا کریں گی تو اللہ اور برکت دے گا۔شام کو گھر لوٹتے وقت شیخ صاحب تین ، چار کلو دودھ اور سیون اپ لایا کرتے تھے ۔جب ٹی وی پر الف لیلہ شروع ہوتا تو اس وقت سارا گھرانہ دودھ سوڈا پی رہا ہوتا تھا اور ساتھ میں ٹی وی دیکھنے والوں کو بھی دودھ سوڈے کا ذائقہ چکھنے کو مل جاتا تھا۔

                ثمر وکیل کی بیوی تو گھریلو خاتون تھی مگر وکیل صاحب کسی فلمی ہیرو کی طرح شام کو ٹینس کھیلنے کلب جایا کرتے تھے۔ ان کی عمر اتنی زیادہ تو نہیں تھی لیکن جب وہ بیمار پڑ گئے تو بوڑھے دکھنے لگے تھے پھر انھیں فالج ہو گیاپھر وہ لوگ وہاں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اس کے بعد وہ کسی دوسرے شہر چلے گئے۔بنا بچوں کے میاں بیوی میں سے جب شوہر بیمار پڑ جاتا ہے تو عموماً بیوی اسے ساتھ لے کر میکے کی طرف مراجعت کر جاتی ہے۔ ان کے جانے کے بعد اس بوب کٹنگ والی لڑکی نے بھی وہاں آنا چھوڑ دیا تھااور ہماری گلی گرمیوں کی تپتی دوپہرکی طرح ویران ہو کے رہ گئی تھی۔

                جب ہمارے گھر ٹی وی آیا تو ہم لوگ مہاجر کالونی سے ہجرت کرکے شیخ صاحب کی بیٹیوں کے نصیب اور دودھ سوڈے سے بہت دور چلے گئے تھے۔ہمارے جانے کے بعد جب شیخ صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی تو بہو کے قدم رکھنے سے پہلے ان کے گھر میں بہو کے نصیب داخل ہو چکے تھے وہ یوں کہ شیخ صاحب چھوٹے سے تین مرلے کے گھر سے دس مرلے کے بڑے گھر میں شفٹ ہو گئے تھے۔

                یہ ۱۹۹۲ءکی بات ہے ۔میرے پاس ایک جاپانی ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتا تھا۔ ابھی چائنہ میڈ چیزوں کی اتنی بہتات نہیں ہوئی تھی۔ اس لےے جاپانی چیزیں عام دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ اُس ریکارڈ میں پلے کے بٹن کے ساتھ ایک سرخ رنگ کا بٹن بھی لگا ہوا تھا۔ جب دونوں بٹنوں کو بیک وقت دباتے تو ریکارنگ شروع ہو جاتی تھی۔ ہر ہفتے کی رات آٹھ بجے میں اس ریکارڈر کو لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا اور اپنے پسندیدہ ڈرامے کی ریکارڈنگ کرتا۔ جب ڈارمہ ختم ہو جاتا تو پھر کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتا اور اُس ڈرامے کے ریکارڈ شدہ مکالمات کو لکھا کرتا تھا۔میں ان مکالمات کو لکھ کر یاد نہیں کرتا تھا اور پھر اداکاروں کی طرح اُن کو بولنے کی پریکٹس بھی نہیں کرتا تھا اس لیے کہ مجھے اداکاری کا کوئی شوق ہی نہیں تھا۔ اس زمانے میں میرا لکھاری بننے کا بھی کوئی خیال نہیں تھا۔ پھر میں وہ مکالمات آخر کیوں لکھا کرتا تھا۔ یہ وہ اہم سوال تھا جس کا جواب میرے لیے ابھی مستقبل کے پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ گرم و سرد موسموں کی شدت کے باعث میں ان پردوں کی پرتوں کو اتنا نہیں کھول سکا کہ ان میں چھپے بھید مجھ پر مکمل طور پر عیاں ہوپاتے۔ وہ ڈرامہ اشفاق احمد کا تحریر کردہ تھا اور اس کا نام تھا ”من چلے کا سودا“۔

                بہ سلسلہ روز گار ۱۹۹۷ءکو جب میں کراچی کینٹ سٹیشن پر اُترا تو ایک بک سٹال پر رُک کر میں اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ نصرت فتح علی خان کا انتقال ہو گیا ہے۔ مجھے بچپن میں سنی نصرت کی قوالیاں یاد آئیں اور اس وقت میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ نصرت کے انتقال کے دس سال بعد میں اُس پر اپنا طویل ترین افسانہ لکھوں گاکہ جب وہ افسانہ ”سویرا“ میں چھپا تو اسے پڑھ کر مستنصر حسین تاڑ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ ناول کا باب ہے؟ اس کا اگلا حصہ کب لکھ رہے ہو؟ ۔

                جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو شام کے سائے گہرے ہو کر تاریک رات میں بدل رہے تھے ۔ میرے روم میٹ نے پوچھا کہ کھانے لاﺅں؟۔ میں نے کہا : مجھے بھوک نہیں ہے۔ ساتھ والے کمرے سے نصرت فتح علی کی آواز آ رہی تھی ”سن چرخے دی مِٹھی مِٹھی گھوک ماہیا مینوں یادآوندا“۔دائم آباد کو جانے والا مسافر تو جا چکا ہوتا ہے اور ہمارے دل میں بس ایک کسک سی چھوڑ جاتا ہے۔میرا یہ کمرہ ڈرگ روڈ سٹیشن پر بسم اللہ ہوٹل کی اوپر والی منزل پر تھا۔ ہمارے کمرے میں ، میرے روم میٹ سلطان کا ٹی وی کسی خرابی کے باعث بند پڑا رہتا تھا۔ سلطان کسی جگہ سکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی کرتا تھا ۔ شام کو واپسی پر سلطان اور آس پاس کے کمروں کے لوگ رات گئے تک تاش کھیلنے میں مشغل رہتے تھے۔ یہ مشغولیت شاید خود کو مصروف رکھنے کے لیے اختیار کی گئی تھی کہ انھیں بچوں اور گھر کو یاد کرنے کا زیادہ وقت نہ مل سکے۔ میں جب اُن کے ساتھ رہائش پذیر ہوا تو تاش کے کھیل سے بالکل نابلد تھا۔ اس لیے میری ڈیوٹی باقی لوگوں کے لیے چائے بنانے کی ہوتی تھی۔وہ سب لوگ تاش کی بازیوں میں مگن رہتے اور میں اپنا وقت احمد ہمیش سے ملنے والے ادبی رسائل کی ورق گردانی میں صرف کیا کرتا تھا۔

                ایک روز چھٹی والے دن سلطان کو جانے کیسے خیال آیا اور وہ اپنا خراب ٹی وی کو کھول کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹی وی میں تھوڑا سا نقص ہے جسے وہ خود ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ وہ کہیں سے ایک کاویہ بھی لے آیا اور چھوٹے چھوٹے دوتین پوائنٹ پر کاویہ لگانے کے بعد جب اس نے ٹی وی آن کیا تو وہ چل پڑا۔ اس روز رات کے ٹھیک ساڑھے دس بجے جب سب لوگ ساتھ والے کمرے میں تاش کی بازی میں مشغول تھے ، تب میں نے ٹی وی آن کیا تو اس پر ایک ڈرامہ چل رہا تھا جس میں صرف تین کردار تھے ۔ دو یونی ورسٹی کے سٹوڈنٹ اور تیسرا کردار شاہ جی کا تھا۔

                طالب علم پوچھتا ہے :”شاہ جی! آپ جدی پشتی زمیندار ہیں یا آپ نے انگریزوں سے زمینیں حاصل کی ہیں؟

                شاہ جی کہتے ہیں: میں لعنت بھیجتا ہوں انگریزوں سے زمینیں لینے والوںپر۔ ہم تو جدی پشتی زمیندار ہیں۔“

                طالب علم پوچھتا ہے :” شاہ جی ! یہ جدی پشتی زمیندار کیسے بنتے ہیں ؟“

                شاہ جی بتاتے ہیں:”میرے لکڑ دادا کے دوست اکبر بادشاہ کے دربار میں وزیر تھے ۔اس کا نام تھا فیضی۔اس نے میرے لکڑ دادا سے کہا کہ اگر آپ دین الہٰی قبول کر لو تو ہم بہت سی زمینیں تمھارے نام کر دیں گے۔ میرے لکڑدادا کیوں کہ بہت پڑھے لکھے تھے اس لیے انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔“

                طالب علم پوچھتا ہے:”وہ کیوں شاہ جی؟“

                شاہ جی بتاتے ہیں: ”وہ اس لیے کہ دین الہٰی کو قبول کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹسٹ سے گزرنا پڑتا تھا جس میں ایک کتے کی زبان کو شہد لگا دیا جاتا تھا اور جو بھی اُس کتے کی زبان پر لگاشہد چاٹ لیتا وہ دینِ الہٰی میں داخل ہو جاتا تھا۔ میرے لکڑ دادا کیوں کہ بہت پڑھے لکھے تھے اس لیے انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔“

                طالب علم :”پھر کیا ہوا شاہ جی؟“

                شاہ جی بتاتے ہیں: ”فیضی کیوں کہ میرے لکڑدادا کا بہت گہرا دوست تھا اس لیے اُس نے اس شرط میں تبدیلی کر دی وہ یہ کہ اُنھوں نے میرے لکڑ دادا کی زبان کو شہد لگا دیا اور کتے نے میرے لکڑدادا کے کندھوں پر اپنی اگلی ٹانگیں رکھ کر اُن کی زبان پر لگا شہد چاٹ لیا۔ تو اس طرح ہم تو جدی پشتی جاگیردار بن گئے اور میں انگریزوں سے زمینیں حاصل کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں“۔

