جی میں کس کا تصور آ گیا

یہ تحریر 1915 مرتبہ دیکھی گئی

اس سے پہلے شاہد ملک کے کالم پڑھنے کو ملے تھے۔ اب ان کی ایک اور کتاب سامنے آئی ہے جو خاکوں پر مشتمل ہے۔ اخباروں کے لیے کالم لکھنے میں یہ دقت ضرور ہے کہ کالم کے لیے جگہ مقرر ہوتی ہے۔ دو تین سطریں کم یا زیادہ ہو جائیں تو مضائقہ نہیں۔ بعض اوقات کالم کے آخر میں “جاری ہے” لکھ کر اسے طول دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح وہ مضمون کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس میں کالم جیسی کساوٹ نہیں رہتی۔

بہرحال، خاکہ نویسی میں اس نوع کی بندشیں نہیں۔ شاہد ملک کے خاکوں میں، ایک کے سوا، کوئی بھی طویل نہیں۔ خوبی یہ ہے کہ سبھی خواندنی ہیں۔ انہیں اردو، پنجابی اور انگریزی سے گہری واقفیت ہے۔ اس واقفیت سے ان کی تحریر دل پر اثر کرتی ہے۔ زبان پر عبور نہ ہوتو، معلومات چاہے کتنی ہی فراہم کر دی جائیں، لطف نہیں آتا۔

تین خاکے ان شخصیتوں کے ہیں جو معروف ہیں یعنی فیض احمد فیض، مجید نظامی اور خالد حسن۔ ان کے علاوہ دس ایسے ہیں جنھیں شاید آنے والے زمانے میں کوئی خاص یاد نہ رکھا جائے بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ شاہد ملک کے خاکوں کی بدولت ان کا نام باقی رہے گا۔ کم از کم وہ سب جیتی جاگتی اور بعض اوقات طرفہ شخصیتوں کے طور پر ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ فیض صاحب کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ نہ وہ کسی سے جھگڑتے تھے نہ ناراض ہوتے تھے نہ بحث کرتے تھے۔ اس کی کئی مثالیں شاہد ملک کے خاکے میں موجود ہیں۔ اس وضع کا ٹھیراؤ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فیض صاحب شاک ایب سوربر (صدمہ جذب) تھے۔ زندگی کے تمام جھمیلوں میں کوئی نہ کوئی پہلو تسلی اور تشفی کا ڈھونڈ لیتے۔ شاک ایب سوربر کی بات عبداللہ حسین سے سنی تھی جو، جب ذرا ناراض ہوتے، تو کہتے: “میں نے کافی صدمے جذب کر لیے۔ اب مزید کی گنجائش نہیں۔”

اگر پاکستان کے ٹی وی چینلوں کی بدنظمی اور مالک یا مالکان کی سیمابی روش سے آگاہی مقصود ہو تو مجید نظامی کا خاکہ پڑھ لیجیے۔ اس کی خواندگی سے اچھا بھلا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ چینل بیزار کن کیوں ہیں اور اونٹ کی طرح ان کی کوئی کل سیدھی کیوں نہیں ہوتی۔ غالباً یہ کتاب میں سب سے دلچسپ خاکہ ہے اور طنزِ ملیح سے قریب ہے۔ شاہد ملک چوں کہ لکھنے کا ڈھب جانتے ہیں اس لیے خاکے میں کسی بات سے دل آزاری کا پہلو نہیں نکلتا۔

طبیعت تو خالد حسن کی بھی سیمابی تھی جس میں تھوڑا ساتڑکا بے نیازی یا یوں کہہ لیجیے بے دریغی کا بھی تھا۔ شاہد ملک کا ان سے اور ان کے بھائی، مسعود حسن سے، جن کا خاکہ بھی کتاب میں موجود ہے، قریبی تعلق تھا۔ چناںچہ ان کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ پُرلطف بھی ہیں اور تعجب خیز بھی۔ خالد حسن نے اظہار کے لیے انگریزی کو چنا تھا۔ اس لیے کہا نہیں جا سکتا کہ انھیں کب تک یاد رکھا جائے گا۔

زمرد ملک نے، افسوس ہے، کم عمر پائی۔ ان کی صلاحیت اور منکسر مزاجی کا سراغ خاکے سے ملتا ہے۔ معلوم نہیں کہ جو انگریزی ناول انھوں نے لکھنا شروع کیا تھا اس کا مسودہ کس کے پاس ہے یا گم ہو چکا۔ ناول نامکمل ہی سہی، چھپنا تو چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ ان کے پنجابی اور اردو کلام کو کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ دس پندرہ سال بعد کسی کی توجہ نہ رہے گی۔ یہی بات میں شاہد نصیر کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ خاکہ تو شاہد ملک نے اچھا بھلا لکھ دیا۔ اگر شاہد نصیر کا کلام بھی محفوظ ہو جائے تو خوب ہو۔ ممکن ہے ان کا کوئی مجموعہ شائع ہوا ہو۔ مجھے علم نہیں۔

