جہاں دل کو سکون ملتا ہے

یہ تحریر 1896 مرتبہ دیکھی گئی

جسے لکھنا پڑھنا آتا ہو اور ایسے افراد سے ملتا جلتا رہتا ہو جو ادب سے شناسا ہوں تو وہ خود بھی، اگر چاہے، تو کتاب لکھ سکتا ہے۔ کتاب لکھنے کے لیے کسی غیرمعمولی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنی زندگی اور مشاہدات کو سیدھے سادے طور پر ادا کرنے کی قدرت ہر کسی کو حاصل ہے۔ اصل میں ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے یا خواہ مخواہ فرض کر لیتے ہیں کہ مطلوبہ اہلیت ہمارے پاس نہیں۔ اگر آدمی نابغوں ، مثلاً میر، غالب، اقبال، وارث شاہ یا بلھے شاہ سے، جو ہر زبان میں ہر صدی میں تین چار ہی ہوتے ہیں، ٹکر لینے کی نہ سوچے تو مصنف بننے میں دیر نہ لگے۔ اور ایک دفعہ جھجک ختم ہو جائے تو وہ ایک کیا دس کتابیں لکھ سکتا ہے۔

اسی طرح کی ہچکچاہٹ اور ادھیڑ بن سے محمد عارف جمیل کو واسطہ پڑا جب عکسی مفتی صاحب نے انھیں عمرہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ کسی غیبی طاقت نے ان سے کہلوا دیا کہ وہ چلنے کو تیار ہیں۔ پھر یہ فکر لاحق ہوئی کہ جو فرائض ادا کرنے ہوں گے ان سے عہدہ برا ہونے میں، خدا جانے، کیا دقتیں پیش آئیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جب پہلا قدم اٹھا لیا جائے تو ہر اگلا قدم آسان سے آسان تر ہوتا جاتا ہے۔

سو عارف اپنی بیگم نجیبہ اور عکسی مفتی اور ان کی بیگم کی معیت میں اکیس دن کے عمرے پر روانہ ہو گئے۔ “حاضر سائیں” ان اکیس دنوں کا احوال ہے۔ انھوں نے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں کیا کیا، کیا دیکھا، محسوسات کیا تھے، ان سب کا بیان ستھرے انداز میں کتاب میں آ گیا ہے۔ کہیں کہیں جذبات پر قابو نہیں رہا۔ لیکن وہ کون سا مسلمان ہے جو ان مقدس مقامات میں پہنچ کر حیرت میں گم اور عقیدت سے سرشار نہ ہو جائے؟ یہ خیال مٹ جاتا ہے۔ وہ کون سے زمانے میں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مدتوں پہلے کی مقدس ہستیوں اور آج کل کی برگزیدہ شخصیتوں کے درمیان کہیں ہے۔ نثر میں چوں کہ کاوش اور تصنع کو دخل نہیں، محسوسات میں کھراپن ہے اس لیے ہر بات بھلی لگتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جس کا خلوص کامل ہو وہ مدینے اور مکے کی گلیوں میں فقیرانہ زندگی گزارنے کو تمام دنیوی آسائشوں اور دولتوں پر ترجیح دے گا۔ لوٹ آنے کو عارف صاحب کا بھی دل نہیں چاہتا تھا لیکن بعض مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے روبرو آدمی لاچار ہو جاتا ہے۔

جو حضرات اور خواتین عمرے یا حج کی سعادت سے بہرہ ور ہو چکے ہیں ان پر، کتاب پڑھ کر، وہی کیفیت طاری ہو گی جو انھوں نے کبھی محسوس کی تھی۔ جنھیں ان مقدس مقامات میں عبادت کرنے اور قیام و طعام کے مواقع ابھی نہیں ملے وہ “حاضر سائیں” کے مطالعے سے طبیعت میں اہتزاز سے دوچار ہوں گے۔

عارف حقیقت پسند ہیں۔ اس لیے بابرکت سفر کے روشن پہلو تو ان کے سامنے رہے ہیں، تاریک جہتیں بھی مخفی نہیں رہیں۔ وہ پاکستانیوں کی بے قاعدگی، بے تمیزی اور دنیاداری کے شاکی ہیں، جو خانہء خدا میں فریب کاری سے باز نہیں آتے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی عزت کم ہی کی جاتی ہے۔ خود عکسی صاحب نے عارف کو ہدایت کی تھی کہ شلوار قمیض پہننے سے احتراز کریں ورنہ سعودی عرب میں انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔

خود سعودی حکومت کا حال بھی ابتر نظر آیا ہے۔ حکومت کے پاس اتنے فنڈز بھی نہیں کہ وہ اپنے مستقل کارکنوں کو ماہانہ تنخواہ دے سکے۔ کئی کارکن خودکشی کر چکے ہیں۔ ایسی خبروں کو عام نہیں ہونے دیا جاتا۔ دوسری طرف سعودی حکومت اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہی ہے۔ جنت البقیع میں عورتوں کو قدم نہیں رکھنے دیتے۔ بدعت بدعت کا ہر وقت شور مچاتے رہتے ہیں۔ اور اب خود اس قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ یہودیوں کو دوست مت بناؤ۔ یہ کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ دیکھنا ہے کہ “عرب یہودی بھائی بھائی” کا نعرہ کتنے دن چلتا ہے۔

یہ حقائق ہیں جن سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ بنیادی طور پر ان کا کوئی تعلق “حاضر سائیں” سے نہیں جو ایک سادہ طبعیت مسلمان کی مخلصانہ نیازمندی کی روداد ہے۔ نہیں معلوم عارف صاحب آیندہ کیا لکھیں گے۔ امید ہے کہ اب وہ قلم سے دست کش نہیں ہوں گے۔ ہمت کی تو عمرہ کر آئے۔ مزید ہمت کی تو سفرنامہ لکھ ڈالا۔ اب اور ہمت کیجیے۔ آپ کے سامنے لامحدود میدان ہے اور لامحدود امکانات۔

حاضر سائیں از محمد عارف جمیل

ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 226؛ سات سو روپیے

٭٭٭٭٭٭