                یہ” تلقین شاہ“ کا وہ پروگرام تھا جو اشفاق احمد نے ٹی وی کے لیے لکھا تھا۔ اس پروگرام کے کچھ اور حصے بھی ٹیلی کاسٹ کی گئے لیکن ان میں بھارت اور امریکہ کے بجائے اپنے ہی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو بہت کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اسی لیے اس پروگرام کو جلد ہی بند کر دیا گیا۔ اگر اشفاق صاحب پیسہ کمانا چاہتے یا صرف شہرت کا حصول ان کے پیش نظر ہوتا تو پھروہ کڑی تنقید کے بجائے بآسانی ہلکے پھلکے موضوعات کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن اُنھوں نے کبھی کسی مصلحت کو فن کے آڑے نہیں آنے دیا۔

                ”تلقین شاہ“ سے لے کر ”من چلے کا سودا“ تک کے مکالمات میں مجھے ایک ہیرو نظر آتا ہے۔ ہمارا ہیرو کون ہوتا ہے اور وہ ہمیں اچھا کیوں لگتا ہے؟دراصل وہ ڈر اور خوف کی حدیں پھلانگ کر ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتا ہے جس کا عام زندگی میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس لیے ہمیں ہیرو اچھا لگتا ہے۔ ”من چلے کا سودا“ میں موجود ہیرو جہادِ اکبر کرتا دکھائی دیتا ہے۔کیوں کہ میں اس جہاد میں حصہ لینے کے بارے میں سوچنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا اس لیے وہ ہیرو میرابھی پسندیدہ ہیرو بن جاتا ہے ۔جہادِ اکبر سے یاد آیا کہ تقریباً آج سے پچاس برس پہلے اشفاق احمد نے افسانہ لکھا تھا “گڈریا“ اس کے آخری جملوں میں اُنھوں نے مسلمانوں کی علمی فضیلت کو جس خوب صورت انداز میںپیش کیا تھا پچاس برس گزر جانے کے بعد آج بھی مسلمان علمی اعتبار سے اسی بلند مرتبہ علمی فضیلت سے ہمکنار نظر آتے ہیں آج بھی کسی مسلمان سے جہاد اکبر کے بارے میں پوچھیں تو ”گڈرےا“ کے مسلمان کی طرح کہے گا کہ یہ جہادِ اکبر کیا ہوتا ہے ؟ جہاد تو صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ کافروںکے خلاف جنگ لڑنے کو ہی جہاد کہتے ہیں۔بالکل اسی طرح ”گڈریا“ کا مسلمان جب ایک ہندو سے کہتا ہے کہ کلمہ سناﺅ۔ تو داﺅجی پوچھتے ہیں :”کون سا کلمہ؟ “ مسلمان کہتا ہے : ”لو کلمے بھی کوئی تین چار ہیں ۔ ایک تو کلمہ ہے“۔

                یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اشفاق صاحب کا مشہور ٹی وی پروگرام ”زاویہ“ کتابی صورت میں مرتب ہو رہا تھا اور میں اُس کی پروف ریڈنگ کر رہا تھا۔ مجھے اُن کی مکمل رہنمائی حاصل رہی۔ میں جب کتاب ”زاویہ“ کا پہلا پروف لے کر اشفاق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے:” کیا ہو رہا ہے آج کل؟“

                میں نے عرض کی : ”خاں صاحب ! ”زاویہ“ کی پروف ریڈنگ کر رہا ہوں“۔

                بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرواکے آرہے تھے ۔گاڑی سے اُترے اور لان کے قریب کھڑے ہو کرمجھ سے باتیں کرنے لگے تھے۔پھر اندر جاتے ہوئے فرمانے لگے : ”بھئی تم تو ہم پر تھانے دار الگ گئے ہو۔ ہمارا لکھا چیک کیا کرو گے اور ہماری غلطیاں پکڑا کروگے۔“

                یہ اشفاق صاحب کی محبت کا ایک خاص انداز تھا ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ غلطیاں دونوں سے ہوتی ہےں۔ کمپوزر سے بھی اور پروف ریڈر سے بھی۔ جہاں تک اشفاق صاحب کی غلطیوں کا معاملہ ہے تو میں نے اُن کے ہاتھ سے لکھے ہوئے بہت سارے مسودات دیکھے ہیں۔ پہلے لفظ سے لے کر آخری حرف تک مجھے کبھی ایک کٹنگ بھی نظر نہیں آئی اورمیں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ انھوں نے کبھی رف مسودہ تحریرنہیں کیا اس لیے بعد میں اُسے نیٹ کرنے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔

                بات ہو رہی تھی ”زاویہ“ کے پہلے پروف کی۔ ہر بڑی تخلیق کے پیچھے اس کی ایڈیٹنگ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ”ویسٹ لینڈ“ جیسی نظم بھی ایڈیٹنگ کے بعد ہی منظرعام پر آتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر بڑا ادیب بڑا ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ” زاویہ“ کی پروف ریڈنگ کا اعزاز مجھے حاصل رہا لیکن اس کی ایڈیٹنگ اشفاق صاحب نے خود کی تھی۔ یہ ایک بڑا کام تھا اور اسے ایک بڑا آدمی ہی کر سکتا تھا۔