ان کے علاوہ ضیا ڈار، نصر اللہ ملک، رفیق محمود، آفتاب اقبال شمیم، علی احمد خاں اور خرم قادر کے خاکے بھی دلچسپی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ علی احمد خاں کا خاکہ چشم کشا ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہم نے جو رویہ اپنا رکھا تھا اس پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست۔

سب سے طویل خاکہ شاہد ملک نے اپنے والد، نذیر احمد ملک، پر لکھا ہے۔ والدین کے بارے میں لکھنا مشکل کام ہے۔ اسے رکاوٹوں کی دوڑ سے مشابہ سمجھیے۔ توازن قائم رکھنا آسان نہیں رہتا۔ اگر زیادہ تعریف کر دیں تو لوگ کہتے ہیں، جیسا کہ قرۃ العین حیدر کے معاملے میں ہوا، کہ صاحب، ان کے خاندان میں تو کوئی نابغے سے کم ہے ہی نہیں۔ اگر حقائق کے بیان میں ذرا تلخی آ گئی تو کہا جائے گا کہ کیسا ناخلف ہے۔ شاہد ملک کا خاکہ بڑا متوازن ہے۔ والد طبیعت کے کڑوے نہ تھے۔ اگر ہوتے تو شاہد ملک کو، جب وہ کیڈٹ کالج، حسن ابدال، میں داخل ہونے کے بعد، وہاں کے ماحول سے بدظن ہو کر، بھاگ کر گھر آ گئے، ضرور برا بھلا کہتے۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شاہد ملک لکھتے ہیں: “میرے والد کے ایک گو نہ محتاط رویے کو جلد باز لوگ شاید مصلحت کوشی پر محمول کریں مگر میرے خیال میں ان کی ذات پہ اس سے بڑی تہمت لگائی ہی نہیں جا سکتی۔” وہ یہ بھی کہتے ہیں: “اگر ۔۔۔۔۔ فرمائش ہو کہ دو لفظوں میں ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف بیان کرو تو میں بلاتامل کہوں گا کہ صاف آدمی۔” اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خاکہ خوش دلی اور صاف دلی سے قلم بند کیا گیا ہے۔ برسبیل تذکرہ، یہ کہنے میں ہرج نہیں کہ اردو میں والد پر سب سے اچھا خاکہ ابن سعید نے لکھا ہے۔ یہ ایک روکھے، کم آمیز اور قدرے سخت گیر فرد کی تصویر ہے جو کمال احتیاط سے کھینچی گئی ہے۔

اردو میں خاکوں کے جو مجموعے ہیں ان میں شاہد ملک کی کتاب کو خوش گوار اضافہ سمجھنا چاہیے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر سلاست اور خوش اسلوبی سے ادا کر سکتے ہیں۔ مزاح کی پُٹ اس پر مستزاد ہے۔ جو مصنف اس طرح کے جملے لکھنے پر قادر ہے اس کی نثر کیوں نہ دل آویز ہو۔ “بہار یہ امیجری، بحر کا تیز اور سست تموج، زمینی حقائق اور انسانی خواب، خوابوں کی شکست، مرئی اور غیرمرئی سچائیاں، حرف و معنی کے تہ در تہ اسرار اور پانی، مٹی، آگ، ہوا کے میدانوں میں اور میدانوں کے باہر ہونے کا نہ ہونے کا کھیل “یا” مجھے پہلی بار گمان گزرا کہ اس کائنات میں الفاظ و تراکیب کی ضرب تقسیم سے جتنے بھی متن وجود میں آ سکتے ہیں وہ پہلے سے کہیں لکھے ہوئے ہوں گے اور مسئلہ صرف انھیں دریافت کرنے کا ہے۔” ویسے ہم کہاں دریافت کرتے ہیں۔ وہ خود کرم فرماتے ہیں۔ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔

یہ سلسلہ یہاں ختم نہ ہونا چاہیے۔ ان کی زنبیل میں اور بہت کچھ ہے۔ ابھی انھوں نے کرکٹ، تصوف، شاعری، موسیقی، فلموں، ویلز اور لندن میں قیام پر کچھ نہیں لکھا۔ پھر بھی اس مختصر کتاب میں بہت سما گیا ہے۔ اگر کتاب کے آخر میں اشاریہ ہوتا تو پتا چلتا کہ کتنے لوگوں کا ذکر یہاں آ گیا ہے۔

یار سرائے از شاہد ملک

ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 214؛ پانچ سو روپیے