درِ نیم وا

یہ تحریر 2425 مرتبہ دیکھی گئی

درِ حیرت تھوڑا سا کُھلتا ہے اور ایک جھلک اُدھر کی، لفظوں کی صورت میں، تصویروں میں، تحیر اور تشویش کے عالم میں، اِدھر پہنچتی ہے۔ شاعر کو یہ سوچ الجھائے رکھتی ہے کہ حقیقت کہاں ہے۔ جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں وہی مجاز ہے یا کہیں جا کر دونوں کیفیتیں مدغم ہو گئی ہیں۔ تمام قابلِ ذکر شاعروں کی طرح تابش کا کلام بھی ختم نہ ہونے والی جستجو ہے۔ اپنے لہجے میں چُھپی تنہائیوں کے درمیان اک گم شدہ آواز کو سننے کی تمنا، فصلِ گل کی صبح کی پہلی بارشوں میں کسی گلِ نوخیز کی وارفتگی کا تربتر منظر، کسی خیرہ کر دینے والی محبوبیت کو اس طرح دیکھ لینا جیسے دھوپ کے پہلو میں دھوپ کھڑی ہو۔ غزل میں پوری طرح بااختیار اور تر زبان ہونے کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تابش کا جوہر طویل اظہار میں کُھل کر سامنے آتا ہے۔

دو طویل قصائد، بحضورِ سرورِ کونینﷺ، جن میں سے ایک بابا فرید شکرگنجؒ کی توجہ سے روشن و گلشن ہے، حیرت افزا ہیں۔ ان کی روانی، آراستگی، بے ساختگی، نکھار، لفظوں کا شائستہ طنطنہ، ان میں سمائی ہوئی ارادت اور عقیدت، سراسر عطا ہیں۔ اسی طرح ”کے درمیاں“ کی ردیف والی طویل غزل کبھی منشور معلوم ہوتی ہے، کبھی دعا، کبھی حزن، کبھی آشوب اور کبھی التجا۔ غرض رنگ یا پیرہن بدلتی ہوئی کسی سَیل کی طرح رواں دواں ہے۔ تابش کا پہلا مجموعہ ”لبِ لرزاں“ ناشر کی بے اعتنائی یا غفلت کے سبب صحیح معنوں میں سامنے نہیں آ سکا تھا لیکن ”درِ نیم وا“ کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مندرجات تابش کے شعری مرتبے کو نئے سرے سے متعین کرنے میں معتبر ثابت ہوں گے۔