                اشفاق صاحب کی ایڈیٹنگ کرنے بعد کتاب میں شامل ہر عنوان ایک مکمل قصے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ ایسے قصے جو لطف تو افسانے کا دیتے ہیں لیکن Base وہ Reality پر کرتے ہں۔ ”زاویہ میں تصوف کے مسائل پر پیچیدہ انداز میں بحث نہیں کی گئی بل کہ وہ زندگی کی اُن چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کے منظرنامے ہیں جن کو عام آدمی بڑی آسانی سے نظر انداز کر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ محسوس بھی نہیں کرتا۔ بڑے فن کار کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی اور معمولی باتوں کو ہمیشہ بڑے تناظر میں پیش کرنے پر دسترس رکھتا ہے۔ اور اس قدر سلیقے سے بیان کرتا ہے کہ اُسے پڑھنے کے بعد وہ حقیقت جو بظاہر بڑی معمولی اور غیر اہم سی لگتی تھی آپ کے اندر تک سرایت کر جاتی ہے ۔اس کے باوجود اگر پھر بھی آپ اُس حقیقت سے نظریں چرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تب بھی اُسے احساس کی سطح سے پرے دھکیلنا آپ کے لیے مشکل ضرور ہو جائے گا۔

                ایک دفعہ جب اشفاق صاحب کی طرف جانا ہو ا تو رکشے والے سے بڑی بحث ہوئی۔ 121۔سی پہنچ کر جب میں نے کرایہ ادا کیا تو رکشے والے کے پاس چینج نہیں تھا۔ میں نے اُس سے پانچ روپے بقایا لینے تھے۔ بڑی دیر تکرار ہوتی رہی۔ آس پاس کو ئی دکان بھی نہیں تھی جہاں سے چینج مل سکتا۔ آخر میں اُسے صابری کی دکان پر لے گیا جہاں سے اشفاق صاحب کے گھر کا سوداسلف منگوایا کرتے تھے اور یوں بقایا پانچ روپے لے کر میں نے اُس رکشے والے کی جان چھوڑی۔

                جب میں واپس اشفاق صاحب کے پاس حاضر ہوا تو انھیں سارا ماجرابیان کیا۔ سُن کر فرمانے لگے: ”یار ! تم نے اُس سے بقایا کا تقاضا ضرور کرنا تھا۔ وہ پانچ روپے بھی اُسے دے دینے تھے۔“ پھر فرمایا: ”اگر ہو سکے تو بقایا نہ لیا کرو۔ تم نے کون سا اپنے پلے سے دینا ہوتا ہے۔ دِتّے میں سے ہی تو دینا ہے۔“میں اشفاق صاحب کی اس بات پر ابھی تک عمل پیرا نہیں ہو سکا۔ ایک روپیہ بھی چھوڑدینا میرے لیے بڑا دشوار ہوتا ہے لیکن میری دلی تمنا ہے کہ مجھ پر جلد ازجلد ایسا وقت آئے کہ اس پر عمل کرنا میرے لیے آسان ہو جائے۔ ظاہری طور پر اُن کی اس بات کے دو رُخ ہیں ۔ ایک تو دِتّے میں سے دینے کا حوصلہ پیدا کرنا اور دوسرے اس حوصلے کے بل بوتے پر تھوڑا سا آگے بڑھ کر دوسروں کی جلی کٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کا عمل آپ ہی آپ شروع ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو بقایا چھوڑدینے کا حوصلہ نہیں رکھتے جو لوگوں کی طنزیہ باتوں کو کہاں فراموش کر پاتے ہوں گے۔

                جب ہم سب گھر والے اشفاق صاحب کا پروگرام ”زاویہ “ دیکھتے اور سنتے تو ہم پر ایک عجیب و غریب سحر طاری ہو جاتا تھا۔ ہمیں لگتا جیسے ہم سب ماضی کے قصہ گوئی کے دور میں واپس چلے گئے ہیں۔ ہم سب اپنی اس واپسی پر بڑا آنند محسوس کرتے تھے اور ہمیں یوں لگتا جیسے یہ داستانی طرزِ گفتگو ہماری جینز میں پہلے سے کہیں موجود تھا اشفاق صاحب نے اُسے پھر سے دریافت کر لیا ہے۔ انھوں نے بڑے منفرد انداز میں ہمارے ماضی کا ورثہ ہمیں لوٹا دیا ہے۔ آج کل لینڈمافیا کے ہاتھوں تاریخی عمارتوں کا ورثہ تباہ و برباد ہو رہا ہے ۔ پرانی اور تاریخی جگہوں پر پلازے اور شاپنگ مال تعمیر ہو رہے ہےں۔ تاریخی ورثے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے والا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ایسے میں اشفاق صاحب نے کم ازکم داستان گوئی کے ورثے کو اس انداز سے اپنی تحریروں میں محفوظ کر لیا ہے کہ اب کوئی مافیا بھی اس پر قبضہ نہیں کرسکے گا۔

