جگنو

یہ تحریر 916 مرتبہ دیکھی گئی

میں ماضی پرست سا ہوں ۔ کیوں ہوں؟ اس کا جواب آج تک نہ ڈھونڈ سکا ۔ زمانہ حال میں سانس ضرور لے رہا ہوں مگر جانے کیوں اس زمانے میں جانا چاہتا ہوں جو میں نے شائد نہیں دیکھا ، میرے بڑوں نے ضرو ر دیکھا ہوگا۔دوسری طرف وہ زمانے ہیں جن میں سے گذر کر یہاں تک پہنچا ہوں اب بھی یادوں کی صورت میں میرے ساتھ سرگوشیاں کرتے رھتے ہیں۔ماضی سے جڑی اشیاء بہت سنبھال کر رکھتا ہوں۔ کل ہی کی بات ہے میں نے اپنی کچھ پرانی تصویریں نکالنے کے لئے الماری کا کیبنٹ کھولا ،جو منظر دیکھا اسے دیکھتے ہی دل بند سا ہونے لگا۔ جانے کہاں سے دیمک اس کے اندر چلی آئی تھی اور اس نے کئی اشیاء کا صفایا کر دیا تھا۔ کچھ بچنے والی چیزوں میں ایک اخباری تراشہ تھا ۔
1980ء میں جب گلوکار محمد رفیع کی وفات ہوئی تب ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات کا زمانہ تھا۔ محمد رفیع کے فنی سفر کی داستانیں اخبارات میں تواتر سے چھپ رہی تھیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرام نشر کئے جارہے تھے۔ ایک اخبار میں ایک مضمون میں لکھنے والے نے لکھا کہ محمد رفیع کو فلم انڈسٹری میں عروج جس گانے سے ملا وہ فلم جگنو کا ایک دوگانا تھا جسے انہوں نے نورجہاں کے ساتھ گایا تھا۔ بول تھے ” یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے ”
یہ آج کا زمانہ نہیں تھا کہ یوٹیوب پر لکھو اور دیکھ لو۔ اس گانے کو کھوجنا شروع کیا ۔ تلاش کے اس سفر میں ایک دن ایسا بھی آیا کہ آل انڈیا ریڈیو نے اس گیت کو نشر کیا ۔ میں نے اسے فورا” ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کر لیا۔


ایک دن ہمارے گھر ہماری والدہ کے ایک ماموں تشریف لائے۔ میں ٹیپ ریکارڈر پر یہی گیت سن رہا تھا۔گیت کی آواز ان تک پہنچی تو کہنے لگے
ارے یہ تو ہمارے زمانے کا گانا ہے
گانا ختم ہوگیا تو کہنے لگے اسے دوبارہ سناو۔ میں نے دوبارہ لگادیا۔ پھر سنا ، اور کئی بار سنا۔ جب وہ گانا سن رہے تھے تو میں مسلسل ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ان کی آنکھیں بند تھیں اور وہ کہیں کھوئے ہوئے تھے۔
اس منظر نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ میں یہ سوچنے لگ گیا تھا کہ وہ فلم کیسی ہوگی جس کا یہ گیت اتنا متاثر کن ہے۔ اب اس فلم کو دیکھنے کا جنون لاحق ہوگیا۔ اس زمانے میں ابھی وی سی آر اتنے عام نہیں ہوئے تھے۔ ٹی وی پر بھی دو چینل ہی آتے تھے۔ ایک لاہور اور دوسرا دور درشن( انڈیا ) ۔ انڈیا کے ٹی وی پر اکثر گانوں کا پروگرام ” چتر ہار ” لگتا تھا ۔ جس میں فلموں سے لئے گئے گانے دکھائے جاتے تھے۔ اسی طرح ہفتے میں ایک فلم بھی دکھائی جاتی تھی۔ میں یہ آس لئے انڈیا کا ٹی وی دیکھا کرتا کہ شائد فلم جگنو یا اس کا اوپر بتایا گیا گیت دیکھنے کو مل جائے۔ مگریہ تمنا کبھی پوری نہ ہوئی۔
1988ء آگیا ۔ ایک دن اخبار میں ایک اشتہار چھپا۔
” آج جبکہ دلیپ کمار اپنی 45 سالہ پرانی یادوں کو تازہ کر رہے ہیں آئیے ہم بھی اسی دور کے دلیپ کمار کو فلم جگنو کے ویڈیو کیسٹ پر دیکھیں ”
ان دنوں دلیپ کمار ( محمد یوسف خاں ) پاکستان کا دورہ کررہے تھے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب جیب خرچ کے لئے لگی بندھی رقم ہی ملا کرتی تھی۔ ویڈیو کیسٹ لینا بھی ضروری کہ ایک پرانی تمنا مچل رہی تھی ۔اور جیب میں پیسے بھی نہیں۔
انہی دنوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے ایک عزیزوں کے ہاں گوجرانوالہ گیا۔ پرانے لوگوں کی رسم تھی کہ آنے والے مہمانوں میں سب سے چھوٹے کو میزبان کچھ رقم دیا کرتے تھے۔ میں چونکہ سب سے کم عمر تھا چنانچہ مجھے 200 روپے وہاں سے مل گئے۔ میں نے اسی وقت سوچ لیا کہ ان کا کیا کرنا ہے۔
ویڈیو کیسٹ کی قیمت 250 روپے تھی۔ 50 روپے اپنی طرف سے شامل کئے اور پینوراما شاپنگ سنٹر میں اشتہار میں دئیے گئے پتے پر پہنچ کر کیسٹ لے لیا ۔
اب ایک نئی پریشانی شروع ہوگئی ۔ کیسٹ پاس مگر دیکھوں کیسے۔ ایک کزن سے وی سی آر لیا اور بالآخر فلم دیکھ لی۔ یوں کہیئے کہ سکون آگیا ۔
میری الماری سے جو اخباری تراشہ نکلا تھا وہ اس فلم کا اشتہار تھا۔ اور اس کے ساتھ ویڈیو کیسٹ بھی تھا۔
آج صبح فیس بک کے ذریعے خبر ملی کہ ” دلیپ کمار کا انتقال ہوگیا ہے ”
اس فلم کے دو مرکزی کردار سورج ( دلیپ کمار ) اور جگنو ( نور جہاں ) اس دنیا سے جاچکے ہیں ۔ مگر یادوں میں ہمارے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین

عمر عبدالحئی کی دیگر تحریریں