زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ ناتمام سے

یہ تحریر 2232 مرتبہ دیکھی گئی

بلراج مینرا نے 1971ء کے بعد کوئی افسانہ نہیں لکھا۔ اس سے پہلے جو افسانے لکھے ان کی تعداد بھی زیادہ نہیں یعنی کل پینتیس۔ لیکن افسانوں کی ہئیت، اسلوب اور مزاج میں کوئی تو بات تھی، کوئی اضطرابی یا سیمیائی کیفیت، کہ تقریباً پینتالیس سال گزر جانے کے بعد بھی مینرا کا کچھ نہ کچھ رعب تو قائم ہے۔ اگر رعب کا لفظ بے محل معلوم ہو تو اس کی جگہ کوئی کم اشتعال انگیز لفظ رکھ لیجیے۔ یہ کہیے کہ اہل نظر میں ایک موجودگی جس کا auraآج تک روشن ہے۔

مینرا نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ معلوم نہیں۔ ادب کی دنیا میں اس سے ملتی جلتی مثالیں موجود ہیں۔ رامبو نے پہلی نظم گیارہ برس کی عمر میں لکھی، انیسویں برس میں شاعری کو خیرباد کہا اور افریقہ جا کر بردہ فروش بن گیا۔ گوگول نے اپنے شہرہئ آفاق ناول ”ڈیڈ سولز“ کا دوسرا حصہ لکھ لکھا کے نذرِ آتش کر دیا اور ادب سے تعلق قطع کر لیا۔ ٹامس ہارڈی اپنے ناول ”جیڈ دی اوبسکیور“ پر اوٹ پٹانگ سے اتنا چڑا کہ فکشن لکھنا ہی چھوڑ دیا۔

ایک وجہ مینرا نے یہ بیان کی ہے کہ ”میں کہانیاں کہاں بھیجوں؟ آپ ایک پرچہ بتائیے جن میں میں چھپنے کا عادی تھا۔ ’سویرا‘ یا جس معیار کا پرچہ میں نے نکالا۔“ یہ استدلال کچھ قائل کن معلوم نہیں ہوتا۔ افسانے لکھنے کے لیے کسی مستند یا معیاری ادبی رسالے کا ہونا ضروری نہیں۔ افسانے لکھ کر انھیں مجموعے کی صورت میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مینرا شرکت پر یقین رکھتا ہے، اس کی نوعیت خواہ ادبی ہو یا سیاسی یا سماجی۔ کسی پسندیدہ رسالے میں شائع ہونا ادب اور ادیبوں سے یک جہتی کے اظہار کے مترادف ہے۔ افسانے لکھ کر انھیں صرف کتابی صورت میں چھپوانا ایک طرح کی علیحدگی پسندی ہے۔ اس قسم کی خواص پسندانہ حرکتوں کو مینرا نے ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

زیادہ تکلیف دہ مینرا کا یہ اعتراف ہے: ”اب تو میں لکھ نہیں سکتا۔ ہاتھ کام نہیں کرتا۔ لیکن اس وجہ سے بھی چھوڑ دیا کہ اب کیا لکھنا ہے؟ کیا رکھا ہے۔ ایک ایسا دور بھی آتا ہے۔ ہمیں تو افسوس ہے کہ کیوں لکھا؟ نہ لکھتے تو زیادہ اچھا تھا۔ میں جو لکھنا چاہتا تھا اس کو چھوا بھی نہیں۔ میں نے تو زندگی تباہ کر دی۔ جتنا Potentialمجھ میں تھا اس کا پانچ فیصد بھی استعمال نہیں کیا۔“ یہ شکست خوردگی اور جرأت کا فقدان ہے۔

یہ باتیں مینرا نے سرور الہدیٰ سے کہیں جو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، میں اردو کے استاد ہیں۔ انھوں نے مینرا کے بارے میں ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کا عنوان ”بلراج مینرا: ایک ناتمام سفر“ ہے۔ یہ مینرا کے فن اور شخصیت کا متوازن جائزہ ہے۔ کتاب میں مینرا کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ ایک تعارفی مضمون شمیم حنفی کے قلم سے ہے۔ ایک اور مضمون ”بلراج مینرا کے افسانے: زندگی سے موت کا مکالمہ“ ناصر عباس نیر نے لکھا ہے جس میں اپنے مخصوص انداز میں، تفصیل سے، مینرا کی افسانوی کاوشوں کی معنویت کا جانچا پرکھا ہے۔ باقی سبھی مضامین سرورالہدیٰ نے تحریر کیے ہیں۔ جب اس طرف خیال جاتا ہے کہ اردو کے بہت سے ادیبوں کے بارے میں ایک بھی کام کی کتاب نہیں ملتی تو سرور الہدیٰ کی کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اس کتاب کو مرتب کر کے سرورالہدیٰ نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ اتنا کم لکھنے کے باوجود جدید اردو ادب میں مینرا کو اہم مقام حاصل ہے۔ مینرا کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خود کو ایک باذوق مدیر بھی ثابت کر چکا ہے۔ اس نے ”شعور“ نامی رسالہ شائع کیا۔ اگر چہ اس رسالے کے چند شمارے ہی نکل سکے لیکن وہ ہر لحاظ سے معیاری اور جازبِ نظر تھے اور آج بھی ان کو یاد کر کے راحت کا احساس ہوتا ہے۔ خوش ذوقی اور اپنے لیے طے کردہ معیاروں پر کسی طور سمجھوتہ نہ کرنا، یہ دونوں خوبیاں ”شعور“ کو امتیاز عطا کرتی تھیں۔ اصل میں تو مینرا کو کسی بڑے اشاعتی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے تھا۔ وہ ہمیں دکھا سکتا تھا کہ اعلیٰ کتابیں کیا ہوتی ہیں اور ان کو دیدہ زیب انداز میں شائع کرنا کیسے ممکن ہے۔ افسوس کہ جو لوگ کام کے اہل ہوتے ہیں ان کو مواقع نہیں ملتے۔