                بہت سے لوگ ملازمت یاد وسری مصروفیات کے باعث”زاویہ“ میں شرکت کرنے کے لیے ٹی وی سٹیشن نہیں جا پاتے تھے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے اشفاق صاحب نے اپنے گھر پر بھی ایک نشست کا اہتمام کررکھا تھا۔ یہ نشست عموماً جمعرات کے روز ہوا کرتی تھی۔ مجھے بھی وہاں حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہا ہے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگ وہاں آیا کرتے تھے۔ بزنس کلاس، اساتذہ ، خواتین ، خاص کر نوجوان طبقے کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ عصر کے وقت ہم وہاں پہنچا کرتے تھے، مغرب کے وقت نماز کا وقفہ ہوتا۔ اشفاق صاحب نماز کے لیے گھر کے اندر تشریف لے جاتے تھے۔ جب وہ واپس محفل میں آتے تو گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا تھا۔

                ان محفلوں میں مجھے ایک بات کی بڑی کمی محسوس ہوا کرتی اور میں اکثر سوچا کرتا کہ واصف علی واصف بہت خوش قسمت تھے جن کو اشفاق صاحب جیسے سننے والے میسر رہے، لیکن خود اشفاق صاحب کی محفل میں مجھے ایسا کوئی صاحبِ بصیرت دکھائی نہیں دیتا تھا جو اُن کے Calibre کے مطابق اُن سے کوئی سوال پوچھ سکتا۔ وہاں زیادہ تر میرے جیسے ہی عالم فاضل بیٹھے ہوتے تھے جنھوں نے اپنی ذات سے بلند ہو کر کبھی اُن سے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے بکھیڑے، آپس کی ناچاکی، روزگار کے مسائل، بیماری کا رونا ایسے سوالات کی بھر مار میں ایسا لگتا کہ ہم سب خالی برتن کی طرح شور زیادہ کرتے تھے اور جذب کرنے کی صلاحیت بالکل ہی مفقود تھی۔

                ایک بار کسی نشست میں کوئی خاتون اشفاق صاحب کو بتا رہی تھی کہ اُس کا شوہر نماز کے بعد دعا نہیں مانگتا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میں نے دعا مانگی تو یہ ظاہر ہو گا کہ میں نماز اپنے مطلب کے لیے اللہ سے مانگنے کے لیے پڑھتا ہوں۔

                اشفاق صاحب فرمانے لگے: ”بھئی آپ اُسے بتاﺅ لیکن سختی سے نہیں نہایت نرمی سے بتاﺅ کہ جب عام زندگی میں ضرورت پڑنے پر آدمی اپنے بھائی سے مدد مانگتا ہے یا کسی عزیز رشتے دار سے درخواست کرتا ہے تو پھر اللہ پاک سے مانگنے میں کیسی شرمندگی۔ وہ تو خود فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور وہی سب سے بہتر مدد کرنے والا ہے۔“

                گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم نے پوچھا ”سر! میں کالج شلوارقمیض پہن کر جاتا ہوں تو لڑکے اور ٹیچرمیرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں شلوار قمیض پہننے ولا جاہل ہوتا ہے۔“

                اشفاق صاحب نے اُس طالب علم سے فرمایا ”یار ! تم اپنے موقف پر تو ضرور کاربند رہو لیکن دوسروں کو سختی سے جواب مت دو۔ تم انھیں بڑے دھیرج اور نرمی کے ساتھ بتاﺅ کہ سر! میں تو پینٹ شرٹ پہننا چاہتا ہوں لیکن کیاکروں میرے گھر میں بوڑھے والدین موجود ہیں جنھوں نے بڑی محنت اور محبت سے میر پرورش کی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ اب مجھے اُن کی خاطر اُن کی خواہش کے احترام کے پشِ نظر مجبوراً شلوار قمیض پہننا پڑتی ہے۔ اب آپ ہی مجھے بتائیں میں انھیں گھر سے تو نہیں نکال سکتا ناں؟“

                اشفاق صاحب کی انھی محفلوں کی بات ہے کہ ایک رو ز دو نوجوان وہاں آئے۔

                ڈرائنگ روم کا باہر والا دروازہ کھلتے ہی سامنے جو ٹیبل لیمپ نظر آتا ہے اُس کے ساتھ والے صوفے پر اشفاق صاحب تشریف رکھتے تھے۔ جب وہ دونوں نوجوان اندر داخل ہوئے تو اشفاق صاحب نے انھیں اپنے پاس ہی بیٹھنے کو جگہ دی اور اپنی گفتگو کو جاری رکھا۔ وہ مختلف طرز کے موضوعات پر ایک خاص ربط باہمی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ اُن کی باتوں سے یوں لگتا کہ اُن مختلف موضوعات کا آپس میں کوئی بہت گہرا تعلق موجود ہوتا ہے جسے کوئی قادرالکلام ہی دریافت کر سکتا ہے۔سننے والے تو ندرتِ کلام کے حصار میں ہوتے تھے۔

                اتنے میں مغرب کی نماز کا وقفہ ہو گیا اور اُس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب اُن جوانوں کی باری آئی تو اُن میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

                ”سر! یہ میرا دوست ہے بڑا اچھا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یہ بڑے عرصے سے مجھے کہہ رہا تھا لیکن اس کی بات کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ اس لیے آج میں خاص طور پر اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں لایا ہوں ۔ سر! میرے اس دوست کو مرشد کی تلاش ہے۔ یہ کسی کا مرید ہونا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ ہی اس کی راہنمائی فرمائیں کہ اس کو کیا کرنا چاہئے؟اسے کس کا مرید ہونا چاہئے؟ آپ کی نظر میں کوئی ایسا بابا ہے تو ہمیں ضرور بتائےں۔“

                اکثر لوگ اشفاق صاحب سے بابون کا پتہ پوچھنے آیا کرتے تھے لیکن اُن کا انداز کچھ ایسا ہوتا تھا جیسے وہ بابے کا پتہ نہیں پوچھ رہے بل کہ پانی کا کلاس مانگ رہے ہوں یا چائے کا کپ یا پھر کچھ اس طرح ”اشفاق صاحب !فلاں کتاب کس بک شاپ سے ملے گی۔ ذرا ہمیں اُس کا پتہ تو بتادیں پلیز“

                کسی باک شاپ کے ایڈریس میں اور کسی بابے کے پتے میں یقینا بڑا فرق ہوتا ہے اور لوگ اس فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے تھے۔ دراصل اشفاق صاحب کسی ایسے بابے کا پتہ جانتے ہی نہیں تھے جس نے اپنی کوئی دکان سجا رکھی ہو۔ اُن کا تعلق تو فقیروں سے تھا جن کے ڈیروں پر مخلوقِ خدا کو سیدھے راستے پر چلنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔

                اُن دونوجوانوں کا معاملہ البتہ مختلف تھا۔ انھوں نے تو اپنا مقصد ہی سامنے رکھ دیا تھاکہ وہ صرف پتہ ہی نہیں پوچھ رہے تھے بل کہ مرید ہونے کے بھی آرزو مند تھے۔ اس معاملے میں قدرت اللہ شہاب کا مو قف قدرے سخت تھا۔ وہ کہا کرتے تھے:”یہ زمانہ بیعت ہونے کا نہیں ہے۔“اس بارے میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا نقطہ نظر ہے کہ تبع تابعین کے ہاں مرشدین نہیں تھے۔ رابعہ بصریؒ، حبیب عجمیؒاور بایزید بسطامیؒ کا کوئی مرشد نہیں تھا۔ جنید بغدادیؒ نے براہِ راست کچھ درس حضرت سری سقطیؒ سے لیے تو پہلی مرتبہ ہمیں مرشد کا ایک تعلق نظر آیا۔ تو مرشد کا ہونا لازم نہیں مگر جہاں علم میں کمی ہو اور معاملاتِ نفس پیچیدہ ہوںاور شدتِ حواس غالب ہوں وہاں اُستادوں کی ضرورت اعتدال کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

                                وہ نوجوان اپنے آنے کا مقصد بیان کر چکے تھے۔ اب جواب کے منتظر تھے۔ اُن کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کی تجس بھری نگاہیں بھی اشفاق صاحب پر یوں مرکوز ہو گئیں تھیں جیسے وہ کوئی بازیگر ہوں اور ابھی وہ کسی جانب اشارہ کریں گے تو مرشد نامی کردار سب کے سامنے حاضر ہو جائے گا۔

                تب اشفاق صاحب نے اپنے بائیں جانب بیٹھے نوجوان سے فرمایا: ” بھئی! آپ لوگ آج کل کے پڑھے لکھے نوجوان ہو۔ آپ تو اُستاد کا بھی ٹسٹ لینا شروع کر دیتے ہو۔ مرشد بھی ایک طرح کا اُستاد ہی ہوتا ہے جب کہ ٹسٹ لینا تو استاد کا کام ہوتا ہے۔آپ اگر کسی مرشد کے پاس جاﺅ گے بھی تو اُس پر تجربات کرنے لگو گے جیسے میڈیکل کے طالب علم لیباٹری میں خرگوش اور مینڈک وغیرہ پر تجربات کرتے ہیں۔ “

                اشفاق صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:” میرے خیال میں آپ لوگ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ اپنی سمت درست رکھو۔ دوسروں کی نہیں بل کہ خود کو، کیوں کہ جب ہم دوسروں کو ٹھیک کرنے چل پڑتے ہیں تو پھر اپنا آپ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ جب تمھارے عمل کی درستگی ایک خاص مقام کو پہنچ جائے گی تب ایک روز ایسا آئے گا کہ مرشد خود چل کر تمھارے گھر آ جائے گا اور تمھارے دروازے کی کنڈی کھڑکا کر کہے گا کہ میں آ گیا ہوں۔

                اشفاق صاحب کے اس جواب میں حضرت جنید بغدادی کا مرید ہونے کا واقع پیش نظر تھا۔ وہ جب مرید ہونا چاہتے تھے تو اُن کے مرشد کوئی لفٹ نہیں کروا رہے تھے۔ پھر بعد میں ایک وقت ایسا آیا کہ مرشد نے خود آکر انھیں مرید کیا۔ مگر یہ آج سے صدیوں پہلے کی بات ہے۔آج کے دور کے لیے قدرت اللہ شہاب کا خیال زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ یہ زمانہ مرید ہونے کا نہیں ہے۔ آج اگر کوئی مرشد ، مرید کو لفٹ نہ کروائے تو مرید انتظار نہیں کرے گا فوراً نتیجے پر پہنچ کر اس کا اعلان کر تے ہوئے کہے گا : جناب ہمیں مرشد کی تلاش ہے معشوق کی نہیں۔ اگر مرشد نے بھی معشوقوں جیسی ادائیں دکھانی ہےں تو پھر مرشد اپنے گھر راضی اورہم اپنے گھر خوش۔

                پھر وہ دن بڑی شتابی سے ہمارے سروں پر آن کر کھڑے ہو گئے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا ، ہم سوچنے کی مہلت بھی نہ ملی کہ جب اشفاق صاحب نے ڈرائنگ روم میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ جمعرات کی محفلوں کی رونق تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ مگر اب بھی لوگ اُن سے ملنے آتے تو اُن کو مایوس نہ لوٹنا پڑتا۔ آنے والوں کو سیدھا اشفاق صاحب کے بیڈروم میں لے جایا جاتا تھا جہاں وہ بیماری کے باوجود اپنی گفتگو سے آنے والوں میں اُمیدیں بانٹتے اور حوصلہ دیتے رہتے تھے۔ دراصل 121۔سی میں لوگوں کو ایک ایسا کندھا دستیاب تھا جس پر سر رکھ کر وہ اپنے اپنے دُکھوں پر رویا کرتے تھے اور وہ وہاں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے آیا کرتے تھے۔ مگر پھر دوسروں کے آنسو سمیٹنے والا کندھا خود بہت بیمار پڑ گیاتھا تو اس طرح اشفاق صاحب نے آخری دنوں میں اپنے بیڈروم کو ہی ڈرائنگ روم بنالیا تھا۔

                ایک روز جب میں اُس ڈرائنگ روم میں گیا تو اشفاق صاحب صوفے پر تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مجھے بھی اپنے پاس ہی بٹھا لیا اور پھر وہ میرے اُس افسانے کی تعریف کرنے لگے جو میں نے اُن دنوں لکھا تھا، لیکن میں حیران تھا کہ میرا افسانہ انھوں نے شدید نقاہت کے باوجود کس طرح پڑھا ہو گا اور پھر اُس کی حوصلہ افزائی بھی ضروری سمجھی۔ میرے لیے اُن کی شفقت کا یہ ایک نرالا انداز تھا۔ پتہ نہیں اور کتنوں کے ساتھ وہ اسی طرح پیش آتے ہوں گے یا پھر سب کے سب میری طرح ہی اُن کی محبت کو فقط اپنے لیے مخصوص سمجھتے ہوں گے۔

                پھر بات میرے افسانے سے نور والوں کے ذکر کی طرف چل پڑی تھی۔

                میں نے عرض کی ”خاں صاحب ! باباجی نور والے فرماتے ہیں”نوٹ! دین صراطِ مستقیم ہے جو لوگ سیدھاسوچتے ہیں وہ دین پر ہیں اور جن لوگوں کی سوچ دائرے میں گھمن گیری کھاتی رہتی ہے وہ دین سے خارج ہیں۔ “خاں صاحب! مجھے لگتا ہے جیسے میری سوچ بھی دائرے میں ہی گھومتی رہتی ہے ۔ اپنی سوچ کی سمت کو سیدھ میں رکھنا مجھے آتا ہی نہیں ہے۔“

                اشفاق صاحب نے مجھ سے پوچھا :”تم جس طرف رہتے ہو وہاں سے تمھیں نہر کتنی قریب پڑتی ہے؟“

                میں نے انھیں بتایا:” وحدت روڈ سے ہوتا ہوا میں فیروز پور روڈ پر آتا ہوں اور ایف سی کالج کے پل سے نہر کراس کر کے ماڈل ٹاﺅن کی طرف ہولیتا ہوں۔ پل پر ٹریفک کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ نہر کو دیکھنے اور اُس کے پانی روانی اور تلاطم کو محسوس کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ مجھے اس ہجوم میں سے گزرتے ہوئے اشارہ بند ہونے سے پہلے پل کو پار کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔میرے راستے میں نہر تو ہے لیکن میں اس کے ساتھ کوئی خاص گہرا اور مضبوط تعلق استوار نہیں کر سکا۔ اس پر سے روزگزر جاتاہوں پر اس سے میرا بندھن بس ایسے ہی لمحاتی اور کمزور سا ہے، جو میرے احساس پر کوئی دستک نہیں دیتا اور ویسے بھی نہایت معمولی اور غیر محسوس آہٹوں پربھلا کون سا دروازہ کھلتا ہے۔“

                اشفاق صاحب میرا جواب سُن کر خاموش ہو گئے جیسے وہ شاعر جس کے کلام میں نہر ایک علامت ہو اور سننے والا اُس علامت نگاری کو سمجھ نہ سکا ہو۔ تو شاعر پر خاموشی کا طاری ہونا لازمی امر ہوتا ہے۔ کچھ توقف کے بعد اشفاق صاحب نے اُس خاموشی کو یوں توڑا ۔اُن کے سامنے ٹی وی ٹرالی کے ساتھ والے میز پر لال رنگ کی مکسچر سے بھراایک چھوٹا ساگلاس پڑا ہوا تھا۔ بالکل اسی رنگ کی مکسچر ہمارے شہر کا ڈاکٹر منان بھی اپنے مریضوں کو دیا کرتا تھا۔ اشفاق صاحب نے مجھے وہ گلاس اُٹھا نے کو کہا۔ میں نے وہ مکسچر انھیں پیش کی تو انھوں نے اُس لال رنگ کے پانی کے دوگھونٹ بھرے اور گلاس مجھے واپس پکڑاتے ہوئے میرے سوال کو دُہراتے ہوئے فرمایا :”کبھی تم اپنے اردگرد دیکھو تو تمھیں بے شمار ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی سوچ سیدھی نہیں ہوتی لیکن انھیں ساری زندگی اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تم اللہ کا شکر کیا کرو کہ تمھیں کم ازکم احساس تو ہے تم سارے دن میں کسی ایک بات پر اپنی سوچ کو سیدھارکھنے کی کوشش کیا کرو۔ پھر دیکھو تمھارے ہر کام میں کیسے برکت پڑتی ہے۔ “ پھر فرمانے لگے: ”یار! میں اب کچھ دیر لیٹنا چاہتا ہوں “وہ اپنے مخصوص بیڈ پر لیٹ گئے اور میں کمرے سے باہر آ گیا۔

                پھر وہ کچھ روز بعد فیروز پور روڈ پر لطیف میموریل ہسپتال داخل ہو گئے۔ ایک روز جب میں شام کو گھر واپس جاتے ہوئے لطیف میموریل گیا تو وہاں بانوآپا کے علاوہ اُن کے پاس اور کوئی نہیں تھا۔ ہسپتال سے باہر ٹریفک رواں دواں تھی۔ گھروں کو لوٹتے سائیکل سوار ، آہستہ رو بوڑھے ، زگ زیگ موٹر سائیکل چلاتے اور اشارہ توڑنے کی کوشش کرتے لڑکے ، چھتوں تک بھری ہوئی لوکل بسوں کے ساتھ لٹکے ہوئے مسافر۔ ان میں سے کسی کو خبر نہ تھی اسی فیروزپور روڈ کے کنارے لطیف میموریل کے ایک بیڈ پر ایک ایسی نابغہ روزگار ہستی موجود ہے جس نے اُردو ادب کو برسوں اپنی انشا پردازی سے وقار اور اعتبار بخشاہے۔ آنے والے زمانے میں اس سے زیادہ صاحب علم تو آتے رہیں گے لیکن اس جیسی نثر اب کون لکھے گا؟ اُس جیسی نثر لکھنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ جس نے تن تنہا اپنے فن کے بل بوتے پر ترقی پسندوں کے جم غفیر میں رہتے ہوئے اپنی الگ پہچان بنائی ۔

                اُس روز اشفاق صاحب ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھے کسی خاتون کا ذکر کر تے ہوئے بتا رہے تھے کہ اُس کے جسم کے مختلف حصوں میں بے شمار پتھریاں تھیں اور حیرت کی بات ہے کہ اُن پتھریوں کی موجودگی سے اُس خاتون کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ یہ بات وہ اس طرح سنا رہے تھے جیسے ہماری توجہ خود پر سے ہٹانا چاہتے ہوں یا پھر ہمیں حوصلہ دینا چاہتے ہوں۔

                یہ میری خاں صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ اُن کے جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ کس طرح بڑے لوگ بھرا میلہ چھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ تو میلے سے تھے ہی نہیں بل کہ میلہ اُن کے دم قدم سے آباد تھا۔ اُن کے جانے کے کچھ عرصے بعد بانوآپا نے مجھے چند کتابیں دیں اور کہا ان کو محمد خان ٹرسٹ کو بھجوادو۔ یہ کتابیں اُن بہت سی کتابوں کا حصہ تھیں جو اشفاق صاحب کی موجودگی میں ہی ٹرسٹ کو بھجوائی جا چکی تھیں۔ اُن باقی رہ جانے والی کتابوں کو پہچانتے ہوئے میں نے بانوآپا سے کہا کہ یہ تو وہی کتابیں ہیں جو اشفاق صاحب نے ذاتی مطالعے کے لیے منتخب کرکے اپنے پڑھنے کے لیے الگ کر کے رکھی تھیں۔                 آپاجی کہنے لگیں ”بیٹا ! جب اُن کو پڑھنے والا ہی چلا گیا تو اب ان کو رکھ کر کیا کریں گے۔ تم انھیں بھی بھجوا دو۔“ اور ان کے ساتھ اشفاق صاحب کی تمام لائبریری جس میں اُردو اور انگریزی کی ہزاروں نادر ونایاب کتب کاایک قیمتی خزانہ تھا مختلف اداروں کو عطیہ کر دیا گیا، یہاں تک کہ ان کتب کی الماریاں بھی دے دی گئیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ بڑے لوگ جانے کے بعد بھی کس طرح دوسروں کو فیض یاب کرتے رہتے ہیں۔